اہل نظر ، اطلا ع ملی ہے کہ یو رپ نے 575کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی دنیا کی جدید ترین الیکٹرک ٹرین بنا لی ہے لیکن ہما رے مسائل ، تحقیق ، تخلیق اور تکنیک با لکل مختلف ہے ہم نے تو ہر دور میں بحر ظلما ت میں گھوڑے دوڑا دئیے ہیں ،ہ میں توغیر ت ، حرمت ، نسبت ، لعنت ، فقہ اور فتویٰ سے فرصت نہیں اور کبھی فرصت میسر ہو تو ہم حلالے ، چندے ، استنجے ، ٹخنے ، چلے ، جبے ، تکیے اور دھا گے میں مصروف رہتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم کڑے، گنڈھے ، کھیرے ، لوٹے ، حلوے ، جلوے ، تلوے ، بکرے ، کھوتے ، طوطے ، پریاں ، گڈیاں ، ٹو پیاں ،جنتریاں ، لونڈیاں ، ہرا ، پیلا ، نیلا ، کا لا اور چٹا جا دو کر نے اور سیکھنے میں لگے رہتے ہیں ۔ ہم نے زندگی میں سندور ، تندور اور مجبو ر کو ایک گھا ت پر پانی پلا نے کی بھر پور ریاضت کو اپنا رکھا ہے ۔ ہما ری زندگی کا مقصد کھیر ، تصویر ، تقدیر ، شلوار ، تلواراور سنگسار کے ساتھ پورا ہو جا تا ہے ۔ ہم بدعت و شرک کی توجہات کر نے میں ہر جگہ اپنی اپنی ضرورت کے مطا بق کا میا ب ہوجاتے ہیں ہ میں پورا اختیار ہے کہ لو گوں کو زندگی میں جنت اور جہنم الا ٹمنٹ کر دیں ۔ ہ میں پورا ثواب ، ادھوری نیکی ، پکا کا فر اور کچا مسلما ن بنا نے کا مکمل اختیار حاصل ہے ہم دجا لی ، دلالی ، حلالی ،لعنتی اور جنتی ، جہنمی کی سندیں تقسیم کر سکتے ہیں ۔
ہما رے معاشرے میں ایسی لسی میں مدت سے مدھانی گھما ئی جارہی ہے جس سے مکھن تو نہیں نکل سکا البتہ لسی میں بو آنا شروع ہو گئی ہے ۔
ہم پا کستا نی ہر فن مو لا ہیں اگست آئے تو سچے پاکستانی ، رمضان آئے تو پکے مسلمان ، طبل ِجنگ بجے تو پو ری قوم فوجی ، کھیل کا میدان ہو تو ہم سب کھیلاڑی ،الیکشن کا موسم ہو توقوم کا بچہ ، بوڑھا ، جوان سیاستدان ، اعلان بجٹ کے ساتھ ہی سب کے سب ما ہر معاشیات بن جا تے ہیں اور اگر کہیں سے نعرہ احتساب بلند ہو تو ہم میں سے ہر ایک نیب کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اڑتی اڑتی ہر خبر پہ ہما را تجزیہ پیش کر نا عین ثواب ہے ۔ بیما ر کو ملیں گے تو خود بیمار ہو نے کے با وجود اس کے لئے ڈاکٹر بن جا ئیں گے اورکبھی ڈاکٹرسے ملیں تو خو دساختہ بیما ریوں کی فہرست اسے سنا دیں گے ۔
دین کو رسم و رواج اور وطن کی محبت کو فیشن کے طور پر اپنا تے ہیں ، زکواۃ دیتے ہو ئے تصویریں بنواتے ہیں اور حج و عمرہ کے سفر پر جا نے اور واپس آنے پر دیگیں چڑھا کر قرب و جوار کے لو گوں کو اپنے حاجی ہو نے کا اعلان کر تے ہیں ۔ ہما ری نیتیں کیا ہیں یہ تو رب ہی جانتا ہے لیکن جو عمل سب کے سامنے ہے وہ کسی بھی صورت لا ئق تعریف نہیں ۔
;242; انسان خدا بننے کی کو شش میں ہے مصروف
لیکن یہ تما شا بھی خدا دیکھ رہا ہے
حکا یا ت رومی میں درج ہے کہ جن با توں پر جھگڑا کر کے لو گ منوں مٹی تلے جا سوتے ہیں انہیں با توں پر ہلکی سی مٹی ڈال کر دنیا میں پُر سکون زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔ اس فرما ن کی روشنی میں ہما رے بزرگ سیاستدان چوہدری شجاعت حسین بھی ہر چھوٹے بڑے معاملے پر مٹی ڈال کر آگے بڑھ جا تے ہیں اور کچھ مہربا ن ایسے بھی ہیں جو مٹی کی خاک اڑا کر اپنا ماحول آلو دہ کر لیتے ہیں ۔ نوبت تو یہاں تک آ پہنچی ہے کہ
;242;کیا تما شا ہوا اسلام کی تقدیر کے ساتھ
قتل شبیر ہوا ، نعرہ تکبیر کے ساتھ
اسی زمین کا ایک اور شعر ہے
;242;عجب مذاق روا ہے یہاں نظام کے ساتھ
وہی یذید کے ساتھی ، وہی امام کے ساتھ
اہل علم و حکم پر فرض ہے کہ وہ انسانیت کی بھلا ئی کے علم کو اپنے عمل کے ذریعے رواج دے اور بتا ئیں کہ قادر مطلق نے ہ میں زمین کے سیارے پر بھیجنے کا جو مقصد بتا یا ہے اس پر من و عن عمل کر ے ۔ رب کے حکم کو
جا ننے میں ، سمجھنے میں اور عمل کر نے میں اگر کہیں مشکل درپیش آئے تو سنت و سیرت محمدی;248; سے مدد ما نگیں ۔ کو ئی مشکل، مشکل نہیں رہے گی ۔
ریاض بھٹی