کرونا وائرس خوفناک حد تک صرف انہی لوگوں کو خوفزدہ کر سکتا ہے جنہیں یا تو میڈیکل سے ذرا بھی لگاؤ نہیں یا وہ احتیاط کرنے میں بھی احتیاط کرتے ہیں,
لگاؤ ہونے کے باوجود میری وابستگی کم ہی رہی ہے, اللہ بھلا کرے میری چند میل فیمل ڈاکٹر دوست ہیں جن سے معلومات لیتا رہتا ہوں,میں نے کرونا کے حوالے سے جتنا پڑھا اور سمجھا ہے وہ تمام باتیں قارئین کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔
پہلی بات جو میں نے سمجھی ہے ہمارا الیکٹرانک میڈیا حسب روایت کرونا کے حوالے سے شدید قسم کی سنسنی پھیلا رہا ہے ۔ میڈیا جس طرح غیر ذمہ داری سے کرونا وائرس کا نفسیاتی خوف صبح شام ہمارے ذہنوں میں بٹھا رہا ہے اسکا ہماری صحت اور نفسیات پر برا اثر پڑ رہاہے۔ میڈیا ہمارے کانوں میں کرونا موت ہے کا راگ الاپ رہا ہے اس کے ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ اثرات ہر شخص پر کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں، گو کہ اس میں میڈیا کی بدنیتی شامل حال نہیں لیکن ایسے پروگرامز کے منفی اثرات کو بھی دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔اب اس بات کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میڈیا کی اگر اس میں بد نیتی شامل نہیں تو وہ بری الذمہ ہے,میں سمجھتا ہوں میڈیا اگر ہر وقت خوف کے سائے مسلط کرنے کی بجائے حوصلہ افزاء اور اس مرض کے حوالے سے مثبت پروگرامز کو ترجیح دیتا تو آج معاشرے میں خوف کے چھائے بادل چھٹ جاتے اور ہر پاکستانی, ڈاکٹرز کی ہدایات کےمطابق دلیری سے اسکا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہتا۔
اب بھی وقت ہے میڈیا اپنا مثبت کردار ادا کر سکتا ماہرین اور ماہر نفسیات کی مدد حاصل کر کے قوم کو اس نفسیاتی خوف سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ اب تو میڈیا کے ہر وقت کرونا کے راگ الاپنے سے معمولی نزلہ زکام سے لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
میڈیا کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر بھی ہمیں اپنی ذمہ داری کا ثبوت بھی دینا ہوگا اگر ہم کچھ دن کیلئے بری خبروں سے مثلا یہ مر گیا وہ مر گیا اسے شوگر تھی کرونا تھا مر گیا جیسی بری خبروں سے اجتناب کر لیں تو بہتر ہوگا کیونکہ ہر وقت منفی خبروں سے دوسرے انسانوں کا ایمیون سسٹم خراب ہوتا ہے جو دل کے کمزور ہوتے ہیں۔ ایسی سنسنی نہ پھیلائیں تو میرا خیال ہمارا کوئی نقصان نہیں ہو جائیگا بلکہ انسانیت کا بھلا ہوگا۔
ان حالات سے میں نے جو بات سمجھی وہ یہ ہے کہ کوئی سادھو, پیر ,پنڈت اور پادری اللہ کے ان مسیحاؤں سے آگے نہیں بڑھ سکتے جو سفید کوٹ پہن کر اسکی عطا کی ہوئی عقل کو سائنسی لیبارٹری میں استعمال کرتے ہیں.
کسی دھوکے میں مت آئیے گا نہ کوئی پیر پھونک سے علاج کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی پنڈت گاؤ موتر سے ……
اب سمجھنے والی بات سمجھتے ہیں وائرس اور بیکٹریا میں کیافرق ہوتا ہے بکٹیریا خطرناک اس لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ ہوسٹ کے بغیر بھی بڑھتا رہتا ہے, لیکن جو وائرس ہوتا ہے وہ ایک تو فیملی کے ساتھ رہتا ہے الگ تھلگ نہیں رہتا دوسرا اسے بڑھنے کیلئے ہوسٹ چاہئے ہوتا ہے مطلب انسانی جسم (body)چاہئے ۔
اب کرونا وائرس وہ ایک طرح سے باقی وائرسز کی بہ نسبت زیادہ پریشان کن نہیں ہے کیونکہ اسکا حجم زیادہ ہے مطلب وزنی ہے تو یہ ہوا میں تیرتا نہیں رہتا جیسے کہ یہ بات کئی ذمہ دار ڈاکٹرز بھی ہمیں بتا چکے ہیں,اب حجم زیادہ ہونے کا فائدہ کیا ہے؟
جب آپکو فلو یا کھانسی وغیرہ ہوتی ہے یا چھینک دیتے ہیں تو وہ وائرس ہوا سے دوسرے لوگوں کے سانس میں شامل ہو جاتا ہے اور انہیں متاثر کرتا ہے کیونکہ یہ ہوا میں تیرتا نہیں اب یہ بھی اللہ کا کرم ہے تو اسے ہر صورت ہوسٹ چاہیے اگر یہ کپڑوں یا زمین پر پڑا ہے تو چند گھنٹے ہی زندہ رہ سکتا ہے ۔
زیادہ نقصان آپکو اپنے ہاتھوں سے ہے لہذا اپنے ہاتھوں کو صاف رکھیئے ,ماسک کا استعمال کریں,گھر صاف رکھیں, باہر سے آئیں تو کپڑے بدل لیجئے,
ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ساری بات صرف قوت مدافعت کی ہے اگر انسان اچھی خوراک لے رہا ہو تو ہو سکتا ہے یہ آپکو محض ٹچ کر کہ واپس چلا جائے,احتیاط کیجئے بحثیت مسلمان ہمارا نصف ایمان صفائی بھی ہے ۔
کرونا سے مرنے کی بڑی وجہ صرف خوف زدہ ہونا ہے ,اپنا ایمیون سسٹم مضبوط کریں کیونکہ ایمیونٹی کے کم ہوتے ہی وائرس جسم پر حاوی ہو جاتا ہے
اگر ایمیونٹی یعنی قوت مدافعت بڑھانی ہے تو روزہ مرہ کی غذا میں فروٹس,کچی سبزیاں,ادرک اور لیمن کا استعمال زیادہ کر دیں یقین کریں کرونا آپکا بال بیکا بھی نہیں کر سکے گا۔
اگر صحت مند انسان بھی خوف زدہ ہو جائے تو وہ مر جائیگا ۔جیسا کہ پرانا مقولہ ہے کہ ڈر موت کا بھائی ہے۔