ایک گاؤں میں ایک شخص قبروں سے مردے نکال کراُن کے کفن اتار لیا کرتا تھا لوگ اسے بہت برا بھلا کہتے اور کوستے رہتے دن گذرتے گۓ اس کفن چور کا وقت مرگ بھی قریب آگیا اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور نصیحت کی کہ بیٹا میں نے ساری عمر مردوں کے کفن چوری کیے ہیں جس کی وجہ سے لوگ مجھے گالیاں دیتے ہیں اچھا نہیں سمجھتے آج تم میرے ساتھ عہد کرو کہ میرے مرنے کے بعد ایسے کام کرو گے کہ لوگ مجھے اچھا کہنے لگیں میری تعریفیں کریں گو اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے نےاپنے باپ سے کیے گۓ وعدے پر عمل کرنا شروع کیا لوگ جونہی اپنے عزیزواقارب کو دفنا کر واپس آتے وہ جاکر کفن آتارنے کے ساتھ ساتھ مردوں کی بے حرمتی بھی کرتا اور کفن اتارنے کے بعد میت کو دوبارہ دفن بھی نہ کرتا جب لوگوں نے اپنے عزیزواقرب کی میتوں کے ساتھ ایسا ہتک آمیز سلوک دیکھاتو تڑپ اٹھے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے اس سے تو اس کا باپ بہت اچھا تھا کم ازکم مردوں کی بے حرمتی تو نہیں کرتا تھااور میتیں دوبارہ دفنا بھی دیا کرتا تھا
تو قارئین حضرات آجکل جو چینی چوروں اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے ، کی رپورٹ آئی ہے آس پر کفن چور کی یہ کہانی بالکل پوری اترتی ہے لوگوں نے سابقہ حکومتوں کی ستم ظریفی حرام خوری اور کرپشن کی جو داستانیں سُن کر تبدیلی کی خواہش دلوں میں پال رکھی تھی اس کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے لوگ سابقہ حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کو بھول چکے ہیں اور اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس تبدیلی سرکار سے تو پچھلی حکومتیں کئی درجے بہتر تھیں
مجھے آج انتہائی افسوس سے کہنا اور لکھنا پڑ رہا ہے کہ سابقہ حکومتیں چور بازاری کرپشن اور حرام خوری کے باوجود عوام کو بھاری بھرکم ٹیکسوں کے گورکھ دھندے میں پھنسا کر ان کی زندگیوں کو اجیرن اور عذاب نہیں بناتے تھے
موجودہ حکومت نے دوران الیکشن ریاست مدینہ کے حسیں خواب اور سر سبز باغ دکھانے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے آج ان تمام دعوں اور نعروں پرصرف یو ٹرن کی مشق کے سوا کچھ نہیں کیا جا رہا ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ خواب گاہیں محض خواب بن کر رہ گئی ہیں سیینکڑوں یونیورسٹیاں وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانا گورنر ہاؤسز کو لائیبریریاں بنانا ساڑھے تین سو ڈیم بنانا سب پانی میں بہہ گۓ ہیں اپنی نااہلی نا تجربہ کاری مغروری خود نمائی خود پسندی نرگسیت کی وجہ سے معیشت کو کرونا وائرس لگ چکا ہے جو اب وینٹیلیٹر پر آخری سانسیں لے رہی ہے سابقہ حکومتوں نے ڈالر سو پر چھوڑا تھا جو اب ایک سو ستر کو چھو رہا ہے اشیاء خورد ونوش اور میڈیسن کی قیمتیں تیس سے تین سو گنا بڑھ گئیں ہیں عالمی منڈی میں پٹرول ڈیزل کی قیمتیں بیس سالہ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں مگر اُس کا پاکستانی عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جا رہا
المیہ یہ ہے کہ کرپشن ختم کرنے اور کرپٹ عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی دعویدار حکومت خود کرپٹ اور حرام خور وزیروں مشیروں کی پشت پناہی کر رہی ہے آیہ روز کرپشن کے میگا سیکنڈل سامنے آرہے ہیں کبھی انسانی جان بچانے والی ادویات کا سیکنڈل کبھی چینی کا سیکنڈل کبھی آٹے اور گندم کا بحران کبھی ماسک سمگلنگ ،مالم جبہ، ہیلی کاپٹر کیس بی آر ٹی کرپشن فارنرفنڈنگ کیس اور نہ جانے کئی ایسے مزید کیس جو ابھی اقتدار میں ہونے کی وجہ سے پائپ لائن میں ہوں گے جو منظر عام پر نہیں آرہےمیں ان حالات میں جب بھی ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت کا عمیق جائزہ لیتا ہوں تو مجھے پردھان منتری کے آگے پیچھے دائیں بائیں کرپٹ لوگوں کا جم غفیر نظر آتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پردھان منتری صاحب اِس کرپٹ ٹولے سے جان بوجھ کر چشم پوشی کیے ہوۓ ہیں کیونکہ کچھ دن پہلے وزیراعظم صاحب کو ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں جہانگیرترین خسرو بختیار اور کئی اور کیننٹ ممبرز کو گندم اور آٹے چینی کے بحران کا ذمیدار ٹھہرایا گیا مگر پردھان منتری نے ان دونوں کے نام ہونے کی وجہ سے رپورٹس کو درست نہ مانتے ہوۓ مسترد کردیا اور اب جبکہ تیسری مرتبہ fIA کی زیر نگرانی بنائی گئی رپورٹ پیش کی گئی ہے توذمیداران کو قانون کی کٹہرے میں لانے کی بجاۓ بچانے کےالل٘ےتلل٘ے کیے جارہے ہیں
محترم قارئین بیس ماہ کے دوران کرپشن کی یہ داستانیں سن کر مجھے کفن چور والی کہانی یاد آجاتی ہےاور ہر آنے والا حکمران مظالم کرپشن چور بازاری اور حرام خوری کی ایسی داستانیں رقم کرتا ہے کہ لوگ سابقہ حکمرانوں کی داستانیں بھول کر انھیں مسیحا اور نجات دہندہ تصور کرنے لگ جاتے ہیں لوگوں کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ حکمران صحیح معنوں میں عوام کے خادم اعلی کا کردار اداکرتےہوۓ لوگوں کی عذاب ہوتی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کریں اور ان کی آنے والی نسلوں کیلۓخوشیوں کے رنگ بکھیرتے ہوۓ پاکستانی سیاست کو اس کفن چور کی وصی٘ت جیسا نہ بننے دیں
نوٹ ۔ ادارہ کا کالم نگار کی راءے سے متفق ہو نا ضروری نہیں