بہت سے ایسے معاملات ہیں جن پرہردورحکومت میں حزب اقتداراورحزب اختلاف میں اتفاق رائے پایاجاتاہے جب کہ بہت سے ایسے معاملات بھی ہیں جن پر حکومت اوراپوزیشن میں اختلاف پایاجاتاہے۔ کبھی اختلاف اتفاق میں بدل جاتاہے توکبھی اتفاق اختلاف میں تبدیل ہوجاتاہے۔ ایک دوسرے کاساتھ دینے والے مقابلے پرآجاتے ہیں اورایک دوسرے کامقابلہ کرنے والے ایک ساتھ ہوجاتے ہیں۔ یہ پیارے پاکستان کی سیاست کی دل نشین خوبیاں ہیں۔ ایک معاملہ ایسا بھی ہے جس پرراقم الحروف کی معلومات کے مطابق حکومت اوراپوزیشن میں کسی دورحکومت میں بھی اختلاف نہیں ہوا۔ اس معاملہ میں ہر دورحکومت میں حزب اقتداراورحزب اختلاف میں مکمل اتفاق رائے پایاجاتاہے۔ اس معاملے کی کسی حکومتی یااپوزیشن سے وابستہ رکن اسمبلی نے اختلاف نہیں کیا۔یہ اتفاق موجودہ دورحکومت میں بھی پایاجاتاہے تاہم اب تاریخ میں پہلی باراس معاملے پرحکومت کی دواہم شخصیات میں اختلاف نہیں توکم ازکم دونوں حکومتی شخصیات میں ہم آہنگی بھی دکھائی نہیں دے رہی۔یہ اتنی مشکل بات بھی نہیں ہے کہ یہ سمجھ نہ آسکے کہ کس معاملہ کی بات ہورہی ہے۔ یہ معاملہ ہے وزراء اورارکان اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافے کا ۔ جب کہ اس تحریر میں جس معاملہ پربات کی جارہی ہے وہ ہے معاملہ اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا ۔وزیرخزانہ اسد عمرکہتے ہیں کہ اب ملک میں معیشت مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم مہنگائی مزیدبڑھے گی کیونکہ بجلی اور گیس کی قیمت بڑھ رہی ہے اس پرلوگ چیخیں گے تاہم جب معیشت بحال ہورہی ہوتومہنگائی بڑھتی ہے۔ جس طرح کچھ چیزوں کے سامنے آنے سے پہلے اس کی نشانیاں ظاہرہوتی ہیں ۔ بادل بارش کی آنے کی نشانیاں ہوتے ہیں اورتیزدھوپ اورشدیدحبس سے آندھیوں کے آنے کی خاموش اطلاع مل جاتی ہے۔ اسی طرح اسدعمرنے ملک کی معیشت مستحکم ہونے کی نشانی بھی بتادی ہے کہ مہنگائی بڑھتی ہے۔ اسدعمرکی مستحکم معیشت کی نشانی کوسامنے رکھیں اورسابقہ ادوارحکومت میں ہونے والی مہنگائی اوراس پرسامنے آنے والے ردعمل کویادکریں تواپنی غلط فہمی اورناسمجھی پرافسوس ہوتاہے۔ سابقہ ادوارحکومت میں جب بھی مہنگائی بڑھتی، جب بھی بجلی، گیس اورپٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیاجاتا، جب بھی ریلوے اورٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھادیے جاتے تواس وقت کی حکومت تنقیدکی زدمیں آجاتی ۔ اب وزیرخزانہ نے بتادیاہے کہ مہنگائی ملک کی معیشت مستحکم ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔ اس سے ہمیں اپنی اس غلطی کااحساس بھی ہوتا ہے کہ ہمیں مہنگائی بڑھنے پر کسی بھی حکومت پرتنقیدنہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ جس دورحکومت میں بھی مہنگائی میں اضافہ ہونے پرہمیں اس حکومت کی تعریف کرنی چاہیے تھی اوراس کے لیے دعائیں کرنی چاہییں تھیں۔ یہ بات اپوزیشن سے تعلق رکھنے والاکوئی سیاست دان ، کوئی صحافی یاکوئی اورکہتا تواوربات تھی اب جب خود وزیرخزانہ نے ہی کہہ دیا ہے کہ مہنگائی بڑھے گی اورلوگ چیخیں گے یقین کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔ اسدعمرکی یہ بات سن کرپنجاب اسمبلی کے ممبران پریشان ہوگئے انہیں آنے والے دنوں میں ان کے اپنے بجٹ کاتوازن غیرمتوازن ہوتاہوادکھائی دیاتو انہوں نے حفظ ماتقدم کے تحت اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرلیا۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں کابل پی ٹی آئی کے غضنفرعباس چھینہ، ن لیگ کے آغاعلی حیدر، شعیب عباسی، پیپلزپارٹی کے مخدوم عثمان محمودنے مشترکہ طور پرپیش کیا۔ پنجاب اسمبلی کے تمام ارکان بشمول ۳۵ وزراء، اڑتیس پارلیمانی سیکرٹریوں، پانچ معاونین خصوصی، تین مشیروں ، چالیس مجالس قائمہ کے چیئرمینوں کی تنخواہوں اوردیگرمراعات ہاؤس رینٹ، دفتری کرایہ، ٹیلی فون، مہمانداری، یوٹیلٹی بلوں ودیگرمیں اضافے کی وجہ سے سرکاری خزانے کوماہانہ کروڑوں روپے کابوجھ پڑے گا۔ارکان کی تنخواہوں کابل چندمنٹوں میں منظورکرلیاگیا۔بل کے تحت ارکان اسمبلی کی تنخواہ اورمراعات ۸۳ ہزارماہانہ سے بڑھاکردولاکھ روپے تک کردی گئی ہیں۔ ارکان اسمبلی کی بنیادی تنخواہ اٹھارہ ہزارروپے سے ۸۰ ہزارروپے ہوگئی۔ ڈیلی الاؤنس ایک ہزارسے چارہزار، ہاؤس رینٹ ۲۹ ہزارسے پچاس ہزار، یوٹیلٹی الاؤنس ۶ ہزارسے بیس ہزار اورمہماندارک کاماہانہ الاؤنس دس ہزارسے بڑھاکر بیس ہزارکردیاگیا۔پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب، وزراء، سپیکر، ڈپٹی سپیکرکی تنخواہیں بھی کئی گنابڑھ گئی ہیں وزیراعلیٰ کی تنخواہ اورمراعات، انسٹھ ہزارسے بڑھ کرتین لاکھ پچاس ہزارہوگئیں۔ پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ بل میں سابق ارکان اسمبلی کے لیے علاج تاحیات فری کردیاگیاہے جس کے بعدسابق ارکان کوبھی اب میڈیکل کی سہولتیں مفت میسرہوں گی ۔بل میں سابق ارکان کوبھی اب ان ڈوراورآؤٹ ڈورعلاج کاقانونی استحقاق دیاگیاہے ۔ اس سے قبل ان ڈورعلاج کااستحاق موجودہ ارکان اسمبلی کوحاصل تھا۔ جیسا کہ اس تحریرمیں لکھاجاچکاہے کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے میں پہلی بارحکومت کی دواہم شخصیات میں اختلاف نہیں تو ہم آہنگی بھی دکھائی نہیں دے رہی۔یہ دوحکومتی شخصیات وزیراعظم پاکستان اوروزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے تنخواہوں اورمراعات میں اضافے پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی جانب سے اراکین اسمبلی، وزراء، خصوصاً وزیراعلیٰ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کافیصلہ سخت مایوس کن ہے ۔پاکستان خوش حال ہوجائے توشایدیہ قابل فہم ہومگرایسے میں جب عوام کوبنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی وسائل دستیاب نہیں ،فیصلہ بالکل بلاجوازہے ۔وزیراعظم عمران خان سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارنے ملاقات کی جس میں ارکان اسمبلی وکابینہ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے معاملے پربات چیت کی گئی۔ وزیراعظم نے سخت ناراضگی کااظہارکیااوروزیراعلیٰ اس حوالے سے وضاحتیں دیتے رہے۔ وزیراعظم نے وفاقی حکومت کی کفایت شعاری مہم کومدنظررکھنے، گورننس کوبہتربنانے کی ہدایت کردی۔ ذرائع کے مطابق نہایت سنجیدہ ماحول میں ہونے والی ملاقات میں وزیر اعظم نے وزیراعلیٰ سے پنجاب اسمبلی کی جانب سے ارکان کی تنخواہوں اورمراعات کے حوالے سے منظورکیے جانے والے سے منظورکیے جانے والے بل پرحیرت کااظہارکرتے ہوئے ان سے وضاحت لی۔وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کواس بارے میں بریفنگ دی اوراس قانون سازی کی وجوہات سے آگاہ کیا۔وزیراعظم کا کہناتھا کہ پنجاب حکومت کوایسے کسی بھی اقدام سے قبل وفاقی حکومت کی کفایت شعاری کومدنظررکھناچاہیے تھا جب کہ یہ قانون سازی کفایت شعاری مہم کے سراسرمنافی ہے۔ عمران خان کاکہناتھا کہ ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت ملک کودرپیش بدترین معاشی بحران سے نکلنے کی جدوجہدمیں مصروف ہے ، پنجاب حکومت کایہ اقدام غیردانش مندانہ اورعوام کوحکومت پرتنقیدکاموقع دیے جانے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ موجودہ حالات میں کفایت شعاری اپنانے اورگورننس بہتربنانے کی ضرورت ہے وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب کو مزیدکہا کہ صوبے میں گورننس بہتربنانے سے متعلق پارٹی منشور پر عملدرآمدکریں اوربطوروزیراعلیٰ انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں رکھیں ، ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ حکومت کی کفایت شعاری مہم کومدنظررکھ کرکیاجائے ۔تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات عمرسرفرازچیمہ نے کہا کہ وزیراعظم نے خودکوکفایت شعاری کی مثال بناکرقوم کے سامنے پیش کیا۔اراکین پارلیمان بھی وزیراعظم کے نقش قدم پرچلیں امیدہے پنجاب اسمبلی تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ فوری واپس لے گی جاری بیان کے مطابق انہوں نے پنجاب اسمبلی کی جانب سے اراکین صوبائی اسمبلی ،وزراء اوروزیراعلیٰ کی تنخواہوں میں اضافے پرکہا کہ عوامی نمائندے آگے بڑھیں اورمشکل حالات میں قوم کے لیے قربانی دیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے گورنرپنجاب کواراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافے کے بل پردستخط کرنے سے روک دیا۔پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ سمیت ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ ایسے وقت میں کیاگیاہے جب وفاقی حکومت ملک کومعاشی بحران سے نکالنے کے لیے سردھڑکی بازی لگائے ہوئے ہے۔دوست ممالک سے قرضہ لیاجارہاہے۔ آئی ایم ایف سے معاملات طے کیے جارہے ہیں۔ اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں او ر مراعات میں اضافے کابل تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی نے مشترکہ طورپرپیش کیا۔ سیاست میں تینوں جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اس وقت ان تینوں پارٹیوں میں سے کوئی سی دوپارٹیوں کے تعلقات دوستانہ نہیں ہیں۔لیکن تنخواہوں اورمراعات میں اضافے کابل تینوں پارٹیوں کے ممبران پنجاب اسمبلی نے مشترکہ طورپرپیش کرکے اورپنجاب اسمبلی نے اس بل کی چندمنٹوں میں منظوری دے کریہ واضح کردیا ہے کہ مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے ہم سب ایک ہیں۔ اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافے کابل پیش کرتے اوراس بل کی منظوری دیتے ہوئے کسی کی توجہ ملک میں جاری معاشی بحران اوروفاقی حکومت کی کفایت شعاری مہم کی طرف نہیں گئی۔ وزیراعلیٰ سمیت ممبران پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ سے عوام اس شش وپنج میں پڑگئے کہ ملک میں معاشی بحران ہے بھی یانہیں۔ عوام میں یہ سوال بھی گردش کرنے لگا کہ ملک میں معاشی بحران ہے توممبران پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ سے کاکیاجوازہے ؟ اورممبران پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ ضروری تھا تومعاشی بحران کی حقیقت کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب سے تنخواہوں اورمراعات میں اضافے پروضاحت طلب کرکے عوام کواس الجھن سے نکال دیا اورواضح کردیا کہ ملک میں واقعی معاشی بحران ہے ۔ عمران خان نے تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ کواس وقت مناسب قراردیا جب ملک میں خوش حالی ہو۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب سے تنخواہوں اورمراعات میں اضافے پروضاحت طلب کرکے اوراس اقدام کوغیردانش مندانہ قراردے کریہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں اورانہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرسکتے جس سے ملک میں جاری معاشی بحران میں اضافہ ہواوروفاقی حکومت کی کفایت شعاری مہم پرمنفی اثرپڑے۔ وزیراعظم عمران خان اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کاجواب بطوروزیراعظم اپنی، وفاقی وزراء، سیکرٹریوں اورممبران قومی اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں کمی کرکے دیں ۔ وزیراعظم کے اس اقدام سے صوبائی اسمبلیاں تنخواہوں اورمراعات میں کمی نہ بھی کریں اضافہ نہیں کرسکیں گی۔ وفاقی کابینہ نے گیس صارفین کواڑھائی ارب واپس کرنے، تفریح اورگفٹ بجٹ ختم کرنے کااچھافیصلہ کیاہے۔ اس سے گیس صارفین کوریلیف مل سکے گا ۔ تفریح اورگفٹ بجٹ ختم کرنے سے وفاقی کابینہ نے واضح کردیا ہے کہ وہ ملک میں معاشی بحران کے خاتمے کے لیے عملی اقدام پریقین رکھتی ہے ۔ وزیراعظم اس تحریر میں لکھی گئی تجویزپرعمل کرادیں تووفاقی حکومت کی کفایت شعاری مہم کومزیدمستحکم اورموثربنانے میں نمایاں مددملے گی۔
siddiqueprihar@gmail.com