بھوک میرا ہمیشہ سے ہاٹ ٹاپک رہا ہے جب غالب جوان تھا وطن عزیز کے کروڑوں بے روزگاروں کی طرح ظاہری بھوک مٹانے کے لئے بر سر پیکار رہا اور اب جب چراغ سحری ہے تب انسانی جسم میں چھپی بھوک سے ہو نے والی ٹوٹ پھوٹ سے بچنے کے لئے صف آ رائی کئے ہوئے ہے ۔ یہ شا ئد 70 کی دہائی کا ذکر ہے جب ہم لیہ کے چند دوستوں نے ظاہری بھوک کے بنیادی سبب بے روزگاری کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہو ئے انجمن بے روز گاران قائم کی ۔ بے روزگاری بارے جناح ہال میں منعقد ہو نے والے سیمینار کے مہمان خصو صی اس وقت کے لیہ میں اسسٹنٹ کمشنر چو ہدری نذیر نے اپنے مختصر خطاب میں یہ کہتے ہو ئے کہ تمہیں روزگار کی پڑی ہے میں نے آٹا تقسیم کر نا ہے، ہم بے روز گاروں کی محبت کا اڑایا تھا مذاق ۔استاد محترم عبد الحکیم شوق اور دوست عزیز عبد الرزاق راہی ایڈووکیٹ پون صدی قبل کی ہمای اس جدو جہد کے چشم دید گواہ ہیں ۔۔خیر بات ہو رہی تھی چھپی بھوک اور فو لادی آٹے کی ۔۔
صاحبو ۔ یقیناًمیری طرح آپ کو بھی چھپی بھوک کی اصطلاح آپ سے بھی ہضم نہیں ہو رہی ہو گی یہ تو بھلا ہو ملک اورنگ زیب کا جن کی قربت کے سبب ہمیں فورٹیفا ئیڈ آ ٹے ، آئل او گھی بارے آ گہی سیمینار میں شر کت کا مو قع ملا اور یوں ہم بھی چھپی بھوک آ شنا ہو ئے ۔ فوڈ فورٹیفکیشن پروگرا م (FFP)کے زیر اہتمام ہو نے والے سیمینار میں دکھائی جانے والی ڈاکو منٹری سے پتہ چلا کہ یو کے ایڈ کی مدد سے حکو مت نے عوام کی چھپی بھوک کا حل تلاش کر لیا ہے ہمیں بتا یا گیا کہ سال 2011 میں کئے گئے ایک سر وے کے مطا بق پا کستان ایک زر عی ملک ہو نے کے با وجود وطن عزیز کی 37.5 ملین آ بادی غذائی قلت کا شکار ہے ،صحت مند اور متوازن خواراک نہ ہو نے کے سبب انسانی بدن میں چھپی بھوک میں کمی ہ ہو نے کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے ہے اور آٹے گھی اور آئل میں مناسب مقدار میں وٹامنز اے اور ڈی سمیت آئرن اور زنک ،ایسڈ نہ ہو نے کے سبب ہماری خواتین ، بچے بوڑھے سبھی مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔
ہمیں یاد ہے کہ جب ہم بہت چھوٹے تھے دیسی گھی کے چر چے تھے پھر ایک زمانہ آیا جب بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پہ چلنے والی تلو گھی کے اشتہار میں اماں تلو میں پکاؤ کے بعد وٹامن اے اور ڈی سے بھر پور کا تڑکہ بھی لگا یا جانے لگا اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ چھپی بھوک سے نا آ شنا ہو نے کے با وجود وٹامنز اے اور ڈی سے آ شنائی کی تاریخ نصف صدی پرانی ہے۔ اللہ بخشے اماں کے ہا تھوں تلو ڈالڈا گھی سے بنے تہہ دار پرا ٹھوں کی مہک اور لذت کے چٹخارے آج بھی کتاب زند گی کا نہ بھو لنے والا باب ہیں ۔ اس زمانے میں ڈالڈا ہمارا قو می برانڈ بن گیا تھا پھر ایک وقت آیا جب ہمیں بتا یا گیا کہ ڈالڈا انسانی جسم میں بیڈ کسٹرول پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور بیماری دل میں عشق وشق کے علاوہ اس موئے کسٹرول کا بڑا بھی بھر پور کردار ہے سو اگر دل کی بیماری سے بچنا ہے تو کسٹرول سے بچو ، دیسی اورڈالڈا گھی کی بجائے آٗئل استعمال کرو ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹ میں طرح طرح کے آ ئل چھا گئے ۔ ابھی ہم آئل آ شنا ہو ئے تھے بھلا ہو ایوان عدل کا کہ جس نے خبر دی کہ بہت سی برانڈد کمپنیاں غیر معیاری کیمیکل کی مصنو عات کو گھی اور آ ئل کے نام سے فروخت کر رہی ہیں ہا ئیکورٹ کے نوٹس لینے کے بعد بہت سی ایسی برانڈڈ کمپنیوں کے خلاف حکو مت نے کا روائی بھی کی ہے اور یوں اب معالج اور لوگ ایک بار پھر دیسی گھی کی طرف واپس آ رہے ہیں لیکن برا ہو مہنگائی کا کہ اب آئل سے ڈالڈا گھی تک کا یہ سفر اتنا آسان بھی نہیں ۔
گذشتہ دنوں ایک وزیر موصوف نے بیان دیا کہ تھر میں 75 فیصد لوگ خطہ غربت سے نیچے زند گی گذار رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ آئے روز غذائی قلت کے سبب مر نے والے بچوں کی بڑی تعداد کا تعلق تھر سے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی پارلیمنٹ میں کئے گئے اپنی ایک تقریر میں ایکسرے لہراتے ہو ئے غذائی قلت کے سبب موت اور بیماریوں کا شکار ہو نے والے کم عمر بچوں کا تذ کرہ بھی کیا تھا شا ید اسی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے بر طا نیہ بہادر نے اپنی سا بقہ کا لو نی کے با شندوں کو غذائی قلت کے عذاب سے بچا نے اور ان کی چھپی بھوک مٹانے کے لئے 48 ملین پونڈ سے فوڈ فورٹیفکیشن پروگرام کا آغاز کیا ہے جاس پرو گرام کے ذریعے وٹامنز اور آئرن ملا فورٹیفائیڈ آٹے گھی اور آئل کی فرا ہمی یقینی بنائی جا نے کے لئے اقدا مات کئے جا ئیں گے
سیمینار میں ایک مقرر بتا رہے تھے کہ ہم نے فورٹیفائیڈ آٹے کو فو لادی آ ٹے کا نام دیا ہے حکومت اس آٹے کی فراہمی کے لئے فلور ملوں کو سبسڈی دے گی مجھے تو کو ئی شک نہیں کہ یقیناًفورٹیفائیڈ یہ برانڈڈ گھی آئل اور آ ٹا غذا ئی قلت کے شکار خواتین ، بچوں اور مردوں کے لئے فولاد کا کام دے گی لیکن ہمیں سبسڈی کے اس خواب سے نکل کر بھی کچھ سو چنا ہو گا ۔۔ ہمیں سو چنا ہو گا کہ غذائی قلت کی شکار اس قوم کی تباہ حال معاشی حالت میں بہتری لا نے کا سفر کیسے شروع کیا جا سکتا ہے ایک روز پہلے وزیر خزانی نے بڑی سچی بات کی کہ معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے عوام کو بڑھتی ہو ئی مہنگائی کو برداشت کر نا ہو گا حکو مت کو گیس ، بجلی اور پٹرول کی قیمیتوں میں اٖا ضا فہ کر نا پڑے گا پتہ ہے کہ عوام چیخیں ماریں گے مگر عوام کو یہ مہنگائی برداشت کرنا پڑے گی کہ ہم گرتی ہو ئی معیشت کو سنبھالا دے رہے ہیں ۔یہ بڑی حقیقت کہ پا کستانی قوم وطن عزیز سے بہت پیار کرتی ہے جب بھی وطن پر کڑا وقت آیا قوم نے ما یوس نے کیا ، قرض اتارو سے لے کر ڈیم بناؤ تحریک تک قوم کی قر با نیاں عظیم تر ہے حالیہ ڈیم بناؤ فنڈ میں چند ماہ میں اس قوم نے دس ارب روپے اکٹھے کر کے اپنی وطن دوستی کا بڑا پیغام دیا ہے ۔ قوم وزیر خزانہ کو بھی ما یوس نہیں کرے گی گرتی ہو ئی معیشت کو سنبھالا دینے کی حکو متی کا وشوں میں ساتھ دے گی لیکن دکھ یہ ہے کہ ہماری پارلیمانی کلاس ہمیں ما یوس کرتی ہے اسمبلیوں میں بیٹھے ہو ئے عوامی منتخب نما ئندے عوامی توقعات کو پش پشت ڈال کر عوام کو نا امید کرتے ہیں ۔کیا یہ افسوس دکھ اورظلم و نا انصافی کی بات نہیں کہ ججب ایک طرف وزیر خزانہ یہ سچی بات عوام کو قر با نی کے لئے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے تبھی دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے معزز ارا کین نے اپنے اندر کی چھپی بھوک کا اظہار کرتے ہو ئے وزیر اعلی سمیت اپنی تنخواہوں اور مراعات میں ریکارڈ اضا فے کا بل پاس کیا ۔.. وہ تو بھلا ہو غذائی قلت کی شکار قوم کے وزیر اعظم عمران خان کا جنہوں نے بر وقت نوٹس لیتے ہو ئے پنجاب اسمبلی کے اس بل کوبے رحمانہ اور ظالما نہ قرار دیتے ہو ئے وزیر اعلی پنجاب کو واپس لینے اور گورنر پنجاب کو اس بل کی سمری پر دستخط نہ کر نے کی ہدایا ت جا ری کی ہیں ۔ امید ہے کہ اب یہ بل منظور نہیں ہو گا لیکن سو چنے کی بات یہ ہے غذائی قلت سے دم توڑتے بچوں کا زیادہ استحقاق زند گی یو کے ایڈ پر ہے یا اپنے منتخب اراکین اسمبلی پر ۔۔ کیا کبھی حرص و ہوس کی چھپی بھوک میں مبتلا اس بے حس پا رلیمانی کلاس کا بھی کو ئی مستقل علاج ہو گا ؟
انجم صحرائی