سن پچاس کے عشرے میں تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کیا بنی لینڈ ما فیا اور سر کاری پٹواری سے لے کر افسر مجاز تک سبھی کی لاٹری نکل آ ئی ، لو کل ما لکان کی زمینیں بحق ٹی ڈی اے ایکوائر کی گئی زمینوں کی حق واپسی کے نام پر یار لو گوں نے نا جائز ایڈ جسمنٹ اور الاٹمنٹ کی وہ دھما چو کری مچا ئی کہ الا ماں ۔ جعلی فراڈ اور بو گس چک 123 بی ٹی ڈی اے کی تشکیل و تعمیر کے بعد اس کے بطن سے منڈی ٹاءون اور بیرون منڈی ٹاءون کے نام پر شہر لیہ کی قیمتی سر کاری اراضی کی ایسے بندر با نٹ کی گئی کہ اصل لو کل ما لکان در بدر ہو گئے اور لینڈ ما فیا اورکرپٹ سر کاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے جنم لینے والابد مست کرپشن کاجن ہر سو نا چنے لگا ، نصف صدی گزرنے کے بعد بھی یہ انصاف و احتساب نہیں ہو سکا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطا بق چک 123 بی ٹی ڈی اے کی آ ڑ میں لینڈ ما فیا شہر کی 18 سوکنال سےکہیں زیادہ ہڑپ کر گیا آپ شہر میں ہو نے والی نا جائز ایڈ جسٹمنٹ ، الاٹمنٹ کے کھوہ کھا تہ کا کوئی ورق کھول لیں اس فراڈ کے ڈانڈے اسی فراڈ ، بو گس اور انوٹیفائیڈ چک123 س بی ے جا ملیں گے ۔
بلا شبہ گذرے ہفتے ڈسٹرکٹ کلکٹر نے لیہ تاریخ کا ایک بڑا فیصلہ دیا ، ڈپٹی کمشنر اظفر ضیاء نے زیر سماعت درخواست ڈاکٹر عمران لودھرا بنام نا ئلہ سرور وغیرہ پر انتقال 1308 بحق بہار خانم خارج کر نے اور مقبو ضہ سر کاری رقبہ واگزار کرانے کا حکم جاری کیا ، دعوی کیا گیا ہے کہ متنازعہ رقبہ 124 کنال ہے جس کی قیمت لگ بھگ 25/30 ارب ہے ،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محکمہ ہاءوسنگ کا یہ رقبہ بہار خانم کو سال 1994 میں ایڈجسٹ کیا گیا ،27 سال قبل مجاز اتھارٹی کی جانب سے بہار خانم کر ر قبہ کی ایڈ جسمنٹ کے خلاف سر کار کی طرف سے تو شا ئد کو ئی پیش رفت نہیں کی گئی اس دوران بہار خانم اور ان کے شو ہر چو ہدری سرور فوت ہو گئے ، ایڈجسٹ ہو نے والا اکثر رقبہ فروخت ہو گیا ۔ فروخت ہو نے والا یہ رقبہ شہزاد کا لونی ، کالج روڈ کمرشل مار کیٹ ، پریس کلب لنک روڈ ، جزل بس سٹینڈ ، جناح ٹاءون کی آ باد یوں پر مشتمل ہے ، بہار خانم اور اس کے وارثان سے رقبہ خریدنے والوں میں سیاست دان ، ریٹائرڈ اسا تذہ ، ڈاکٹرز ، وکلاء ، دکاندار اور عام لوگ شا مل ہیں ، جنہوں نے اپنی عمر بھر کی جمع پو نجی سے پلاٹ خرید کئے ، تعمیرات کیں گھر بنائے ، دکانیں سجائیں ، ہسپتال بنائے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ درخواست گذار ڈاکٹر عمران لودھرا کا آ بائی گھر بھی بہار خانم کے اسی متنازعہ رقبہ میں واقع ہے ۔ جو خارج ہو چکا ہے ۔
مجھے نہیں پتہ اللہ بخشے ڈاکٹر منظور لودھرا مر حوم کتنے بڑے زمیندار اور جا گیرادر تھے وراثت میں انہیں کتنی زمین ملی اللہ جا نتا ہے یا ان کے وارثان جا نتے ہوں گے میں تو اتنا جا نتا ہوں کہ ڈاکٹر مرحوم ایک وضعدار شریف النفس انسان دوست شخصیت تھے ، ڈاکٹر مرحوم نے اپنی زند گی کا ایک بڑا عرصہ ٹی ڈی اے کا لو نی کے ایک کوارٹر میں گذارا ، ان دنوں وہ لیہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایم ایس تھے جن دنوں ہماری سنا شا ئی ہو ئی ، ڈاکٹر مرحوم مسلم لیگی ذہن کے مالک پکے پا کستا نی تھے دوران ملا ز مت ہی مسلم لیگی دوستوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی یاد اللہ کا فی تھی ، سو محکمہ ہیلتھ سے ریٹائرمنٹ کے بعد مقامی مسلم لیگ کے عہدیدار بن گئے اور تا وفات تحصیل مسلم لیگ کے صدر رہے ۔
ملاز مت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر مرحوم نے محلہ منظور آباد میں عمران ہسپتال کی بنیاد رکھی ، عمران ہسپتال لیہ شہر کا شا ید پہلا با ضابطہ پرائیویٹ ہسپتال ہے ۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر مر حوم نے کچہری روڈ پر واقع اپنا گھر بنا یا ۔ دروغ بر گردن راوی کہا جاتا ہے کہ یہ گھر بھی مبینہ طور پر بہار بیگم کے اسی متنازعہ انتقال 1308 کے تحت بہار خانم کو منتقل ہو نے والی 124 کنال کا حصہ ہے جسے اظفر ضیاء ڈپٹی کمشنر لیہ نے حال ہی خارج کئے جا نے اورسا بقہ ملکیت انتقال نمبر 189 چک منڈی ٹاءون محکمہ ہا ءو سنگ کے نام بحال کرتے ہو ئے کر تے ہو ئے قابضین سے سرکاری رقبہ واگذار کر ئے جا نے کا حکم دیا ہے ، قا بل ذکر بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ ڈاکٹر ملک منظور لودھرا مرحوم کے بڑے بیٹے ڈاکٹر عمران لودھرا کی طرف سے ہائیکورٹ میں دی جا نے والی درخواست کی بنیاد پر دیا گیا ہے
متنازعہ انتقال 1308 کے تحت بہار خانم کو یہ متنازعہ رقبہ سال 1994 میں منظور کیا گیا ، ڈاکٹر عمران لودھرا نے 2006 میں ریکارڈ درستگی کی درخواست گذاری کیس چلتا رہا ہا ئیکورٹ میں سال 2015 میں بہار خانم کے وارثان کی درخواست خارج کر دی ہا ئیکورٹ کے اس حکم کے خلاف نہ صرف بہار خانم کے وارثان بلکہ متا ثرین بھی سپریم کورٹ میں چلے گئے جہاں بقول وارثان بہار خانم اور متاثرین ان کی درخواست تا حال زیر سما عت ہے ہے اسی دوران سال 2019 ہا ئیکورٹ کے فیصلہ پر عملدر آمد کے لئے ڈاکٹر عمران لودھرابذریعہ کو نسل درخواست گذاری 26 جون 2021 کو ڈسٹرکٹ کلکٹر نے سماعت کی ، اس موقع پر اپیلانٹ ڈاکٹر عمران لودھرا کی جانب سے ملک نواز سا مٹیہ ایڈ وو کیٹ پیش ہو ئے اور حاضر آ مدہ کو نسل کی بحث کی سماعت اور ریکارڈ ملا حظہ کر نے کے بعد فاضل ڈسٹرکٹ کلکٹر نے انتقال خارج کرنے سر کاری رقبہ واگزار کرانے کا حکم جاری کر دیا ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈاکٹر عمران لودھرا نے جن کا اپنا گھر اسی مبینہ متنازعہ رقبہ میں بنا ہے اور اس گھر کا مستقبل بھی شہزاد کا لونی ، کالج کمرشل مارکیٹ ،لنک روڈ پریس کلب ، جزل بس سٹینڈ کی اکثر دکانوں ، فاطمہ ٹاءون کے سینکڑوں مکینوں سمیت اسی متنازعہ انتقال کے متاثرین کے ساتھ جڑا ہے کس وجہ سے بہار خانم کو ایڈ جسٹ ہو نے والی سر کاری زمین کے خلاف محکمہ ہا ءو سنگ کے حق میں عدالت عالیہ کے دروازہ پر دستک دی ، میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر عمران لودھرا ایک ذمہ دار شہری ہیں اور درد مند نو جوان ہیں انہوں نے یقینا نیک نیتی سے مبینہ لینڈ ما فیا کے خلاف جدو جہد کی ہو گی ، لیکن کچھ با خبر لوگ ایک اور کہا نی بھی سنا تے ہیں ۔ ۔ ۔
دروغ بر گردن راوی ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر منظور لودھرا کی ایک ایکڑ حق واپسی تھی ۔ اب یہ ایک ایکڑ رقبہ ڈاکٹر مرحوم نے ہاءوسنگ سے خریدا تھا یا گفٹ ملا تھا سر کار سے یا یہ ڈاکٹر مر حوم کی آ بائی حق واپسی تھی اس بارے حتمی کچھ کہنا مشکل ہے (گفٹ کی بات میں نے اس لئے کی کہ مسلم لیگ ن کے اس دور میں پولیس ، محکمہ ریونیو میں ملازمتیں صرف ایک کا غذ کی درخواست عناءت کر دی جا تی تھیں ، میرٹ صرف میاں صاحب کی خوشنودی تھی ، اس دور میں ہمارے ممبران اسمبلی نے بھی اس بہتی گنگا میں ہا تھ رنگے کسی کے بھانجے اور کسی کے بھتیجے ڈائرکٹ تحصیلدار بھرتی ہو ئے ) خیر کہتے ہیں کہ تلاش بسیار اور کو شش کے با وجود ڈاکٹر مرحوم کو اس ایک ایکڑ رقبہ کا قبضہ کہیں نہیں مل سکا ۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جن دنوں بہار خانم نے یہ رقبہ ایڈ جسٹ کرایا ۔ ڈاکٹر مرحوم نے چوہدری سرور جو بہار خانم کے شو ہر تھے کے ساتھ با ہمی تبادلہ کرتے ہو ئے ا پنا ایک ایکڑ بہار خانم کو دے دیا اور تبادے میں یہ رقبہ جہاں ڈاکٹر مرحوم کا مکان بنا ہوا ہے اپنے نام کرا لیا ، واقفان حال کہتے ہیں کہ معاہدہ تبادلہ کے مطا بق بہار خانم وغیرہ نے ڈاکٹر مر حوم کو بر لب سڑک ایک ایکڑ رقبہ منتقل کر نا تھا جو نہیں کیا گیا اور یوں یہ حق و با طل کی جنگ شروع ہو گئی ۔ وللہ بالاعلم صواب( میں نے اس بارے ڈاکٹر عمران لودھرا سے ان کا موقف لینے کے لئے رابطہ کی کو شش کی تا کہ ان کا نقطہ نظر بھی شامل تحریر ہو سکے لیکن کا میاب نہ ہو سکا )
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سا بق سیشن جج ملک نواز سا مٹیہ جو ایک معروف قانون دان ہیں اور جو اپیلنٹ ڈاکٹر عمران لودھرا کی جانب سے ڈسٹرکٹ کلکٹر کی عدالت میں پیش بھی ہو ئے ڈاکٹر منظور لودھرا مر حوم کے داماد اور ڈاکٹر عمران لو دھرا کے بہنو ئی بھی ہیں نے اسی اپریل میں ڈسٹرکٹ پریس کلب میں پریس کا نفرنس کرتے ہو ئے ڈپٹی کمشنر اور اے ڈی سی آر پر لینڈ ما فیا سے مبینہ طور پر 50 لاکھ روپے ما ہا نہ بھتہ لینے اور اوپر پہنچا نے کے سنگین الزامات عا ئد کئے ۔ اب ان الزامات کی کیا حقیقت ہے اور انصاف و احتساب کے علمبرداروں نے ان الزامات پر کیا نوٹس لیا اس کی تو خبر نہیں لیکن ڈاکٹر عمران لودھرا بنام نا ئلہ سرور وغیرہ کی درخواست پر نا ئلہ سرور وغیرہ کے خلاف ڈپٹی کمشنر کے حالیہ فیصلہ نے نا قدین کے منہ ضرور بند کر دیئے ۔
ڈسٹرکٹ کلکٹر نے اپنے فیصلہ میں ٹھیک لکھا کہ محکمہ مال اور محکمہ ہا ءو سنگ اینڈ فزیکل پلا ننگ کے عملہ کی ملی بھگت سے یہ سب کچھ ہوا ، سر کار کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد عام ادر سینکڑوں خاندا نوں نے اپنی جمع پو نجی سے یہاں سر چھپانے کے لئے زمینیں خریدیں ، گھر بنائے اور عشروں سے یہ لوگ یہاں رہ رہے ہیں ، زمینوں کی خریدو فروخت کے وقت فرد ملکیت جاری کر نے اور سرکاری شیڈول کے مطا بق فیسوں کی ادائیگی سے لے کر رجسٹری ، انتقال پا س ہو نے تک سبھی کچھ ڈسٹرکٹ کلکٹر ، رجسٹرار ، اسسٹنٹ کمشنر ، ریوینو افسران ، محکمہ ہا ءوسنگ کے ذمہ داران کی ناک تلے ہو تا رہا ، کسی ذمہ دار نے نہیں بتایا بے چا رے عوام کو کہ ہو شیار یہ سب فراڈ ہے ، متنازعہ ہے ، مشری ہو شیار باش کا کو ئی نوٹس کبھی نہیں لگا یابا اختیار اور با اقتدار لو گوں کی طرف سے ۔ کیوں ;238; کیا یہ سر کار کی ذمہ داری نہیں تھی ۔ اس وقت تو صرف مال بنا نے اور حصہ لینے کی جلدی تھی ہزاروں انتقال اور سینکڑوں جسٹریاں ہو ئی ہوں گی پٹواری سے لے کر افسر مجاز تک زرا حساب تو لگا ئیں سر کار نے جائز طر یقے سے اور سرکاری اہلکاروں نے نا جائز طریقے سے اس غریب عوام کو کتنا لوٹا ہو گا ۔ لینڈ ما فیا کے ہا تھوں پے در پے سر کار اور عام شہریوں کے ساتھ ہو نے والے ان واقعات کی جوڈیشل انکوائری ہو نی چا ہئے ، تا کہ اصل چہرے بے نقاب ہو سکیں ۔
اب شہزاد کا لو نی اور دیگر متاثرین کے حوالے سے تازہ ترین اپ ڈیٹ یہ ہے کہ وارثان بہار خانم اور متاثرین ڈسٹرکٹ کلکٹر کے اس فیصلہ کے خلاف متعلقہ عدالتی فورم سے رجوع کر چکے ہیں ،ایک طرف عمران خان کی نیا پا کستان ہا ءو سنگ سکیم کا افتتاح ہو رہا ہے اور دوسری طرف کرپٹ لینڈ ما فیہ ، رشوت خور اور حصہ دار افسران کی ملی بھگت کی سزا سینکڑوں خاندا نوں کو دینے کے لئے بے قصوروں اور معصوم لو گوں کو بے گھر بنا نے کے منصوبے ترتیب دیئے جا رہے ہیں ، اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ آ نے والے دن بتا ئیں گے
{ نوٹ ۔ زیر بحث کیس میں فریق دوئم نائلہ سرور نے ہم سے رابطہ کرکے وضاحت کی ہے کہ بہار خانم کو یہ رقبہ سال1994 میں نہیں چا لیس قبل سال 1981 میں الاٹ ہوا تھا جو ہم نے اپنے اس کالم میں سال1994 سہوا تحریر کر دیا ،اسی طرح فریق اول ڈاکٹر عمران لودھرا کا موقف بھی اس کالم کی اگلی قسط میں شامل تحریر گا ۔ انشاءللہ ، انجم صحرائی}
انجم صحرائی