اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سانحہ ساہیوال پر دھرنا نہیں دیں گے لیکن حقائق بتائے جانے تک حکومت کو بیٹھنے بھی نہیں دیں گے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ساہیوال میں جس طریقے سے ظلم کیا گیا اس کی شاید ہی کوئی مثال ہو، یہ بہت سنگین واقعہ ہوا ہے، بدترین سفاکی ہوئی ہے، ساہیوال کے قریب گاڑی روک کر اندھا دھند فائرنگ کی گئی، دنیا نے دیکھا کہ گاڑی کو ٹکر مار کرایک طرف کیا گیا۔ کار میں بیٹھے ماں باپ کو مار دیاگیا پھر 5 اور 7 سالہ بچیاں اور بھائی، تینوں کو گاڑی سے نکالا گیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ معصوم بچوں نے واقعے کا پول کھول دیا اور بتایا کہ والد نے ہاتھ جوڑ کر کہا نہ مارو پیسے لے لو، عوام جاننا چاہتے ہیں ایسی سفاکی کیوں کی گئی، جھوٹ کیوں بولا گیا، اگر کار میں دہشت گردوں کی موجودگی یااسلحے کا شبہ تھا تو تلاشی کیوں نہیں لی گئی، پنجاب حکومت نے پچھلے 24 گھنٹوں میں واقعے پر اتنی قلابازیاں کیوں کھائیں، پنجاب حکومت نے ہر بار واقعے کو نیا رنگ دینے کی کوشش کی، پہلے کہا دہشت گرد تھے، پھر کہا نہیں وہ ڈرائیور دہشت گرد تھا۔ پھر کہا شیشوں پر سیاہ کاغذ تھے۔ اگر کار میں دہشت گردوں کی موجودگی یااسلحے کا شبہ تھا تو چیک کیوں نہیں کیا۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ حکومت کی لواحقین کو2 کروڑ روپے دینے کی بات افسوس ناک ہے، ایک طرف قوم سوگوار ہے اور وزیر اعظم 24 گھنٹے بعد ٹویٹ کرتے ہیں، کوئی سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتا صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایسے واقعات پر عمران خان کس طریقے سے سیاست کرتے تھے، ماڈل ٹاؤن واقعہ ہو یا قصور کی زینب کا واقعہ، کس طرح سیاست کی گئی، ہم دھرنا نہیں دیں گے لیکن حقائق بتائے جانے تک حکومت کو بیٹھنے بھی نہیں دیں گے، ہم نے تحریک التوا جمع کرائی ہے، کارروائی ملتوی کرکے تحریک منظور کریں۔ ایوان کی کمیٹی جے آئی ٹی کو مانیٹر کرے اور اس کی رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔
تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے تحریک التوا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت تحریک التوا ابھی نہیں لائی جا سکتی۔ تحریک انصاف ہی کے علی محمد خان نے کہا کہ ساہیوال واقعہ بہت سنجیدہ ہے۔ اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کا موقف یکساں ہے۔ اپوزیشن لیڈر سے اتفاق کرتاہوں کہ اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے۔ بعد ازاں پینل آف چیئر منزہ حسن نے تحریک التوا منظور کرتے ہوئے ایوان میں معمول کی کارروائی کو معطل کرتے ہوئے سانحہ ساہیوال پر بحث شروع کردی۔
’حکومت ریاست مدینہ کے الفاظ استعمال نہ کرے‘
پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف نے بحث کے دوران کہا کہ سانحہ ساہیوال موجودہ حکومت کی بڑی نااہلی ہے، جس ادارے کو دہشت گردی سے بچانا ہے اس ہی نے بےگناہوں کو گولیوں سے بھون ڈالا، یہ معمولی واقعہ نہیں، اس سے ساری دنیا لرز گئی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کا پھول لے کر جانا غلط اقدام ہے، کیا ریاست مدینہ میں ایسا ہوتا ہے؟۔ حکومت کوئی لفظ استعمال کرلے لیکن ریاست مدینہ کے الفاظ استعمال نہ کرے۔
’حکومت کی رٹ ختم ہوگئی‘
مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں عمران خان کہتے تھے کہ ماڈل ٹاؤن میں سیدھی گولیاں ماری گئیں شہبازشریف استعفیٰ دیں، ساہیوال واقعے میں بھی براہ راست گولیاں ماری گئیں، یہاں ایک سانحہ ہوا ہے اور وزیراعظم قطر چلے گئے ہیں، یہ صبح کچھ شام کو کچھ کہتے ہیں، پولیس، سی ٹی ڈی اور صوبائی حکومت کے متنازع بیان آتے رہے، ایک طرف افسردہ ہونے کا بیان دوسری طرف سی ٹی ڈی کی تعریف کی گئی۔ کہا گیا کہ دہشت گردوں نے بچوں کو انسانی ڈھال بنایا، دہشت گردی ختم کرنے والے خود دہشت گرد بن گئے ہیں، اس سے زیادہ گھٹیاپن کیا ہوگا، پنجاب میں حکومت کی رٹ ختم ہوگئی ہے۔ قانون یہاں بڑے بڑے افراد کے خلاف سیاسی مقاصد کے لیے حرکت میں آسکتا ہے لیکن آج بھی راؤ انوار دندناتا پھر رہا ہے اس کا احتساب نہیں ہوا، راؤ انوار کا احتساب ہوتا تو ہوسکتاہے پولیس کو کچھ تو احساس ہوتا، آج موقع ہے کہ عمران خان جس انصاف کا دعویٰ کرتے تھے وہ کرکے دکھائیں۔
’جے آئی ٹی کو 3دن کی مہلت دی ہے‘
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ساہیوال واقعہ قابل مذمت ہے، یہ جس نے کیا اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے، اس قسم کے مقابلے کئی دہائیوں سے چلے آرہے ہیں، یہ روایت پچھلی حکومتوں نےڈالی، جے آئی ٹی کو ساہیوال واقعے پر 3دن کی مہلت دی گئی ہے، خواجہ آصف کو راؤ انوار کی دہشت گردی کا غم تھا تو آپ نے ایکشن کیوں نہیں لیا، راؤ انوار کا معاملہ اسمبلی میں لاتے سزا کیوں نہیں دی، ماڈل ٹاؤن واقعے پر کسی کو سزا ملی ؟ آپ تو اس وقت وزیر تھے اس وقت کیوں کارروائی نہیں کی گئی، سی ٹی ڈی کو مقابلے کی جرات ہوئی کیونکہ آپ نے پنجاب میں ان مقابلوں کی اجازت دی، ماڈل ٹاؤن واقعہ بھول گئے ؟دو بچوں کا سر عام قتل بھول گئے ؟ اس وقت آپ نے کیوں کچھ نہیں کیا اب ایسے الفاظ بول رہے ہیں ،ہم وہی بھگت رہےہیں جو آپ نے پنجاب پولیس کے ساتھ تباہی مچائی۔