زندگی میں انسان بہت سارے ایسے اقدامات کرتا ہے جو کہ دوسروں کی نظروں میں جرم بن جاتے ہیں ضمیر زندہ ہو تو اپنے اندر کا انسان خود ہی اپنے جرم کا اعتراف کر لیتا ہے کچھ ایسی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہوں۔
میں نے معاشرے میں سوائے خوشامد کے کچھ نہیں کیا۔ مفادات کے آگے نہیں دیکھا تعلق رکھنے یا نہ رکھنے کا دارومدار سامنے والی شخصیت پر یے کہ وہ مجھے آج یا مستقبل میں کیا فائدے دے سکتا ہے۔ سیاستدان سے تعلق رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں کہ مشکل میں کام آئیں گے نکا تھانیدار تو میری مجبوری ہے اس کو روزانہ مسیج کرتا ہوں بہت ساری دعائیں دینا عین فرض سمجھتا ہوں رشتہ داری کا پیمانہ یہ ہے کہ مزدوری کرنے والا پھوپھی زاد بھائی سے بس کبھی کبھار کسی عزیز کی شادی غمی میں مل لیتا ہوں بس خیریت پوچھنے کے علاؤہ کبھی دوسری بات نہیں کرتا
ایک بار مجھے کچھ عرصہ پہلے بزرگ خالہ کے علاج کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ایک تو علاج کے لیے بڑی رقم چائیے تھی دوسرا دو بوتلیں خون بھی چائیے تھا تو اپنے ایک بہترین دوست اور ممبر اسمبلی کو کال کی تو دوسری بیل پر ہی ایم این اے صاحب نے کال اٹھائی میں نے اسے خالہ کی بیماری کی تفصیل بتائی اور یہ بھی اپیل کی کہ کچھ پیسوں کی ضرورت ہے جتنا ممکن ہو میری مشکل وقت میں مدد کریں بس اس کال کے بعد اس کو جتنی بار کال کی جواب نہیں ملا لیکن میرے مزدور رشتہ دار نے خون بھی دیا اور دو راتوں کو میرے ساتھ جاگتا بھی رہا۔ پھر خالہ کی وفات پر سارا انتظام اس غریب نے خود کیا میری آنکھیں اس وقت کھلی رہ گئیں جب وہی میرا سیاست دان دوست قل خوانی میں سب سے اگے بیٹھ کر بہت افسوس کر رہا تھا کہ ایک بار میرا کزن واپڈا آفس میٹر کی ریڈنگ درست کروانے گیا تو میرے ایک دوست جس کی میں واپڈا کے کاموں کی وجہ سے خوشامد کرتا ہوں اسے میرے حوالے سے ملا اور کام کروا آیا اسی واپڈا والے دوست نے مجھے اپنا احسان جتوایا تو میں نے کزن کی ایسی کی تیسی کر دی کہ میری خوداری کی توہین کی ہے آپ نے، جب کہ حقیقت تو یہ تھی خوشامد میں کرتا ہوں اور کام اس نے کروا لیا۔
پٹواری کلرک اور وکلاء کمیونٹی کے کافی لوگوں سے اسی وجہ سے تعلق ہے کہ کام آتے ہیں۔ تین دن پہلے کی بات ہے پٹواری صاحب کی ساس کی تیمارداری کرنے لاہور گیا ہوں جبکہ محلہ میں چچی بیمار ہے اس کے پاس جانے کے لیے وقت نہیں ملتا۔ ایڈووکیٹ صاحب کے بیٹے کا داخلہ ہوا ہے میڈیکل کالج میں اسے مبارکی دینے تین کلو میٹھائی کا ڈبہ ساتھ لے گیا میرے ایک رشتہ دار کو نو سال بعد اللہ پاک نے اولادِ نرینہ عطا کی ہے اسے مس کال تک نہیں کی۔
ڈاکٹر صاحب کو تازہ مچھلی ہر سال گھر پہنچاتا ہوں کہ سردیوں کی خوراک ہے تین ہزار روپے کلو چھوٹی شہید کی خالص بوتل ہر سال ایک سپریٹنڈنٹ کے گھر اپنا فرض سمجھتے ہوئے دینے جاتا ہوں۔
کتنی مشکل ہے زندگی بسر کرنا ان حالات میں میرا ضمیر مجھے بہت روکتا ہے کہ کیا کر رہے ہو خلوصِ دل سے اپنے خون کے رشتوں سے مخلص ہو کر تعلق رکھو یہ بڑے لوگ صرف اپنے مفادات تک دیکھتے ہیں ان رشتہ صرف ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے دکھاوے کی حد تک یہ لوگ کچھ عمل کرتے ہیں۔ ان کے بچے غیر ملکی سکولوں میں پڑھتے ہیں ائیر کنڈیشنڈ گھر میں دیتے ہیں جبکہ ہمارے بچوں کو سارا دن دھوپ میں ذلیل کرتے ہیں کوئی احساس نہیں ہوتا۔ چار چار کھانے بنائیں گے ہمیں کھانے کا کہنا تک توہین سمجھتے ہیں۔
کب تک دنیا اس طریقے سے چلتی رہے گی حقیقت پسند کب بنیں گے ؟ نسل درنسل ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے آخر کب ہم یہ اقرار جرم کریں گے۔