"میں منت کا سیاہ دھاگہ "
میں منت کا سیاہ دھاگہ، بوڑھے برگد کی اجڑی شاخ سے لپٹا یہ سوچتا ہوں ۔
کہ توں کب مجھے آزاد کرنے کو آئے گا،
نہ جانے کتنے اور برس،
مجھے تیری منت کا بوجھ برداشت کرنا ہے۔
مانگ بھی تو وہ بیٹھا ہے،
کہ جیسے سن کر،
برگد کی شاخیں بھی اداس ہوگئیں،
مزار بھی اجڑ گیا ہے ،
تیرے آنے کے انتظار میں ،
مجاور بھی مرگیا ہے۔
آجا کہ بہار رت بھی قریب ہے،
برگد کی کونپلیں نمو پانے کو ہیں،
دیکھ کچھ نہیں بگڑا،
ضد چھوڑ،
اور آزاد کردے سب کو،
انتظار کی حد،
گھڑیوں سے آگے نکل چکی ہے،
اب نئے رستے بننے کا وقت ہے،
منت کو اتارنے کا وقت ہے
۔۔ مجھ سیاہ دھاگے کو،
اتارنے کا وقت ہے۔