میڈیا ، بزنس مین اور ایجنٹ ہمیشہ جھوٹ بو لتے ہیں .
نذیر سرداری نے ایک ایک لفظ چبا کے ادا کرتے ہو ئے کہا
وہ کیوں دوست ؟ میڈ یا اور بزنس مین تو سمجھ آ گئے ۔۔ یہ ایجنٹ کو نسے والے ؟ میں نے آ نکھیں چراتے ہو ئے پو چھا ۔
یہ ایجنٹ وہی والے جو لو گوں کو با ہر بھجوانے کا کام کرتے ۔۔ یہ لوگ بھی کبھی سچ نہیں بو لتا ۔ سرداری نے وضاحت کی
یار میڈ یا تو وہی دکھاتا جو سچ میں مو جود ہو تا ۔اور پا لیٹیشن جھوٹ نہیں بو لتے کیا؟ میں نے سمجھانے کے انداز میں جواب دیا
نہیں، نہیں ایسا نہیں ہو تا۔۔ میڈ یا کبھی سچ نہیں بو لتا اور نہ دکھاتا ، یہ جتنے میڈ یا ٹاک شو ہو تے ، کیا ان میں سچ بو لا جاتا ۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر تم خود بتا ؤ ۔۔ میں تو گھر میں جب یہ ٹاک شو آ تے بس ۔۔ٹی وی بند کر دیتا ۔۔ ہم کو ئی ٹی وی نہیں دیکھتا۔۔ سب جھوٹ چلتا
۔اور رہی بات ان پا لیٹیشن کی تو یہ تو سب سے بڑے جھوٹے ہیں ۔۔ یہ جھوٹ گھڑتے ہیں اور میڈیا ان کے جھوٹوں کو پر موٹ کرتا ہے۔
سرداری سے میری ملاقات سرراہ اتفا قیہ ہو ئی تھی ۔ میں نماز ظہرکے بعد مسجد سے نکلا تو میں نے اسے دیکھا ، وہ میرون کلر کی شلوار قمیض پہنے سر پرٹوپی لئے مسجد کے با ہر بنے واک ٹریک کنارے پڑی ایک بنچ پر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا ۔ دراز قد،کھلتے رنگ پر خوبصورت داڑھی اورقمیض شلوار میں ملبوس اسے دیکھ کر میں نے سو چا کہ یہ ضرور پا کستانی ہو گا۔ میرا دل چاہا کہ میں اس سے ملوں اور بات کروں لیکن میں نے اپنی خواہش پر عمل نہیں کیا بلکہ اس سے دور ایک اور خالی بنچ پر جا بیٹھا اور ہلکی ہلکی میٹھی دھوپ سینکنے لگا ۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور میری بنچ کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے اسے ویلکم کرتے پو چھا ۔۔ پا کستانی ہو ۔۔
نہیں میں افغانی ہوں ، کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ؟ اس نے بنچ کی خالی جگہ کی طرف نظر ڈالتے ہو ئے پو چھا ۔۔
جی جی ، کیوں نہیں یہ کہتے ہو ئے میں نے پو چھا۔۔ افغانستان میں کہاں سے ہو اور کب آ ئے ؟
میں کا بل سے ہوں ۔۔ مگر گیارہ بارہ سال ہو گئے انگلینڈ میں رہتا ہوں ۔ اس بار چھٹیاں دو بئی گزارنے کا پروگرام بنایا تو ایک ہفتہ پہلے ہم وزٹ کے لئے دو بئی آ گئے۔۔ اس نے بتا یا ۔۔
تم کدھر سے ہو ؟ میں پا کستان سے ہوں میں نے جواب دیا
پا کستان تو دیکھا ہو گا ؟ میں نے سوال کیا
ہاں میں راولپنڈی پشاور موڑ پر پیاز اور ٹماٹر کا کاروبار کرتا رہا ہوں۔سرداری نے سر ہلاتے ہو ئے جواب دیا
تم پا کستان میں کدھر رہتا ۔۔
میں پنجاب میں ملتان کے ساتھ رہتا ہوں ۔۔ ملتان دیکھا ہے ۔ میں نے استفسار کیا
نہیں میں نے ملتان نہیں دیکھا۔۔ البتہ سمہ سٹہ گیا ہوں ۔ نذیر نے بتا یا ۔۔ پہلے تو ہم لوگ پا سپورٹ کے بغیر کابل سے پا کستان چلے جاتے مگر اب پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔۔ اب جب تک پا کستان میں کو ئی بندہ سپانسر نہ کرے افغانی پا کستان نہیں جا سکتا۔۔ سرداری نے میری طرف دیکھتے ہو ئے اپنی بات مکمل کی۔
تم چھٹیوں میں اپنے وطن افغانستان کیوں نہیں گئے ؟ میں نے پو چھا
کابل میں ہم جا کے کیا کرتے ادھر بہت جنگ ہے ، حالا ت بالکل ٹھیک نہیں ۔۔ ہم ایسے جیسے ادھر بیٹھے سکون سے ادھر نہیں بیٹھ سکتے ۔ بڑی بد امنی ہے ادھر ۔۔ امن اور سکون تو بالکل نہیں ادھر ۔ سرداری کے لہجے میں دکھ اور افسوس نمایاں تھا
اس لڑائی کی سمجھ آ تی آپ کو میں نے سرداری سے پو چھا ۔۔
بالکل سمجھ آتا ہے ۔۔ یہ جو بین الاقوامی ما فیا ہے۔۔ اس کا سبب ہے یہ سب جنگ وغیرہ۔۔ افغانستان میں یو رو نییم ہے ، ڈائمنڈ ہے ۔گیس ہے ۔۔ دنیا کے سبھی بڑے چوروں کی نظریں افغانستان کی انہیں معد نیات کی طرف ہیں ۔ ادھر کو ئی امن کی لڑائی نہیں لڑتا۔۔ بس سب نے اپنے مفادات کے لئے افغانستان کو جہنم بنایا ہوا ہے۔۔ دنیا کے سبھی بڑے چوروں نے مل کر اپنے مفادات کے لئے ۔۔ بات کرتے ہو ئے شدت جذبات سے اس کا سرخ رنگ اور لہو رنگ ہو گیا ۔۔
اوہ تم تو جذباتی ہو گئے ہو یار۔ اچھا یہ بتاؤ انگلینڈ میں کیا کرتے ہو۔۔ میں نے موضوع بدلا
ادھر میری چپس اور گفٹ وغیرہ کی دکان ہے ۔۔ یہ دیکھو اس نے اپنے مو بائل پر اپنے سٹور کی تصاویر مجھے دکھاتے ہو ئے کہا ۔۔ ہم یہ سب کچھ بیچتا ۔۔۔
اچھا۔۔ یہ بتائیں کہ پہلے سب چھٹیاں گذارنے لوگ یورپ جاتے ۔۔ اب یورپ والے دو بئی میں آ تے ۔۔ اب ایسا کیوں ہوتا ۔۔ میں نے رہنمائی چا ہی ۔۔
اوہ یار یہ سب دھوپ اور امن کی وجہ ہے ۔۔ یورپ میں دھوپ نہیں ہوتا، ساراسال آ سمان پر بادل چھائے رہتے ہیں سورج نظر ہی نہیں آ تا دھوپ نہ ہونے کے سبب لوگ وٹامنز کی کمی کا شکار ہو جا تا ہے ، ہاتھ پاؤں کا سن ہو جانا عام سی بات ہے۔ اس لئے جب بھی لوگ ہا لیڈے کرتے۔۔ دو بئی کا رخ کرتے ہیں ۔ دو بئی میں امن ہے ۔۔ تحفظ ہے۔۔ اس لئے لوگ زیادہ ادھر ہی چھٹیاں گزارنے آ جاتے۔ہم بھی اسی واسطے آ یا
ابھی نذیر سرداری سے گفتگو جاری تھی کہ پینٹ کوٹ میں ایک اور صاحب تشریف لے لائے، انہیں دیکھ کر سرداری کھڑے ہو گئے اور مجھے تعارف کراتے ہو ئے بولے یہ ہیں میرے بڑے بھائی۔۔
میں نے گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہو ئے پو چھا۔۔ آپ کا نام ؟
بشیر۔۔ میرا نام بشیر ہے
بشیر نے نذیر سے آ نکھوں ہی آ نکھوں میں میری وضاحت مانگی تو نذیر کہنے لگے یہ جرنلسٹ ہیں اور پا کستان سے آ یا ہے ۔۔بشیر نے ایک بار پھر گھٹ کے مجھ سے ہاتھ ملایا اور نذیر کو چلنے کا اشارہ کیا۔۔ یوں بشیر اور نذیر سے ہماری ملاقات اختتام کو پہنچی ۔۔
سورج بھی روشنی چھوڑ چکا تھا میں کا فی دیر سے مسجد کے قریب ٹریک وے کنارے پڑی بنچ پر بیٹھا تھا ، مغرب کی اذان کا وقت قریب تھا سوچا نماز کے بعد گھر واپسی ہو نی چا ہئیے ۔ برشھا ہا ئیٹس میں یہ مر کزی جامع مسجد ایک بڑی مسجد ہے اتنی بڑی کہ اس مسجد کے اندر تقریبا ایک ہزار سے زائد نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ بلند ترین عمارتوں کے درمیان گھری اس جا مع مسجد کے چاروں طرف ٹریک وے، مارکیٹس، کیفے اور ریسٹورنٹس کی خاصی تعداد ہے، مسجد کے ارد گرد چاروں طرف ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے، دینا کے ہر خطہ کے لوگ اپنے اپنے لباس میں گھو متے اور بیٹھے نظر آ تے ہیں، سکرٹ پہنے انگریز، عبا پہنے عرب، کلر فل لباس پہنے افریقی، تلک لگا ئے ساڑھیاں پہنے ہندو اور شلواقمیض میں ملبوس پا کستانی سبھی اپنے اپنے رنگ میں بسے دنیا بھر کے لوگ امن، تحفظ اور سکون کا احساس ان سب کو دو بئی کھینچ کر لا تا ہے ۔ان سب کو دیکھ کر میں سو چنے لگا کہ عمران خان اور پی ٹی آ ئی حکومت کا وژن ہے کہ پا کستان میں سیاحت کو فروغ دیا جا ئے ، بلاشبہ پا کستان کے شمالی علاقہ جات ، گندھارا اور مو ہنجو داڑو کی صدیوں پرانی تہذیب کے آ ثار ، برف سے ڈھکے پہاڑ،چٹیل میدان، دھوپ اور کھلا آ سمان جس کے لئے یورپ ترستا ہے، دنیا جس کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے۔۔ وہ سب کچھ ہے ۔۔ بلاشبہ ٹورسٹ کے لئے پا کستان میں بہت کچھ ہے دیکھنے کے لئے۔۔ مگر کیا ٹورسٹ کو پا کستان میں امن تحفظ اور آزادی کا وہ احساس جو دو بئی مہیا کرتا ہمارے ہاں ملے گا ؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب تلاش کرنے اور اس پر سو چنے کی ضرورت ہے ۔۔
مسجد کے جانب غرب دوبئی میٹرو کا ٹریک ہے ہے یہاں میٹرو کے نام پر میٹر وبسیں نہیں ٹرینیں چلتی ہیں ، 75 کلومیٹردو بئی میٹرو منصوبے کا افتتاح 9 ستمبر 2009 میں ہوا۔مسافر دو بئی میٹرو سے برجومین، برج خلیفہ،دوبئی مال اور مال آف امارات سمیت جہاں تک چا ہے سفر کر سکتا ہے، مجھے بڑی خواہش تھی کہ میں بھی دو بئی میٹرو کا لطف اٹھاؤں اور پورا دو بئی دیکھوں مگر ۔۔ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت سے ارمانوں کی طرح یہ ارمان بھی تشنہ رہے ، میں برج خلیفہ کے ٹاپ پر جانا چا ہتا تھا مگر اچھا ہو بیگم کا کہ جس نے ہمارے موئے دل کا جواز گھڑ کے ہمیں یہ نظارہ نہیں کر نے دیا۔۔
نماز مغرب کے بعد نو می بولے ابو چلیں ۔۔ میں نے پو چھا ۔۔ اب کہاں ؟ کہنے لگے چلیں تو سہی اور ہم چل پڑے ، گھر سے نکلے تو پتہ چلا کہ مال آف امارات جا رہے ہیں ۔۔ کئی منزلوں پر مشتمل یہ بھی بڑا مال (شا پنگ سنٹر ) تھا ۔ نعمان نے وہاں سے اپنے بابا یعنی ہمارے لئے پینٹ، شرٹس خرید کیں اور ہم نے اپنے لئے بہت سی جرابیں ۔ گھر واپس جاتے ہو ئے ایک بڑی سی عمارت کی طرف اشارہ کر کے نو می بو لے ۔۔ با با یہ سامنے بحری جہاز نما بڑی سی بلڈنگ جو نظر آ رہی ہے یہ برج العرب ہے ۔ یہ دنیا کے چند بڑے ہو ٹلوں میں ایک ہے ۔۔ برج خلیفہ کی تعمیرسے قبل برج العرب دو بئی کی سب سے بڑی عمارت تھی ۔
باقی احوال اگلی قسط میں ۔۔۔