مظفر گڑھ . ملتان میں بلوچستان سمگلر نبی بخش پر کانی اور حاجی صادق پٹھان کا کارندہ ملک عباس ارائیں کے علاوہ غلام شبیر ہمڑ کے غیر قانونی سمگل شدہ ایرانی تیل ڈبو کا بھی انکشاف۔ ملتان میں انڈسٹریل سٹیٹ ایریا میں سمگلر نبی بخش پرکانی اور حاجی صادق پٹھان نے مبینہ کارندے ملک عباس ارائیں کے گودام کے بعد غلام شبیر ہمڑ کے سمگل شدہ ایرانی تیل کے ڈپو کا پتہ لگالیا ہے جو ملتان میں دنیا پور روڈ سے 4 کلومیٹر پر 18 کسی کے قریب واقع ہے جہاں سپال لبریکینٹس فیکٹری سے روزانہ لاکھوں لٹر سمگل شدہ ایرانی تیل کی سپلائی پورے ملک کو جاتی ہے۔ اس طرح لاکھوں لٹر سمگل شدہ ایرانی تیل کو پاکستانی تیل سے مکسنگ کی جاتی ہے۔
ملتان سمگل شدہ ایرانی تیل کی خرید و فروخت کی غیر قانونی منڈی بن چکا ہے۔ ایرانی تیل کے بیوپاری سمگل شدہ ایرانی تیل کو بلیک گولڈ کا کاروبار کہتے ہیں۔ غلام شبیر ہمڑ جو اَن پڑھ ہے اور نواب ہوٹل پر ویٹری کا کام کرتا تھا جہاں سے ان کا رابطہ ایرانی تیل کے سمگلروں سے ہوگیا۔ آج مختصر وقت میں حاجی غلام شبیر ہمڑ کا شمار ارب پتی لوگوں میں ہوتاہے۔ غلام شبیر ہمڑ نے شیر شاہ میں ایک بڑی کوٹھی میں کیرج کمپنی کا دفتر بنارکھا ہے جہاں پر پاکستان کے مختلف علاقوں میں ایرانی تیل، گاڑیوں کی خرید و فروخت کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے۔ اس کوٹھی سے فون پر آرڈر دیا جاتا ہے۔ یہاں سے گاڑی کے ذریعے غیر قانونی سمگل شدہ ایرانی تیل کی ترسیل ممکن بنائی جاتی ہے۔ یہ تیل منی پٹرول پمپوں، ایجنسیوں اور بغیر این او سی پٹرول پمپوعں اور ان پٹرول پمپ کے مالکان کو جو لالچ میں دگنا منافع کمانا چاہتے ہیں ، انہی کو فروخت کیا جارہا ہے۔ پولیس کی چیک پوسٹیں صرف دکھاوے کی ہوگئی ہیں۔ کروڑوں روپے کی ہونے والی سمگلنگ، ایرانی تیل کسٹم حکام اور پولیس کی مبینہ ملی بھگت سے زور شور سے جاری ہے جس سے ملکی معیشت کو ہر ماہ اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑر ہا ہے۔
روزنامہ خبریں کے مطابق ایک جانب پاکستان میں ایرانی تیل سمگل کرکے پاکستان کو ٹیکس کی ادائیگی ممکن نہیں ہوتی دوسری جانب پاکستان سے ادائیگی کے بغیر سامان چاول، چینی ، آٹا، کپاس و دگیر اشیاءغیر قانونی طورپر ایران سپلائی کی اجارہ اہے۔ اس طرح پاکستانی معیشت کو دگنا نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ اخباری ذرائع کے مطابق پاکستانی اداروں نے جس بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا، ایسے ہی نیٹ ورک کی مدد سے اس کا پاکستان میں آ نا جانا رہتا تھا۔ اخباری ذرائع نے بتایا کہ یہ انتہائی بااثر مافیا ہے جسے کئی تحقیقاتی اداروں میں موجود کرپٹ افسران کی سرپرستی کے ساتھ اہم سیاسی کاروباری شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مظفر گڑھ کے عوامی و سما جی حلقوں نے حکومت پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے اپیل کی ہے کہ سمگلنگ میں ملوث افراد اور وہ نیٹ ورک جن کی بدولت یہ لوگ سمگل شدہ ایرانی تیل کے علاوہ بھی جو مکروہ دھندہ کرتے ہیں، کے خلاف عملی طور پر ٹھوس اور قانونی اقدامات کریں۔