ہم تو مدت سے اپنی خوش مانی کا شکار تھے کہ ہمارے پردادا میاں محمد رمضان مولوی ،دادا میاں محمد عیسیٰ بھی مولوی، تاجی میاں غلام یسین بی اے علیگ، دوسرے تایا میاں غلام نبی منشی فاضل اور والد محترم حافظ غلام محمد اس وقت کے دس جماعت پاس تھے جب میٹرک کی سندپنجاب یونیورسٹی جاری کیا کرتی تھی قریبی عزیزوں میں علم تھا تجارت نہیں تھی اور اگر ننھیال میں تجارت تھی تو بالکل عبادت جیسی آج جیسی ہرگز نہ تھی .
میرے ہم زلف ڈاکٹرعبیداللہ خان نے تقریبا بیس سال پہلے اعلان کر دیا تھا کہ آنے والے دنوں میں معاشرہ دو طرح کے لوگوں میں بٹ جائے گا لٹریٹ اور الٹریٹ;. ہمارے سوال پر انہوں نے واضح کیا کہ اول الذکر کمپیوٹر کا علم رکھنے والے ہونگے اورثانی الذکر کمپیوٹر سے دور رہنے والے . ہماری خوش مانی یہاں بھی آڑے آ کے رہی اورہم نے دو دہائیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے نام نہاد قسم کے جوازات پہ اکتفا کیا بالآخر آج اعتراف حقیقت ہے کہ ہم دوسری جماعت یا گروہ کے فرد ہیں جن کے پاس معلومات کی شدید کمی ہے لیکن الحمدللہ علم کے چند حروف سنبھال رکھے ہیں
مدت سے جس یار کو مہماں کیا ہوا ہے اسے تو ہم کسی صورت رخصت کرنے والے نہیں , بھلے سیدھا سادا جہالت کا اعزاز عطا ہوجائے, ہاں ! یہ صورت ضرور نکالی ہے کہ کام چلانے کیلئے دور جدید کے کارپرزوں سے امداد لے لیتے ہیں یہ ادھاری امداد ہے کیونکہ ہ میں یقین غالب میں کہ زندگی ادھار ی ہے تو پھر باقی سب کچھ ادھار لینے میں کیا حرج ہے
ہماری عمر کے تمام غالبوں کو ایمان کی حد تک یقین ہوچلا ہے کہ معلومات کی کثرت علمیت کا ثبوت نہیں ہے اور پھر علم محض دریا کو کوزے میں بند کرنے کا بھی نام نہیں علم وہ ہے جو رفاہ عام ہو لمحہ موجود غنیمت ہے کہ اس میں بے جا تصرف و تشہر کی بجائے خدمت جاناں پہ توانائی صرف کی جارہی ہے جاناں ، یہی عوام بقول شیخ رشید ہم جیسے عوامیے جنہیں وطن کی مٹی کی خوشبو کے سواکوئی خوشبو بھاتی ہی نہیں کہ ہم نے وطن کی مٹی کو گواہ بنا رکھا ہے اس وطن کی مٹی ہ میں عزیز ہے اور اس کو عزیز جاں ، عزیز تر رکھیں گے یہ ہماری محبت کا پہلا اور آخری حوالہ ہے .
گردش دوران تیز تر ہوا چاہتی ہے لیکن رب عظیم کی ذات پہ یقیں کی طرح اس کی رحمت پر بھی ایمان ہے کہ وہ ہ میں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی الحمدللہ اس وقت تمام قومی ادارے سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ایک ہیں . ہماری سفارتی معاشی کامیابیوں سے بو کھلا کر ہمارا ازلی دشمن اس گمان کا شکار ہو چلا ہے کہ وہ بائیس کروڑ عوام کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن وہ جان لے کہ جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی. چند ماہ پہلے اس کے ٹوٹنے والے دانتوں کی سرجری بھی نہیں ہوئی دراصل یہ شاخسانہ اس کی انتہائی پے در پے ناکامیوں او ر بد حواسیوں کا ہے کہ اکھنڈ بھارت اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے . اکھنڈ صرف خالق کائنات ہے اور محبوب خالق کائنات باقی تو سب فسانہ ہے اور ایسا افسانہ ہے جس کا مرکزی کردار واصل آتش ہوتاہے اس راکھ و آگ سے ہم ہرگز ڈرنے والے نہیں ہمارے تو انبیاء علیھم السلام کے جد ابراہیم علیہ السلام نے رب کے کرم سے نار کو گلزار کردیا اور اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے لے کر خانوادہ رسول ﷺ کی شہادت تک ہر قدم، ہر گام ہر میدان کربلا ہے;. آئے آزمائے ہوئے تیروں کو پھر سے آزمالے.
کچھ کمی ضرورہے لیکن دیر کا مطلب اندھیر ہرگز نہیں .;نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر, اس مرتبہ کلمہ پڑھنے والوں کے ایسے غول اترنے کو تیار ہے جنہیں دیکھ کر کفر خندہ زن رہ جائے گا ہماری سیاسی عسکری سماجی و سفارتی قوتیں یکجا ہیں آنے والے دن فیصلہ کن ہوں گے جنت نظیر وادی کشمیرناریوں کا آتشکدہ بن جائے گی;. جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی .
اب سرکار کی باگ ڈور جن مضبوط ہاتھوں میں ہے انہیں یہ کنگن آرسی نہیں ہیں. بے شک کچھ آستین کے سانپ اندر ہی اندر کچوکے لگا رہے ہیں مگر اب اس زہر کا تریاق موجود ہے جو بہت سارے چراغوں میں محض ایک قطرہ روغن احتساب ڈال کر ہمیشہ کے لئے گل کر دیا جائے گا
یہ وطن جس کلمہ صدائے حق پر قائم ہوا تھا وہ حق تو تا قیامت رہنا ہے باطل کوتو مٹنا ہے مٹ کے رہے گا.
ریاض بھٹی
bhatticolumnist99@gmail;46;com