واشنٹگن۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ہمیں صومالیہ اور سوڈان سے خطرات کا سامنا ہے،امریکہ کو چین اور روس کی جانب سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے،روس اور چین چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں الجھا رہے۔
امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہم نے آئی ایس آئی ایس کی کمر توڑ دی،30ہزار افغان فوجیوں کو 20 سال تک تربیت دی۔ہمیں یقین تھا کہ افغان سیکیورٹی فورسز طالبان کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔امریکہ کو اندازہ نہیں تھا کہ افغان صدر اشرف غنی ملک سے فرا ر ہوجائے گا۔مشکل حالات میں کابل سے فوجیو ں اور شہریوں کے انخلا کا خطرناک چیلنج پورا کیا،کابل کی سیکیورٹی کے لیے چھ ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دی۔انخلا کو کامیاب بنانے پر فورسز اور سفارتی عملے کا شکر گزار ہوں،100 سے 200 امریکی باشندے اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔داعش کے حملے میں ہلاک ہونے والے 13 امریکی فوجیوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔طالبان کے ساتھ ملکر کام کرنے کا فیصلہ قبل ازوقت ہوگا۔افغانستان سے جو بھی جانا چاہے اسے اجازت ہو،طالبان اپنا وعدہ پورا کریں۔طالبان نے خود انخلا کے لیے محفوظ راستہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔افغانستان سے انخلا کی خواہشن رکھنے والوں کی مدد کریں گے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میرے اقتدار میں آنے سے قبل 2020 میں طالبان سے معاہدہ ہوچکا تھا۔اپریل میں امریکی انخلا کا فیصلہ کیا امید تھی افغان حکومت معاملات کو سنبھال لے گی۔امریکی فوجیوں نے 17 دنوں میں ہزاروں شہریوں کو افغانستان سے نکالا۔افغانستان کی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔طالبان کے الفاظ نہیں ان کے عمل پر یقین کریں گے۔سلامتی کونسل نے بھی طالبان کو اپنے وعدے پورے کرنے کا کہا ہے۔یقینی بنائیں گے کہ افغانستان کی سرزمین دوبارہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔ہم افغانستان میں عدم استحکام نہیں چاہتے۔امریکی فوجیوں نے خطرناک مشن کو بہترین طریقے سے سرانجام دیا۔ہم 90 فیصد امریکی شہریوں کو افغانستان سے نکال چکے ہیں۔غیر سرزمین پر فوجیوں اور اربوں ڈالر سے امریکہ کو محفوظ نہیں بنایاجاسکتا۔ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔دنیا تبدیل ہورہی ہے ہم چائنہ کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں۔سائبر حملے ہورہے ہیں ،نیوکلئیر مواد کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ہم بھولیں گے نہیں جو بھی امریکہ پر حملہ کرے گا اسکو بدلہ لیا جائے گا۔امریکہ غیر معینہ مدت تک افغانستان میں نہیں رہ سکتا تھا۔افغانستان میں تیسری دہائی گزارنا بھی ہمارے مفاد میں نہیں تھا۔