جوگی پہلے منتر سمجھے
حساس طبعیت کے مالک صابر عطاء کا سرائیکی شاعری کا مجموعہ
تحریر ۔۔ محمد عمر شاکر چوک اعظم
دور جدید میں ٹیکنالوجی جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے پرانی رویات اسی انداز میں زوال پذیر ہو رہی ہیں ہردور میں ہر معاشرے زبان علاقے میں کتابیں ہی علم و حکمت کا خزینہ رہی ہیں اسے ایک طرف تو تخلیقی اور تعمیری مواد حاصل ہوتا ہے دوسری طرف امن دوستی کی فضا پیدا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں ذہنی ہم آہنگی ختم ہو رہی ہے معاشرے کا ہر فرد اپنی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے اجتماعی سوچ اجتماعی معاملات اجتماعی فکر الغرض اجتماعیت کا خاتمہ ہو رہا ہے ہر شخص کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ انٹر نیٹ تک رسائی حاصل کر سکے اور مہنگائی روز مرہ کی ضروریات کے دگر دو سے ہی نہیں نکلنے دے رہی درسی کتب کے علاوہ نوجوانوں کی اکثریت دوسری کتب کا مطالعہ کرنا تو درکنار دیکھ بھی نہیں پاتے حکومتی سر پرستی یا نجی لائبریریوں کی سوچ ہی ختم ہو رہی ہے ان حالات میں محمد صابر عطا ء جو کہ بنیادی طور پر ایک صحافی ہیں بچپن سے ہی شاعری سے لگاوتھانہ صرف چوک اعظم بلکہ جنوبی پنجاب کسی بھی شاعر کا جب بھی کوئی شاعری مجموعہ شائع ہوا ملک صابر عطا جناح ہال چوک اعظم یا پریس کلب چوک اعظم میں اس شاعری مجموعے کی تقریب رونمائی منعقدکراکر صاحب کتاب کی حوصلہ افزائی کرنے کی بھرپور کوشش کی ادبی سماجی اور صحافی تنظیموں کے زیر اہتمام نوجوان شاعروں کی حوصلہ افزائی کرنے اور ادب کے جنوبی پنجاب میں فروغ کے لئے مشاعرے کرانے کی روائت بھی چوک اعظم میں صابر عطا نے ڈالی صابر عطاء ایک شخص ایک تحریک کا نام ہے وہ بیک وقت صحافی شاعر گیت نگار اور ان سب سے بڑھ کر سماجی نوجوان ہے ایک متحرک صحافی ہونے کے ناطے اسے ایک طرف تو ارباب اختیار سرمایہ داروں زمینداروں کے قریب رہنے کا موقع ملا جبکہ دوسری طرف وہ معاشرے میں تصویر کا دوسرارخ بھی دیکھتاہے کہ آج بھی مزدور کا بچہ ننگے پاؤں سکول جاتا کسان کا بچے آج بھی زمیندار کے بچے کو حسرت بھری نگاہوں سے سکول جاتے ہیں سرمایہ داروں کے گھوڑے کتے اعلی شان کمروں میں جبکہ اشرف المخلوقات آج بھی جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں صابر عطا ایک حساس طبعیت کا مالک ہے حساسیت میں ہی صابر عطاء کا پہلا شاعری مجموعہ جوگی پہلے منتر سمجھے اس کی مادری زبان سرائیکی میں شائع ہو چکی جوگی پہلے منتر سمجھے نہ صرف ایک شاعری مجموعہ بلکہ صابر عطا کی عملی زندگی کا نچوڑ ہے جس میں الفاظوں کی ہیر پھیر روائتی شاعری سے ہٹ کر صابر عطا نے نوجوانوں کو نئی امنگ نئے جزبے اور عصر حاضر کی ضروریات کے مد نظر نئے راستے تلاش کرنے کا حوصلہ دیا ہے محمد صا بر عطا کا شاعری مجموعہ جوگی پہلے منتر سمجھے نہ صرف سرائیکی ادب بلکہ قومی ادب کا سرمایہ ہے