• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

ابتدائے محبت۔ عفت بھٹی

webmaster by webmaster
جون 29, 2021
in کالم
0
ابتدائے محبت۔ عفت بھٹی

انسان جب تخلیق کے مرحلے سے گزر کر دنیا کی گہما گہمی میں آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے محبت کے جذبے سے روشناس ہوتا ہے ۔باپ کا محبت بھرا بوسہ اس کی اس پیشانی پر ثبت ہوتا ہے جو رب کائنات کے حضور جھکنی ہوتی ہے ۔ماں کی گود کا لمس ‛گرماہٹ’ نرمی اور تحفظ اسے اس جذبے کی چاشنی سے آگاہ کرتی ہے ۔جب وہ پہلا قدم اٹھاتا ہے تو ماں اور باپ جیسے محبت بھرے رشتے اس کا سہارا بنتے ہیں۔جب وہ توتلی زبان میں رشتوں کو الفاظ کا پیراھن پہناتا ہے تب بھی وہ پہلے الفاظ محبت شناس ہستیوں کے ہوتے ہیں ۔گویا اس کی دنیا میں آمد ماں کے قدموں میں جنت اور باپ کے لیے خدا کی رضا سے موسوم ہو جاتی ہے۔رفتہ رفتہ اس کی نشوونما ہوتی ہے اور وہ معاشرتی رشتوں سے آگاہی حاصل کرتا ہے ۔

بہن بھائی ننھیال ددھیال جیسے خوبصورت رشتوں کی محبت اس کو جکڑنے لگتی ہے ۔مدرسے سے سکول اور سکول سے کالج و یونیورسٹی تک رشتوں کی شناخت اس کی تعمیر کرتی ہے اسے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔پھر جب وہ خود مختار ہونے لگتا ہے تو پچھلے رشتوں پر گرد کی ہلکی سی تہہ جمنے لگتی ہے۔ نئے رشتے ان پرانے ستونوں سے زیادہ اہمیت اختیار کرنے لگتے ہیں ۔وہ اب ان کی پروا کرتا ہے ۔اسے گرنے پہ بسم اللہ کہنے والی ماں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چلانے والا باپ بوجھ لگنے لگتا ہے ۔شاید وہ بہت آگے نکل جاتا ہے ۔
بات کافی سنجیدہ رخ اختیار کر چکی ہے ۔چلیں کچھ مزاح کا تڑکا لگاتے ہیں ۔جب سے سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا حصہ بنا ہے ۔اپنوں کے لیے ہمارے پاس وقت کی کمی کا رونا بھی زور وشور سے شروع ہوگیا ہے ۔اور محبت کا کال تو ایسا پڑا کہ ہر بندہ جمع بندی کا موسٹ دھوکے دار فقرہ ۔”مینوں کدے سچی محبت نئیں لبی”سچ پوچھیں تو اب اس جملے کو سن کر قہقہہ لگانے کو دل کرتا ۔او بھلیے لوکو اصلی اور سچی محبت تو وہ ہے جو تمہارے دنیا میں آتے ہی تمہیں مل گئی ۔یہ تو دھوکہ وفریب ہے جو دیے جا رہے اور کھائے جارہے ہو ۔قارئین اب جب کہ میں نصف صدی کا قصہ ہونے والی ہوں ۔معاشرتی رویوں پہ کافی غور وخوص کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ آپ جس محبت کی تلاش میں سرگرداں ہیں وہ آپ کے اپنے اندر ہے خود سے محبت کریں اور جس سے محبت کی جاتی ہے اس کی خوبیوں خامیوں کو سر پہ بٹھایا جاتا ۔محبوب کی گلی کا کتا بھی پیارا ہوتا تو کیا آپ سے جڑے رشتوں سے زیادہ محبت کا کون حقدار ہے۔سیدھی سی بات ہے جب آپ خود سے محبت کریں گے تو اپنی ذات سے جڑی ہر چیز سے محبت ہو گی ۔کتنا سمپل فنومنا ہے ناں ۔سوچیں ۔امید ہے یہ شکایت جلد ختم ہو جائے گی کہ ہمیں سچی محبت نہیں ملی۔
"خوشی”۔کیا چیز ہے یہ خوشی؟ذرا ماضی میں لوٹیں جب ہم دانشور نہیں تھے نا ہی ہمیں بڑی بڑی باتیں آتی تھیں نہ فلسفے ۔تب آگہی اور علم کی مقدار بھی کم تھی دولت اور آسائشات کا پیمانہ بھی نہیں تھا۔تب ہم کیسے خوش ہوتے تھے آئیں لوٹیں بیک ٹو پویلین۔آج جمعرات ہے کل چھٹی ہے ۔سکول سے واپسی  چہرے مسرت سے کھلے ہوئے ہیں۔چہلیں ‘چھیڑ چھاڑ ‘قہقہے ‘مزہ ۔یہی خوشی ہے جو چہروں پہ رقم ہے ۔اب ذرا موازنہ کریں دور جدید سے ۔جہاں چہروں سے پچپن  بھاری بھرکم بستوں نے چھینا ہوا ہے۔ تھکن ۔بیزاری۔ ہوم ورک ٹیسٹ کی ٹینشن نے چہروں کو کملا دیا ہے۔کہاں ہے خوشی؟تلاشیں
کل عید ہے ساری رات خوشی کے مارے نیند نہیں آرہی بار بار اٹھ کر نئے کپڑے ۔جوتے چوڑیاں اور دیگر لوازمات دیکھ دیکھ کر جی نہیں بھر رہا اور عیدی کا تصور تو دل کو گدگدا رہا ۔سویوں کی مٹھاس ،نماز عید اور پھر عیدی واہ کیا چارم ہے ۔اس وقت تو 5روپے کی آئس کریم میں بھی دنیا کی سیر کا مزہ آرہا ۔اور اب عید کا دن سونے کا دن ہے ۔اور اس سونے نے اسے سونا کر دیا۔
خوشیاں تو ہم نے خود کھو دیں۔
اس تحریر کو لکھنے کا مقصد خود شناسی کی طرف پہلا قدم ہے ۔شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

Tags: column by ifat bhatti
Previous Post

پاکستان میڈیکل کمیشن نے میڈیکل انٹری ٹیسٹ کی فیسوں میں اضافہ کر دیا

Next Post

لیہ ۔ تھانہ سٹی پولیس کی کارروائی ،1ہزار سے زائد پتنگیں و دھاتی ڈور برآمد ملزم گرفتار

Next Post
لیہ ۔ تھانہ سٹی پولیس کی کارروائی ،1ہزار سے زائد پتنگیں و دھاتی ڈور برآمد ملزم گرفتار

لیہ ۔ تھانہ سٹی پولیس کی کارروائی ،1ہزار سے زائد پتنگیں و دھاتی ڈور برآمد ملزم گرفتار

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
انسان جب تخلیق کے مرحلے سے گزر کر دنیا کی گہما گہمی میں آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے محبت کے جذبے سے روشناس ہوتا ہے ۔باپ کا محبت بھرا بوسہ اس کی اس پیشانی پر ثبت ہوتا ہے جو رب کائنات کے حضور جھکنی ہوتی ہے ۔ماں کی گود کا لمس ‛گرماہٹ' نرمی اور تحفظ اسے اس جذبے کی چاشنی سے آگاہ کرتی ہے ۔جب وہ پہلا قدم اٹھاتا ہے تو ماں اور باپ جیسے محبت بھرے رشتے اس کا سہارا بنتے ہیں۔جب وہ توتلی زبان میں رشتوں کو الفاظ کا پیراھن پہناتا ہے تب بھی وہ پہلے الفاظ محبت شناس ہستیوں کے ہوتے ہیں ۔گویا اس کی دنیا میں آمد ماں کے قدموں میں جنت اور باپ کے لیے خدا کی رضا سے موسوم ہو جاتی ہے۔رفتہ رفتہ اس کی نشوونما ہوتی ہے اور وہ معاشرتی رشتوں سے آگاہی حاصل کرتا ہے ۔ بہن بھائی ننھیال ددھیال جیسے خوبصورت رشتوں کی محبت اس کو جکڑنے لگتی ہے ۔مدرسے سے سکول اور سکول سے کالج و یونیورسٹی تک رشتوں کی شناخت اس کی تعمیر کرتی ہے اسے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔پھر جب وہ خود مختار ہونے لگتا ہے تو پچھلے رشتوں پر گرد کی ہلکی سی تہہ جمنے لگتی ہے۔ نئے رشتے ان پرانے ستونوں سے زیادہ اہمیت اختیار کرنے لگتے ہیں ۔وہ اب ان کی پروا کرتا ہے ۔اسے گرنے پہ بسم اللہ کہنے والی ماں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چلانے والا باپ بوجھ لگنے لگتا ہے ۔شاید وہ بہت آگے نکل جاتا ہے ۔ بات کافی سنجیدہ رخ اختیار کر چکی ہے ۔چلیں کچھ مزاح کا تڑکا لگاتے ہیں ۔جب سے سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا حصہ بنا ہے ۔اپنوں کے لیے ہمارے پاس وقت کی کمی کا رونا بھی زور وشور سے شروع ہوگیا ہے ۔اور محبت کا کال تو ایسا پڑا کہ ہر بندہ جمع بندی کا موسٹ دھوکے دار فقرہ ۔"مینوں کدے سچی محبت نئیں لبی"سچ پوچھیں تو اب اس جملے کو سن کر قہقہہ لگانے کو دل کرتا ۔او بھلیے لوکو اصلی اور سچی محبت تو وہ ہے جو تمہارے دنیا میں آتے ہی تمہیں مل گئی ۔یہ تو دھوکہ وفریب ہے جو دیے جا رہے اور کھائے جارہے ہو ۔قارئین اب جب کہ میں نصف صدی کا قصہ ہونے والی ہوں ۔معاشرتی رویوں پہ کافی غور وخوص کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ آپ جس محبت کی تلاش میں سرگرداں ہیں وہ آپ کے اپنے اندر ہے خود سے محبت کریں اور جس سے محبت کی جاتی ہے اس کی خوبیوں خامیوں کو سر پہ بٹھایا جاتا ۔محبوب کی گلی کا کتا بھی پیارا ہوتا تو کیا آپ سے جڑے رشتوں سے زیادہ محبت کا کون حقدار ہے۔سیدھی سی بات ہے جب آپ خود سے محبت کریں گے تو اپنی ذات سے جڑی ہر چیز سے محبت ہو گی ۔کتنا سمپل فنومنا ہے ناں ۔سوچیں ۔امید ہے یہ شکایت جلد ختم ہو جائے گی کہ ہمیں سچی محبت نہیں ملی۔ "خوشی"۔کیا چیز ہے یہ خوشی؟ذرا ماضی میں لوٹیں جب ہم دانشور نہیں تھے نا ہی ہمیں بڑی بڑی باتیں آتی تھیں نہ فلسفے ۔تب آگہی اور علم کی مقدار بھی کم تھی دولت اور آسائشات کا پیمانہ بھی نہیں تھا۔تب ہم کیسے خوش ہوتے تھے آئیں لوٹیں بیک ٹو پویلین۔آج جمعرات ہے کل چھٹی ہے ۔سکول سے واپسی  چہرے مسرت سے کھلے ہوئے ہیں۔چہلیں 'چھیڑ چھاڑ 'قہقہے 'مزہ ۔یہی خوشی ہے جو چہروں پہ رقم ہے ۔اب ذرا موازنہ کریں دور جدید سے ۔جہاں چہروں سے پچپن  بھاری بھرکم بستوں نے چھینا ہوا ہے۔ تھکن ۔بیزاری۔ ہوم ورک ٹیسٹ کی ٹینشن نے چہروں کو کملا دیا ہے۔کہاں ہے خوشی؟تلاشیں کل عید ہے ساری رات خوشی کے مارے نیند نہیں آرہی بار بار اٹھ کر نئے کپڑے ۔جوتے چوڑیاں اور دیگر لوازمات دیکھ دیکھ کر جی نہیں بھر رہا اور عیدی کا تصور تو دل کو گدگدا رہا ۔سویوں کی مٹھاس ،نماز عید اور پھر عیدی واہ کیا چارم ہے ۔اس وقت تو 5روپے کی آئس کریم میں بھی دنیا کی سیر کا مزہ آرہا ۔اور اب عید کا دن سونے کا دن ہے ۔اور اس سونے نے اسے سونا کر دیا۔ خوشیاں تو ہم نے خود کھو دیں۔ اس تحریر کو لکھنے کا مقصد خود شناسی کی طرف پہلا قدم ہے ۔شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.