• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

۴ روزہ ہفتہ اورپاکستان میں کام کے اوقات محمدصدیق پرہار

webmaster by webmaster
جولائی 13, 2021
in کالم
0
۴ روزہ ہفتہ اورپاکستان میں کام کے اوقات  محمدصدیق پرہار

موجودہ دور میں جب وقت کی قیمت اوربھی بڑھ گئی ہے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ویب ساءٹ پرموجود ایک خبرنے مجھے حیرت میں ڈال دیاہے کہ آئس لینڈ میں ہفتے میں بس چاردن کام کرنے کاتجربہ کامیاب قرارپایاہے ۔

خبر میں لکھاہے کہ محققین کاکہناہے کہ آئس لینڈ میں چارروزہ ہفتہ بہت کام یاب رہاہے اور اب اس سے کئی ملکوں میں ملازمین اتنے ہی معاوضے پرکم گھنٹے کام کرسکیں گے ۔ چارروزہ ہفتے کی آزمائش سال دوہزارپندرہ سے دوہزارانیس کے درمیان آئس لینڈ میں ہوئی تھی ۔ جس میں ملازمین کوکم گھنٹے کام کرنے کا اتناہی معاوضہ دیاگیاتھا ۔ ماہرین کے مطابق اس دوران اکثرکمپنیوں میں پیداوارکی شرح برقراررہی یا بعض اوقات پیداواربڑھ گئی جب کہ ملازمین نے پہلے جتناکام کرکے دیا ۔ آئس لینڈ میں اس کی آزمائش سٹی کونسل نے کی اوربعد میں حکومت نے ۰۰۵۲ سے زیادہ ملازمین کواس کاحصہ بنالیا ۔ یہ آئس لینڈ میں ملازمین کی کل آبادی کاقریب ایک فیصدبنتاہے ۔ برطانوی تھنک ٹینک اٹانومی اورآئس لینڈ میں پائیدارجمہوریت کی تنظیم ایلڈا کاکہناہے کہ اس تحقیق میں ملازمین سے ہفتے میں چالیس گھنٹے ۵۳ یا۶۳ گھنٹے کام لیاجاتاتھا ۔ محققین کاکہناہے کہ ان آزمائشوں کے دوران یونینز نے کمپنیوں سے کام کاج کے طریقہ کارپرمذاکرات کیے اوراب آئس لینڈ میں ۶۸ آبادی کواتنے ہی معاوضے پرکم گھنٹے کام کرنے کی سہولت حاصل ہے یامستقبل میں ایساممکن ہوجائے گا ۔ اس تحقیق کے نتیجے میں اب ملازمین کی جانب سے تھکاوٹ یابرن آءوٹ کے خطرے کی شکایات کم ہوئی ہیں ۔ جب کہ ان کی صحت اورکام کاج کے درمیان توازن بہترہواہے ۔ اٹانومی کے ریسرچ ڈائریکٹرول سٹرونج کاکہناہے کہ حکومتی شعبے میں ہفتے بھرکام کے دورانیے میں کمی سے متعلق دنیاکی سب سے بڑی آزمائش سے ثابت ہواکہ یہ ہرطرح سے بڑی کام یابی ہے ۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ سرکاری شعبہ کم گھنٹے کام کے لیے تیارہے ۔ ایلڈا میں محقق گڈمنڈورڈی ہارلڈسن کے مطابق آئس لینڈ میں ہفتے میں کم گھنٹوں کے لیے کام کے منصوبے سے پتہ چلتاہے کہ یہ نہ صرف جدیددور میں ممکن ہے بلکہ اس سے اچھی تبدیلی بھی آسکتی ہے ۔ مئی میں پلیٹ فارم لندن نامی تنظیم کی جانب سے چارروزہ ہفتے کی مہم کے لیے جاری رپورٹ میں بتایاگیاکہ اس سے برطانیہ میں کاربن اخراج میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔

آئس لینڈ میں ہفتے میں چارروزہ ہفتہ کاتجربہ کام یاب رہا ۔ اس کے بہترنتاءج سامنے آئے ہیں ۔ یہی تجربہ دنیاکے دیگرممالک میں بھی کیا جا رہا ہے ۔ سوال یہ سامنے آتاہے کہ کیا ایساپاکستان میں بھی ممکن ہے یانہیں ۔ اس سوال کاجواب تلاش کرنے سے پہلے ہ میں ان دوباتوں کاجائزہ لیناچاہیے کہ کیاپاکستان کے معاشی حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم ہفتے میں چاردن کام کریں اورتین روزچھٹی کریں ۔ اس کے علاوہ مہنگائی کے اس دور میں جب لوگوں کے لیے روزہ مرہ کے اخراجات پورے کرنامشکل سے مشکل ہوتاجارہاہے ہفتے میں تین دن کام نہ کرناکیسے ممکن رہے گا ۔ ملک کے معاشی حالات اورمہنگائی کے اس دور میں ہفتہ اگردس دن کابھی ہوتا اورہم ہفتہ بھرہی کام کرتے تب بھی وقت کی کمی ہماراقومی مسئلہ رہتی ۔ یہ حقائق اپنی جگہ لیکن زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی وجہ سے انسانی صحت پرجواثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس کا ایک اثر توبرطانوی نشریاتی ادارے کی مذکورہ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ چارروزہ ہفتے کی آزمائش اورتحقیق کے دوران ملازمین کی جانب سے تھکاوٹ یابرن آءوٹ کے خطرے کی شکایات کم ہوئی ہیں ۔ جب کہ ان کی صحت اورکام کاج کے درمیان توازن بہترہواہے ۔ آسان الفاظ میں اس بات کویوں سمجھاجاسکتاہے کہ زیادہ دیرکام کرنے سے تھکاوٹ بھی ہوتی ہے اوربرن آءوٹ کاخطرہ بھی بڑھ جاتاہے ۔ پاکستان میں سرکاری دفاتر میں کام کادورانیہ عام طورپرآٹھ گھنٹے ہے ۔ نجی دفاتر ،کمپنیوں ، فیکٹریوں ، دکانوں ، ہوٹلوں ، ریسٹورانوں اورورکشاپوں میں کام کادورانیہ آٹھ گھنٹوں سے بارہ گھنٹوں تک ہے ۔ جوانسان ۲۱ گھنٹے کسی کمپنی، کسی فیکٹری یاکسی ورکشاپ میں کام کرے ۔ اس کے علاوہ اس کی ذاتی اورنجی مصروفیات بھی ہیں ۔ ان کو گھر کا سود ا سلف بھی لاناہے ۔ بیوی بچوں کووقت بھی دیناہے ۔ ان کے لیے حسب ضرورت اورحسب خواہش خریداری بھی کرنی ہے ۔ رشتہ داروں اوردوستوں کی جانب سے منعقدہ تقریبات میں شرکت بھی کرنی ہے ۔ پاکستان میں اکثرلوگوں کی آمدنی اتنی نہیں کہ وہ اپنے ذاتی کاموں کے لیے کوئی ملازم وغیرہ رکھ سکیں اس لیے ان کویہ سارے کام خودہی کرنے پڑتے ہیں ۔ مسلسل بارہ گھنٹے دفتر، کمپنی، فیکٹری یاورکشاپ میں کام کرنے اورگھریلو، ذاتی اورسماجی ذمہ داریاں اداکرنے کے بعد اس کے پاس سونے کے لیے اس کے پاس کتناوقت باقی رہ جاتاہے ۔ اسے سونے کے لیے مطلوبہ وقت بھی نہیں ملتا ،جس کی وجہ سے اس کی نیند پوری نہیں ہوتی ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ویب ساءٹ پر نیند کی کمی کی وجہ سے انسانی صحت اورکام پرجواثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ پرمشتمل ایک رپورٹ موجود ہے جوکچھ یوں ہے کہ راٹرڈیم سکول آف مینیج منٹ کے محققین کے مطابق صرف ایک رات کی ادھوری نیند دفتر میں لڑائی اورخراب رویے کاسبب بن سکتی ہے ۔ اسی رپورٹ میں لکھاہے کہ حال ہی میں شاءع ہونے والی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ کم نیندکی وجہ سے اربوں کانقصان ہوتاہے ۔ اس نئی تحقیق کے مطابق نیندپوری نہ ہونے کے باعث کام کرنے والے افرادتھکے ہوئے رہتے ہیں اوراسی وجہ سے وہ غیرارادی طورپربے ضرورت کام کربیٹھتے ہیں ۔ اس میں مزیدکہاگیاہے کہ کم نیندکی وجہ سے لوگوں میں قوت ارادی کم ہوجاتی ہے اوران کاصبرکاپیمانہ لبریزہوجاتاہے ۔ ہالینڈ کی ایراسمس یونیورسٹی کے راٹرڈیم سکول آف مینیج منٹ کی محقق لاءوراجءورج نے کہا کہ دفتر میں خراب رویے کی وجہ وہ مطلبی پن ہے جوکم قوت ارادی کی وجہ سے بڑھ جاتاہے ۔ اس کم قوت ارادی کے باعث لوگ دفتر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں اوردفتروں میں چوری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ اس تحقیق سے یہ ظاہرہوتاہے کہ کم نیندکے باعث ایسانامناسب رویہ کسی شخص کی فطرت میں نہیں ہوتا اورایک ہی شخص میں ہردن مختلف رویہ ہوسکتاہے ۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ کم سونے والے افرادکودفتر میں ناکامی کاخوف رہتا ہے ۔ اوراس کی وجہ سے کام پران کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں ۔ اس سے پہلے بھی ایسی تحقیقی رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں جن کے یہ دیکھاگیاکہ کم سونے کے بعد لوگوں میں درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے ۔

پاکستان میں لوگ ذاتی، گھریلو اورمعاشرتی ضروریات پوری کرنے کے لیے بعض اوقات بارہ گھنٹوں سے بھی زیادہ وقت کام کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کودیگرمصروفیات کے لیے بھی وقت نہیں ملتا ۔ جوشخص صبح چھ یاسات بجے سے رات دس بجے تک کام کرے ۔ اس کودیگرمصروفیات کے لیے وقت کیسے ملے گا ۔ پندرہ گھنٹے کام کرنے کے بعد اسے کتنی تھکاوٹ ہوجاتی ہوگی اس کا اندازہ آسانی سے لگایاجاسکتاہے ۔ اب ان حالات میں پاکستان میں ایساناممکن لگتاہے کہ ہفتے میں چاردن کام کیاجائے اورتین دن چھٹی کی جائے ۔ ہم یہ تونہیں کہتے کہ پاکستان میں بھی آئس لینڈ کی طرح ہفتے میں چارروزکام کیاجائے ۔ اس کی نہ تو ہمارے معاشی حالات اجازت دیتے ہیں اورنہ ہی سماجی اورمعاشرتی حالات ۔ لیکن اتنی گزارش ضرورکریں گے کہ ہرکام کی نوعیت کے اعتبار سے اوقات مقرر کر دیے جائیں ۔ کسی بھی دفتر، فیکٹری، دکان، ہوٹل اورورکشاپ میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پرپابندی ہونی چاہیے ۔ چاہے کسی کاذاتی کام ہویاوہ کسی اورکے پاس کام کرتاہو ،کوئی بھی نمازاورکھانے کے وقفہ سمیت آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ کرے ۔ یہ نظام الاوقات اسیسے لوگوں کے لیے ہو جوبیٹھ کرکام کرتے ہیں ۔ اور جو لوگ فیلڈ میں کام کرتے ہیں ان کے کام کرنے کادورانیہ زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے روزانہ ہوناچاہیے ۔ مسلسل آٹھ گھنٹے کام کرناضروری نہیں ہوناچاہیے بلکہ چارگھنٹے صبح اورچارگھنٹے شام کے وقت بھی کام کیاجاسکے ۔ ایسی فیکٹریاں ، ورکشاپس، ہوٹلیں اورریسٹوران وغیرہ جہاں آٹھ گھنٹوں سے زیادہ بلکہ ۴۲ گھنٹے کام ہوتاہے ۔ ان کے مالکان اورانتظامیہ کوپابندبنایاجائے کہ وہ اپنے ملازمین میں اضافہ کریں ۔ اس سے روزگار میں بھی اضافہ ہوجائے گا ۔ جس فیکٹری یاورکشاپ میں اگر ایک ، ایک سو افرادبارہ ،بارہ گھنٹے کام کرتے ہوں ،آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پرپابندی لگادی جائے اورمالکان اورانتظامیہ کوملازمین میں اضافہ کرنے کا پابند بنایاجائے تواس فیکٹری یاورکشاپ میں ایک سوملازمین کا اوراضافہ ہوجائے گا ۔ قارئین یہ سوال کرسکتے ہیں کہ جولوگ بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں ان کواوورٹائم ملتا ہے جب وہ آٹھ گھنٹے کام کریں گے توان کواوورٹائم نہیں ملے گا ۔ یوں ان کی آمدنی کم ہوجائے گی ۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ایسے لوگ کام سے چھٹی کے بعد ایساکام کرسکیں گے جس سے ان کی تھکاوٹ بھی اترجائے اورآمدنی بھی حاصل ہوتی رہے ۔ اس کادوسراجواب یہ ہے کہ ایک طرف ان کی آمدنی کم ہوگی دوسری طرف ان کے اخراجات بھی کم ہوجائیں گے ۔ وہ اپنے بیوی ،بچوں ، رشتہ داروں اوردوستوں کوبھی پہلے سے زیادہ وقت دے سکیں گے ۔ وہ مذہبی، سماجی اورسیاسی سرگرمیوں میں بھی پہلے سے زیادہ حصہ لے سکیں گے ۔ ان کواپنی صلاحیتیں نکھارنے کاموقع بھی مل سکتاہے ۔ سب سے بڑھ کراپنی ذاتی، گھریلو اورسماجی مصروفیات کے بعد ان کے پاس اتناوقت ضروربچ جائے گا کہ وہ سکون سے اپنی نیندپوری کرسکیں ۔ تبدیلی کی حکومت کوملک میں یہ تبدیلی بھی لانی چاہیے ۔ ایساکرلیاجائے تو ذہنی اورنفسیاتی امراض میں کمی آسکتی ہے ۔ اس سے گھریلوجھگڑوں کوبھی کم کیاجاسکتاہے ۔ اس طرح کے دیگرمسائل بھی اس طرح حل ہوسکتے ہیں ۔

siddiqueprihar@gmail.com

Tags: column by sadiq perhar
Previous Post

ملتان میں ڈاکو راج، محافظ خود لٹ گئے، ڈاکوؤں نے پولیس افسر سمیت تین گھر لوٹ لیے

Next Post

گذشتہ سے پیوستہ ، متاثرین شہزاد کا لو نی کا نو حہ اور انصاف و احتساب کا فلسفہ (قسط 2) . انجم صحرائی

Next Post
گذشتہ سے پیوستہ ،  متاثرین شہزاد کا لو نی کا نو حہ اور انصاف و احتساب کا فلسفہ (قسط 2) . انجم صحرائی

گذشتہ سے پیوستہ ، متاثرین شہزاد کا لو نی کا نو حہ اور انصاف و احتساب کا فلسفہ (قسط 2) . انجم صحرائی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
موجودہ دور میں جب وقت کی قیمت اوربھی بڑھ گئی ہے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ویب ساءٹ پرموجود ایک خبرنے مجھے حیرت میں ڈال دیاہے کہ آئس لینڈ میں ہفتے میں بس چاردن کام کرنے کاتجربہ کامیاب قرارپایاہے ۔ خبر میں لکھاہے کہ محققین کاکہناہے کہ آئس لینڈ میں چارروزہ ہفتہ بہت کام یاب رہاہے اور اب اس سے کئی ملکوں میں ملازمین اتنے ہی معاوضے پرکم گھنٹے کام کرسکیں گے ۔ چارروزہ ہفتے کی آزمائش سال دوہزارپندرہ سے دوہزارانیس کے درمیان آئس لینڈ میں ہوئی تھی ۔ جس میں ملازمین کوکم گھنٹے کام کرنے کا اتناہی معاوضہ دیاگیاتھا ۔ ماہرین کے مطابق اس دوران اکثرکمپنیوں میں پیداوارکی شرح برقراررہی یا بعض اوقات پیداواربڑھ گئی جب کہ ملازمین نے پہلے جتناکام کرکے دیا ۔ آئس لینڈ میں اس کی آزمائش سٹی کونسل نے کی اوربعد میں حکومت نے ۰۰۵۲ سے زیادہ ملازمین کواس کاحصہ بنالیا ۔ یہ آئس لینڈ میں ملازمین کی کل آبادی کاقریب ایک فیصدبنتاہے ۔ برطانوی تھنک ٹینک اٹانومی اورآئس لینڈ میں پائیدارجمہوریت کی تنظیم ایلڈا کاکہناہے کہ اس تحقیق میں ملازمین سے ہفتے میں چالیس گھنٹے ۵۳ یا۶۳ گھنٹے کام لیاجاتاتھا ۔ محققین کاکہناہے کہ ان آزمائشوں کے دوران یونینز نے کمپنیوں سے کام کاج کے طریقہ کارپرمذاکرات کیے اوراب آئس لینڈ میں ۶۸ آبادی کواتنے ہی معاوضے پرکم گھنٹے کام کرنے کی سہولت حاصل ہے یامستقبل میں ایساممکن ہوجائے گا ۔ اس تحقیق کے نتیجے میں اب ملازمین کی جانب سے تھکاوٹ یابرن آءوٹ کے خطرے کی شکایات کم ہوئی ہیں ۔ جب کہ ان کی صحت اورکام کاج کے درمیان توازن بہترہواہے ۔ اٹانومی کے ریسرچ ڈائریکٹرول سٹرونج کاکہناہے کہ حکومتی شعبے میں ہفتے بھرکام کے دورانیے میں کمی سے متعلق دنیاکی سب سے بڑی آزمائش سے ثابت ہواکہ یہ ہرطرح سے بڑی کام یابی ہے ۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ سرکاری شعبہ کم گھنٹے کام کے لیے تیارہے ۔ ایلڈا میں محقق گڈمنڈورڈی ہارلڈسن کے مطابق آئس لینڈ میں ہفتے میں کم گھنٹوں کے لیے کام کے منصوبے سے پتہ چلتاہے کہ یہ نہ صرف جدیددور میں ممکن ہے بلکہ اس سے اچھی تبدیلی بھی آسکتی ہے ۔ مئی میں پلیٹ فارم لندن نامی تنظیم کی جانب سے چارروزہ ہفتے کی مہم کے لیے جاری رپورٹ میں بتایاگیاکہ اس سے برطانیہ میں کاربن اخراج میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔ آئس لینڈ میں ہفتے میں چارروزہ ہفتہ کاتجربہ کام یاب رہا ۔ اس کے بہترنتاءج سامنے آئے ہیں ۔ یہی تجربہ دنیاکے دیگرممالک میں بھی کیا جا رہا ہے ۔ سوال یہ سامنے آتاہے کہ کیا ایساپاکستان میں بھی ممکن ہے یانہیں ۔ اس سوال کاجواب تلاش کرنے سے پہلے ہ میں ان دوباتوں کاجائزہ لیناچاہیے کہ کیاپاکستان کے معاشی حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم ہفتے میں چاردن کام کریں اورتین روزچھٹی کریں ۔ اس کے علاوہ مہنگائی کے اس دور میں جب لوگوں کے لیے روزہ مرہ کے اخراجات پورے کرنامشکل سے مشکل ہوتاجارہاہے ہفتے میں تین دن کام نہ کرناکیسے ممکن رہے گا ۔ ملک کے معاشی حالات اورمہنگائی کے اس دور میں ہفتہ اگردس دن کابھی ہوتا اورہم ہفتہ بھرہی کام کرتے تب بھی وقت کی کمی ہماراقومی مسئلہ رہتی ۔ یہ حقائق اپنی جگہ لیکن زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی وجہ سے انسانی صحت پرجواثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس کا ایک اثر توبرطانوی نشریاتی ادارے کی مذکورہ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ چارروزہ ہفتے کی آزمائش اورتحقیق کے دوران ملازمین کی جانب سے تھکاوٹ یابرن آءوٹ کے خطرے کی شکایات کم ہوئی ہیں ۔ جب کہ ان کی صحت اورکام کاج کے درمیان توازن بہترہواہے ۔ آسان الفاظ میں اس بات کویوں سمجھاجاسکتاہے کہ زیادہ دیرکام کرنے سے تھکاوٹ بھی ہوتی ہے اوربرن آءوٹ کاخطرہ بھی بڑھ جاتاہے ۔ پاکستان میں سرکاری دفاتر میں کام کادورانیہ عام طورپرآٹھ گھنٹے ہے ۔ نجی دفاتر ،کمپنیوں ، فیکٹریوں ، دکانوں ، ہوٹلوں ، ریسٹورانوں اورورکشاپوں میں کام کادورانیہ آٹھ گھنٹوں سے بارہ گھنٹوں تک ہے ۔ جوانسان ۲۱ گھنٹے کسی کمپنی، کسی فیکٹری یاکسی ورکشاپ میں کام کرے ۔ اس کے علاوہ اس کی ذاتی اورنجی مصروفیات بھی ہیں ۔ ان کو گھر کا سود ا سلف بھی لاناہے ۔ بیوی بچوں کووقت بھی دیناہے ۔ ان کے لیے حسب ضرورت اورحسب خواہش خریداری بھی کرنی ہے ۔ رشتہ داروں اوردوستوں کی جانب سے منعقدہ تقریبات میں شرکت بھی کرنی ہے ۔ پاکستان میں اکثرلوگوں کی آمدنی اتنی نہیں کہ وہ اپنے ذاتی کاموں کے لیے کوئی ملازم وغیرہ رکھ سکیں اس لیے ان کویہ سارے کام خودہی کرنے پڑتے ہیں ۔ مسلسل بارہ گھنٹے دفتر، کمپنی، فیکٹری یاورکشاپ میں کام کرنے اورگھریلو، ذاتی اورسماجی ذمہ داریاں اداکرنے کے بعد اس کے پاس سونے کے لیے اس کے پاس کتناوقت باقی رہ جاتاہے ۔ اسے سونے کے لیے مطلوبہ وقت بھی نہیں ملتا ،جس کی وجہ سے اس کی نیند پوری نہیں ہوتی ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ویب ساءٹ پر نیند کی کمی کی وجہ سے انسانی صحت اورکام پرجواثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ پرمشتمل ایک رپورٹ موجود ہے جوکچھ یوں ہے کہ راٹرڈیم سکول آف مینیج منٹ کے محققین کے مطابق صرف ایک رات کی ادھوری نیند دفتر میں لڑائی اورخراب رویے کاسبب بن سکتی ہے ۔ اسی رپورٹ میں لکھاہے کہ حال ہی میں شاءع ہونے والی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ کم نیندکی وجہ سے اربوں کانقصان ہوتاہے ۔ اس نئی تحقیق کے مطابق نیندپوری نہ ہونے کے باعث کام کرنے والے افرادتھکے ہوئے رہتے ہیں اوراسی وجہ سے وہ غیرارادی طورپربے ضرورت کام کربیٹھتے ہیں ۔ اس میں مزیدکہاگیاہے کہ کم نیندکی وجہ سے لوگوں میں قوت ارادی کم ہوجاتی ہے اوران کاصبرکاپیمانہ لبریزہوجاتاہے ۔ ہالینڈ کی ایراسمس یونیورسٹی کے راٹرڈیم سکول آف مینیج منٹ کی محقق لاءوراجءورج نے کہا کہ دفتر میں خراب رویے کی وجہ وہ مطلبی پن ہے جوکم قوت ارادی کی وجہ سے بڑھ جاتاہے ۔ اس کم قوت ارادی کے باعث لوگ دفتر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں اوردفتروں میں چوری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ اس تحقیق سے یہ ظاہرہوتاہے کہ کم نیندکے باعث ایسانامناسب رویہ کسی شخص کی فطرت میں نہیں ہوتا اورایک ہی شخص میں ہردن مختلف رویہ ہوسکتاہے ۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ کم سونے والے افرادکودفتر میں ناکامی کاخوف رہتا ہے ۔ اوراس کی وجہ سے کام پران کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں ۔ اس سے پہلے بھی ایسی تحقیقی رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں جن کے یہ دیکھاگیاکہ کم سونے کے بعد لوگوں میں درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے ۔ پاکستان میں لوگ ذاتی، گھریلو اورمعاشرتی ضروریات پوری کرنے کے لیے بعض اوقات بارہ گھنٹوں سے بھی زیادہ وقت کام کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کودیگرمصروفیات کے لیے بھی وقت نہیں ملتا ۔ جوشخص صبح چھ یاسات بجے سے رات دس بجے تک کام کرے ۔ اس کودیگرمصروفیات کے لیے وقت کیسے ملے گا ۔ پندرہ گھنٹے کام کرنے کے بعد اسے کتنی تھکاوٹ ہوجاتی ہوگی اس کا اندازہ آسانی سے لگایاجاسکتاہے ۔ اب ان حالات میں پاکستان میں ایساناممکن لگتاہے کہ ہفتے میں چاردن کام کیاجائے اورتین دن چھٹی کی جائے ۔ ہم یہ تونہیں کہتے کہ پاکستان میں بھی آئس لینڈ کی طرح ہفتے میں چارروزکام کیاجائے ۔ اس کی نہ تو ہمارے معاشی حالات اجازت دیتے ہیں اورنہ ہی سماجی اورمعاشرتی حالات ۔ لیکن اتنی گزارش ضرورکریں گے کہ ہرکام کی نوعیت کے اعتبار سے اوقات مقرر کر دیے جائیں ۔ کسی بھی دفتر، فیکٹری، دکان، ہوٹل اورورکشاپ میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پرپابندی ہونی چاہیے ۔ چاہے کسی کاذاتی کام ہویاوہ کسی اورکے پاس کام کرتاہو ،کوئی بھی نمازاورکھانے کے وقفہ سمیت آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ کرے ۔ یہ نظام الاوقات اسیسے لوگوں کے لیے ہو جوبیٹھ کرکام کرتے ہیں ۔ اور جو لوگ فیلڈ میں کام کرتے ہیں ان کے کام کرنے کادورانیہ زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے روزانہ ہوناچاہیے ۔ مسلسل آٹھ گھنٹے کام کرناضروری نہیں ہوناچاہیے بلکہ چارگھنٹے صبح اورچارگھنٹے شام کے وقت بھی کام کیاجاسکے ۔ ایسی فیکٹریاں ، ورکشاپس، ہوٹلیں اورریسٹوران وغیرہ جہاں آٹھ گھنٹوں سے زیادہ بلکہ ۴۲ گھنٹے کام ہوتاہے ۔ ان کے مالکان اورانتظامیہ کوپابندبنایاجائے کہ وہ اپنے ملازمین میں اضافہ کریں ۔ اس سے روزگار میں بھی اضافہ ہوجائے گا ۔ جس فیکٹری یاورکشاپ میں اگر ایک ، ایک سو افرادبارہ ،بارہ گھنٹے کام کرتے ہوں ،آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پرپابندی لگادی جائے اورمالکان اورانتظامیہ کوملازمین میں اضافہ کرنے کا پابند بنایاجائے تواس فیکٹری یاورکشاپ میں ایک سوملازمین کا اوراضافہ ہوجائے گا ۔ قارئین یہ سوال کرسکتے ہیں کہ جولوگ بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں ان کواوورٹائم ملتا ہے جب وہ آٹھ گھنٹے کام کریں گے توان کواوورٹائم نہیں ملے گا ۔ یوں ان کی آمدنی کم ہوجائے گی ۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ایسے لوگ کام سے چھٹی کے بعد ایساکام کرسکیں گے جس سے ان کی تھکاوٹ بھی اترجائے اورآمدنی بھی حاصل ہوتی رہے ۔ اس کادوسراجواب یہ ہے کہ ایک طرف ان کی آمدنی کم ہوگی دوسری طرف ان کے اخراجات بھی کم ہوجائیں گے ۔ وہ اپنے بیوی ،بچوں ، رشتہ داروں اوردوستوں کوبھی پہلے سے زیادہ وقت دے سکیں گے ۔ وہ مذہبی، سماجی اورسیاسی سرگرمیوں میں بھی پہلے سے زیادہ حصہ لے سکیں گے ۔ ان کواپنی صلاحیتیں نکھارنے کاموقع بھی مل سکتاہے ۔ سب سے بڑھ کراپنی ذاتی، گھریلو اورسماجی مصروفیات کے بعد ان کے پاس اتناوقت ضروربچ جائے گا کہ وہ سکون سے اپنی نیندپوری کرسکیں ۔ تبدیلی کی حکومت کوملک میں یہ تبدیلی بھی لانی چاہیے ۔ ایساکرلیاجائے تو ذہنی اورنفسیاتی امراض میں کمی آسکتی ہے ۔ اس سے گھریلوجھگڑوں کوبھی کم کیاجاسکتاہے ۔ اس طرح کے دیگرمسائل بھی اس طرح حل ہوسکتے ہیں ۔

siddiqueprihar@gmail.com

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.