• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

” میری زندگی میری مرضی۔۔۔” … مظہر اقبال کھوکھر

webmaster by webmaster
مارچ 8, 2020
in کالم
0
” میری زندگی میری مرضی۔۔۔” … مظہر اقبال کھوکھر

8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ویسے تو یہ دن 1908 سے منایا جا رہا ہے مگر 1977سے باقاعدہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے تحفظ ، در پیش مسائل مشکلات اور ان کے حل کے حوالے سے سیمنارز ، ریلیاں اور پروگرامز منعقد ہوتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی خواتین کا عالمی دن انتہائی جوش اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ اپنے اپنے شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے مختلف فورمز سے آواز بلند کی جاتی ہے۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے ایک مخصوص طبقے نے خواتین کے دن کو کچھ اس انداز سے متنازع کر دیا ہے کہ عالمی یوم خواتین کا نام سامنے آتے ہی ایک غلط تاثر سامنے آجاتا ہے درحقیقت اس میں ہر دو طبقے کی انتہاء پسندی شامل ہے خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات کرنے والی این جی اوز جو انہی دنوں متحرک ہوتی ہیں وہ تمام حدود و قیود چھوڑ کر عورت کو سر بازار تماشہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں اور دوسری طرف وہ طبقہ جو صرف انہی چند خواتین کے بیانیے کو جواز بنا کر خواتین کا دن مناۓ جانے کی مخالفت کرتا ہے۔

اس کی خاص وجہ گزشتہ سال یوم خواتین کے موقع پر نکالی جانے والی وہ ریلی ہے جس میں کچھ اس طرح کے زومعنی پلے کارڈ لہرائے گئے اور نعرے لگاۓ گئے کہ ایک شریف انسان فیملی کے سامنے ڈسکس بھی نہیں کر سکتا مگر حیرت ہے وہ مخصوص طبقہ آج بھی اپنے اس نعرے پر قائم ہے اور اس حوالے سے مختلف تاویلیں بھی پیش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے ہائی کورٹ نے ایک درخواست کے بعد عورت مارچ کے حوالے سے باقاعدہ ھدایت جاری کی کہ” آئین پاکستان میں ہر شخص کو انجمن سازی کی آزادی حاصل ہے عورت مارچ کے منتظمین بھی بد اخلاقی اور نفرت انگیزی سے بعض رہیں”

مگر شاید ہماری سوسائٹی میں در آنے والی شدت پسندی کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ پورا معاشرہ اور ہر طبقہ اس شدت پسندی سے دو چار ہے جو جہاں کھڑا ہے وہ خود کو درست اور دوسرے کو غلط قرار دیتا ہے اس کی ایک افسوسناک مثال گزشتہ روز ایک لائیو ٹی وی شو کے دوران دیکھنے کو ملی جب ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر اور خواتین کے حقوق کا نعرہ لگانے والی ماروی سرمد کے درمیان انتہائی تلخ اور غیر اخلاقی جملوں کا تبادلہ ہوا جس نے ہمارے معاشرے کی دو انتہاؤں  کا پردہ چاک کر دیا۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف انتہائی غلط اور غیر اخلاقی زبان استعمال کی جا رہی ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ لبرل ازم کے نام پر اخلاقیات کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی مگر اس کی آڑ میں لائیو ٹی وی شو میں ایک عورت کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی اور جو لب و لہجہ استمال کیا گیا اس کی حمایت بھی نہیں کی جاسکتی یقینا باحثیت قوم ہمیں اپنے اجتمائی رویے پر غور کرنا ہوگا۔
در حقیقت آج ہمارا معاشرہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس کی ایک اہم وجہ اسلام کی تعلیمات سے دوری ہے اگر ہم دین اسلام اور آقا حضور ﷺ کے فرمودات کو سامنے رکھ کر زندگی گزاریں تو میرا نہیں خیال کہ ہمیں اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ دین اسلام نے 14 سو سال پہلے خواتین کو وہ حقوق دیے کہ دنیا آج بھی نہیں دے سکی ۔ وراثت میں خواتین کو باقاعدہ حصہ دینے کے علاوہ خواتین کے احترام کی اس سے بڑھ کر مثال کیا ہو گی کہ آقا حضور ﷺ اپنی رضائی بہن کی آمد پر بیٹھنے کے لیے  اپنی چادر بچھا دیتے تھے اور پھر تاریخ اسلام خواتین کی جدوجہد امور مملکت ، حرب اور بقائے اسلام کے لیے قربانیوں سے عبارت ہے اور پھر دین اسلام نے خوبصورت رشتوں میں پرو کر خواتین کو وہ تحفظ فراہم کیا کہ کسی بھی مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ماں کے روپ میں اس کے قدموں تلے جنت ، بیٹی کے روپ میں رحمت ، بہن کے روپ میں سراپا شفقت اور بیوی کے روپ میں پیار اور محبت کی عملی صورت ہے ۔

اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خواتین کو ہر شعبے میں نہ صرف صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ہر جگہ مختلف انداز میں جنسی ہراسمنٹ سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے مگر کیا اس کا صرف یہی حل ہے کہ ” میرا جسم میری مرضی ” کا اشتہار بن کر سڑکوں پر نعرے لگائے جائیں۔۔؟ گوکہ عورت مارچ کے منتظمین اس نعرے کو وسیع تناظر میں ثابت کرنے کی کوشش کر رہے  ہیں لیکن  معاشرے اگر صرف مرضیوں سے  چلنا شروع ہو جائیں تو پھر آئین قانون اور اخلاقیات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی اور ہر طرف جنگل راج شروع ہو جاتا ہے ہر سوسائٹی اپنے کچھ اصول اور اخلاقی تقاضاے ہوتے ہیں جنہیں ہرگز پامال نہیں کیا جا سکتا اس کے باوجود اگر آپ باضد ہیں تو "آپ کی سوچ آپ کی مرضی” مگر کیا اس مرضی کو 12 کروڑ خواتین پر لاگو کیا جاسکتا ہے جن کے مسائل عورت مارچ میں لگاۓ جانے والے نعروں سے کہیں مختلف ہیں ۔ حالانکہ اگر ” میرا جسم میری مرضی "کے زومعنی نعرے میں اگر  کوئی  خاص مقاصد پوشیدہ نہیں تو اس محدود نعرے کے بجاۓ ایک وسیع البنیاد اور پر اثر نعرہ بھی بلند کیا جاسکتا تھا کہ ” میری زندگی میری مرضی ” اس نعرے پر نہ تو کسی کو اعتراض ہوتا نہ ہی اس طرح مخالفت ہوتی بلکہ اسے سراہا جاتا اور اس کی حمایت بھی کی جاتی مگر نظر آنے والے ہر مقصد کے پیچھے کئی مقاصد ہوتے ہیں##

مظہر اقبال کھوکھر
03007785530
mkhokhar433@gmail.com

Tags: colimn by mazhar husain khokhar
Previous Post

عالمی یوم خواتین , دنیا بھر کی خواتین کی انتھک خدمات کا اعتراف

Next Post

لیہ۔ جماعت اسلامی شعبہ خواتین کے زیر اہتمام تکریم نسواں واک

Next Post
لیہ۔ جماعت اسلامی شعبہ خواتین  کے زیر اہتمام تکریم نسواں واک

لیہ۔ جماعت اسلامی شعبہ خواتین کے زیر اہتمام تکریم نسواں واک

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ویسے تو یہ دن 1908 سے منایا جا رہا ہے مگر 1977سے باقاعدہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے تحفظ ، در پیش مسائل مشکلات اور ان کے حل کے حوالے سے سیمنارز ، ریلیاں اور پروگرامز منعقد ہوتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی خواتین کا عالمی دن انتہائی جوش اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ اپنے اپنے شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے مختلف فورمز سے آواز بلند کی جاتی ہے۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے ایک مخصوص طبقے نے خواتین کے دن کو کچھ اس انداز سے متنازع کر دیا ہے کہ عالمی یوم خواتین کا نام سامنے آتے ہی ایک غلط تاثر سامنے آجاتا ہے درحقیقت اس میں ہر دو طبقے کی انتہاء پسندی شامل ہے خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات کرنے والی این جی اوز جو انہی دنوں متحرک ہوتی ہیں وہ تمام حدود و قیود چھوڑ کر عورت کو سر بازار تماشہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں اور دوسری طرف وہ طبقہ جو صرف انہی چند خواتین کے بیانیے کو جواز بنا کر خواتین کا دن مناۓ جانے کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کی خاص وجہ گزشتہ سال یوم خواتین کے موقع پر نکالی جانے والی وہ ریلی ہے جس میں کچھ اس طرح کے زومعنی پلے کارڈ لہرائے گئے اور نعرے لگاۓ گئے کہ ایک شریف انسان فیملی کے سامنے ڈسکس بھی نہیں کر سکتا مگر حیرت ہے وہ مخصوص طبقہ آج بھی اپنے اس نعرے پر قائم ہے اور اس حوالے سے مختلف تاویلیں بھی پیش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے ہائی کورٹ نے ایک درخواست کے بعد عورت مارچ کے حوالے سے باقاعدہ ھدایت جاری کی کہ" آئین پاکستان میں ہر شخص کو انجمن سازی کی آزادی حاصل ہے عورت مارچ کے منتظمین بھی بد اخلاقی اور نفرت انگیزی سے بعض رہیں" مگر شاید ہماری سوسائٹی میں در آنے والی شدت پسندی کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ پورا معاشرہ اور ہر طبقہ اس شدت پسندی سے دو چار ہے جو جہاں کھڑا ہے وہ خود کو درست اور دوسرے کو غلط قرار دیتا ہے اس کی ایک افسوسناک مثال گزشتہ روز ایک لائیو ٹی وی شو کے دوران دیکھنے کو ملی جب ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر اور خواتین کے حقوق کا نعرہ لگانے والی ماروی سرمد کے درمیان انتہائی تلخ اور غیر اخلاقی جملوں کا تبادلہ ہوا جس نے ہمارے معاشرے کی دو انتہاؤں  کا پردہ چاک کر دیا۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف انتہائی غلط اور غیر اخلاقی زبان استعمال کی جا رہی ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ لبرل ازم کے نام پر اخلاقیات کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی مگر اس کی آڑ میں لائیو ٹی وی شو میں ایک عورت کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی اور جو لب و لہجہ استمال کیا گیا اس کی حمایت بھی نہیں کی جاسکتی یقینا باحثیت قوم ہمیں اپنے اجتمائی رویے پر غور کرنا ہوگا۔ در حقیقت آج ہمارا معاشرہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس کی ایک اہم وجہ اسلام کی تعلیمات سے دوری ہے اگر ہم دین اسلام اور آقا حضور ﷺ کے فرمودات کو سامنے رکھ کر زندگی گزاریں تو میرا نہیں خیال کہ ہمیں اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ دین اسلام نے 14 سو سال پہلے خواتین کو وہ حقوق دیے کہ دنیا آج بھی نہیں دے سکی ۔ وراثت میں خواتین کو باقاعدہ حصہ دینے کے علاوہ خواتین کے احترام کی اس سے بڑھ کر مثال کیا ہو گی کہ آقا حضور ﷺ اپنی رضائی بہن کی آمد پر بیٹھنے کے لیے  اپنی چادر بچھا دیتے تھے اور پھر تاریخ اسلام خواتین کی جدوجہد امور مملکت ، حرب اور بقائے اسلام کے لیے قربانیوں سے عبارت ہے اور پھر دین اسلام نے خوبصورت رشتوں میں پرو کر خواتین کو وہ تحفظ فراہم کیا کہ کسی بھی مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ماں کے روپ میں اس کے قدموں تلے جنت ، بیٹی کے روپ میں رحمت ، بہن کے روپ میں سراپا شفقت اور بیوی کے روپ میں پیار اور محبت کی عملی صورت ہے ۔ اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خواتین کو ہر شعبے میں نہ صرف صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ہر جگہ مختلف انداز میں جنسی ہراسمنٹ سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے مگر کیا اس کا صرف یہی حل ہے کہ " میرا جسم میری مرضی " کا اشتہار بن کر سڑکوں پر نعرے لگائے جائیں۔۔؟ گوکہ عورت مارچ کے منتظمین اس نعرے کو وسیع تناظر میں ثابت کرنے کی کوشش کر رہے  ہیں لیکن  معاشرے اگر صرف مرضیوں سے  چلنا شروع ہو جائیں تو پھر آئین قانون اور اخلاقیات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی اور ہر طرف جنگل راج شروع ہو جاتا ہے ہر سوسائٹی اپنے کچھ اصول اور اخلاقی تقاضاے ہوتے ہیں جنہیں ہرگز پامال نہیں کیا جا سکتا اس کے باوجود اگر آپ باضد ہیں تو "آپ کی سوچ آپ کی مرضی" مگر کیا اس مرضی کو 12 کروڑ خواتین پر لاگو کیا جاسکتا ہے جن کے مسائل عورت مارچ میں لگاۓ جانے والے نعروں سے کہیں مختلف ہیں ۔ حالانکہ اگر " میرا جسم میری مرضی "کے زومعنی نعرے میں اگر  کوئی  خاص مقاصد پوشیدہ نہیں تو اس محدود نعرے کے بجاۓ ایک وسیع البنیاد اور پر اثر نعرہ بھی بلند کیا جاسکتا تھا کہ " میری زندگی میری مرضی " اس نعرے پر نہ تو کسی کو اعتراض ہوتا نہ ہی اس طرح مخالفت ہوتی بلکہ اسے سراہا جاتا اور اس کی حمایت بھی کی جاتی مگر نظر آنے والے ہر مقصد کے پیچھے کئی مقاصد ہوتے ہیں## مظہر اقبال کھوکھر 03007785530 mkhokhar433@gmail.com
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.