عفت کی کچھ الجھی سلجھی باتیں ۔۔
عفت
چاچا دینو ہمارا پڑوسی ہوا کرتا تھا ،ہماری بلڈنگ کے سامنے لبِ سڑک پہ اس کی جھگی نما دکان تھی ۔وہ ہر وقت سر نیہوڑے ہتھوڑے سے لوہا کوٹتے دکھائی دیتا اس کی مرنجاں سی بیوی گھر داری میں ہی مشغول رہتی نو بچے اس کی مت مارے رہتے کبھی وہ دکان پہ آتے اور پیسوں کا مطالبہ کرتے تو وہ اپنی میلی سی دھوتی کی انٹی سے مڑے تڑا ایک روپیہ نکالتا اور ان سب کو کہتا جاؤ مل کے چیز کھا لو۔سڑک کے دوسری طرف حاجی صدیق کا تین منزلہ مکان تھا ۔صبح صبح ان کی سوزوکی کھڑی ہوتی اور ان
چاچا دینو ہمارا پڑوسی ہوا کرتا تھا ،ہماری بلڈنگ کے سامنے لبِ سڑک پہ اس کی جھگی نما دکان تھی ۔وہ ہر وقت سر نیہوڑے ہتھوڑے سے لوہا کوٹتے دکھائی دیتا اس کی مرنجاں سی بیوی گھر داری میں ہی مشغول رہتی نو بچے اس کی مت مارے رہتے کبھی وہ دکان پہ آتے اور پیسوں کا مطالبہ کرتے تو وہ اپنی میلی سی دھوتی کی انٹی سے مڑے تڑا ایک روپیہ نکالتا اور ان سب کو کہتا جاؤ مل کے چیز کھا لو۔سڑک کے دوسری طرف حاجی صدیق کا تین منزلہ مکان تھا ۔صبح صبح ان کی سوزوکی کھڑی ہوتی اور ان
کے بچے اس میں لد کے انگلش میڈیم سکول جا رہے ہوتے جب کہ میں اپنے ابو کے ساتھ سائیکل پہ سکول جا رہی ہوتی ،ہم باپ بیٹی اسٹا پ تک سائیکل پہ جاتے وہاں ایک جاننے والے کی دکان پہ ابو سائیکل کھڑی کرتے اور ہم گورنمنٹ کی لال بس میں بیٹھ جاتے جو مقررہ وقت پہ کھڑی ہوتی میں ملیر اسٹاپ پہ اترتی اور ابو صدر اپنے آفس ۔ہمارے اردگرد مختلف طبقے کے افراد تھے ۔حاجی صاحب مالدار تھے ہم متوسط اور چاچا دینو غربت اور بچوں میں الجھا ،سر ڈھانپو تو پاؤں ننگے ،پاؤں ڈھانپو تو سر ننگا ۔اگرچہ قدرت کی تقسیم زر نے طبقاتی فرق پیدا کیا تھا مگر شایددلوں میں گنجائش تھی احترام تھا جس نے اس فرق کو فرق نہیں رکھا ۔میرے ذہن میں بگولوں کی مانند سوال اٹھتے رہتے سو میں اس کے جواب مرشد سے لینے کی تگ ودو کرتی ہوں کبھی موڈ ہو تو جواب مل جاتا نہ ہو تو میرا سوال میرا منہ تکتا اور الجھ جاتا ۔
چند دن پہلے سلام دعا کے بعد بات سے بات نکلی تو زر پہ آکر رک گئی میری شامتِ اعمال آئی کہ پوچھ بیٹھی کہ لوگ بہت آگے نکل گئے ہیں ہم وہیں کے وہیں ہیں اگر چہ ہم باصلاحیت بھی ہیں ، اگر ہمارے پاس زر کار گر ہوتی تو ہم بھی ادبی دنیا میں کوئی چن چاڑھ لیتے۔یوں گمنام نہ ہوتے ۔اتنا کہنا تھا کہ الاامان الحفیظ۔مرشد فرمانے لگے لوگ کہیں نہیں گئے وہیں ہیں اور ہم جتنا آگے جانے کے حقدار تھے اتنے گئے ہیں بلکہ اللہ نے اس سے بڑھ کر نوازا ہے یہ ناشکرا پن ہے ۔میں دولت کی اہمیت سے انکاری نہیں مگر جو ملا وہ اوقا ت سے بڑھ کے ہے ۔آئی سمجھ ۔۔۔۔۔۔اب میری بولتی بند ہوگئی۔جی آگئی سمجھ کہہ کے چپ سادھ لی ۔مگر موسی کی طرح دل ضد پہ اڑا تھا کہ آخر ہم بھی محنت کرتے ہیں پھر تقسیمِ زر برابر کیوں نہیں ؟سچائی پردہ پوش کیوں ہے اور جھوٹ کو دوام کیوں ہے ۔آخر یہ منصبی کیا ہے ؟غریب ہمیشہ غریب ہی کیوں رہتا اورامیر، امیر سے امیر تر کیوں ہوتا جا رہا ؟ایسے سوال جہاں دل کو بوجھل کر دیتے ہیں وہاں ہمت بھی بڑھاتے ہیں کہ اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔سب کو وہی ملتا ہے جتنی وہ محنت کرتا ہے ۔اب مالک کا انصاف دیکھیں جو آسمان پہ بیٹھا ڈوریاں ہلا رہا ہے اور اپنی مخلوق پہ ہولے ہولے مسکراتا ہے جس طرح ماں اپنے بچے کی نادانیوں پہ۔سو جو جس طرح کی بھی محنت کرتا مالک اس کو اس کا پھل دیتا ہے۔رزق کی تقسیم،اس نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے جو اس پہ توکل کرتا ہے اور ساتھ اپنی محنت بھی جاری رکھتا وہ پاتا ہے ،یہ بھی عجب فلسفہ ہے کہ کسی کے لیے دنیا عیاش گاہ بنائی اور کسی کے لیے امتحان گاہ۔اس کی حکمتیں وہی جانے اس میں کیا رموز پوشیدہ ہیں انسان کی محدود عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی ۔مجھے تو بس یہ سمجھ آتی جو مقدر میں لکھا ہے وہ مل کر رہتا ہے ۔ہم ناقص العقل ہیں دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں اس سے بے خبر کہ وہ دعا ہمارے حق میں فائدہ مند ہے یا نہیں کیونکہ اکثر ہماری دعائیں ہماری خواہشات کا ہی احاطہ کیے ہوتی ہیں ۔اب ہوتا وہی ہے جو ہمارا رب ہمارے لیے بہتر سمجھتا ہم چوں کہ اپنے فائدے سے بے خبر ہوتے اس لیے اپنی دعا کی قبولیت نہ ہونے پہ ناشکرے پن پہ اتر آتے جب کہ جو ہمارا رب ہمیں عطا کرتا وہ ہماری مطلوبہ دعا سے بہتر ہوتا ۔
آجکل ہم جتنے مسائل کا شکار ہیں ان میں سے بیشتر خود ساختہ ہیں ۔اگر لوگ بھوکوں مر رہے ہیں تو قصور کس کا ؟صرف اور صرف ہمارا کیونکہ ہماری تقسیمِ رزق میں بے ایمانی ہے ہمارے حکمرانوں کی نیت میں کھوٹ ہے ہم اس حساب کتاب میں اقربا پروری دکھاتے بھرے گوداموں اور بھرے پیٹ کو اور منہ تک بھرتے ہیں اگر حکمران اپنے قبلے و کعبے سیدھے کر لیں تو کوئی بھوکا نہ مرے ،اسلام میں زکوۃ اور فطرانے کا بلا وجہ حکم نہیں اس کا اصل اصیل یہی تھا کہ مساوات ،جذبہ ایثار کو فروغ ملے اور بھائی چارہ قائم ہو ،لیکن واہ ری ہماری دلی ایمان داری کہ ہم نے مذہب کو بھی مرضی کے رنگ میں رنگ لیا ۔عیدِ قربان کو ہی دیکھیے ۔قربانی کا بکرا بھی خدا کی خوشنودی سے ذیادہ لذت و کام دہن اور اقربا پروری کی خوشنودی کے لیے خریدا جاتا ۔ارے بھیا ایک ران تو سسرال جائے گی ۔اے لو بڑی آپا کب سے پائے کھانے کو ترس رہی ہیں پائے ان کے ہوئے چانپیں اور دستی بڑے چچا کو بھجوانا کئی رکے کام کروا دیتے آخر گورنمنٹ کے آفیسر ہیں ۔اوہو بیگم غریبوں کا بھی حق بنتا ہے نا ۔میاں صاحب نے دانت نکوستے پوچھا ۔ہاں ہاں کیوں نہیں اب اللہ کے لیے قربانی کی ہے ان کو بھی دیں گئے جی ۔پھیپھڑے،گردے،اوجھڑی ،اور گوشت ملا جلا کے ۔بیوی نے پپو کا پیمپر بدلتے ہوئے کہا ۔واہ مسجودِ ملائک تری اوقات ،ابھی بھی تجھ میں ہابیل و قابیل موجود ہیں وہ کیا ہے نا؛
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
چند دن پہلے سلام دعا کے بعد بات سے بات نکلی تو زر پہ آکر رک گئی میری شامتِ اعمال آئی کہ پوچھ بیٹھی کہ لوگ بہت آگے نکل گئے ہیں ہم وہیں کے وہیں ہیں اگر چہ ہم باصلاحیت بھی ہیں ، اگر ہمارے پاس زر کار گر ہوتی تو ہم بھی ادبی دنیا میں کوئی چن چاڑھ لیتے۔یوں گمنام نہ ہوتے ۔اتنا کہنا تھا کہ الاامان الحفیظ۔مرشد فرمانے لگے لوگ کہیں نہیں گئے وہیں ہیں اور ہم جتنا آگے جانے کے حقدار تھے اتنے گئے ہیں بلکہ اللہ نے اس سے بڑھ کر نوازا ہے یہ ناشکرا پن ہے ۔میں دولت کی اہمیت سے انکاری نہیں مگر جو ملا وہ اوقا ت سے بڑھ کے ہے ۔آئی سمجھ ۔۔۔۔۔۔اب میری بولتی بند ہوگئی۔جی آگئی سمجھ کہہ کے چپ سادھ لی ۔مگر موسی کی طرح دل ضد پہ اڑا تھا کہ آخر ہم بھی محنت کرتے ہیں پھر تقسیمِ زر برابر کیوں نہیں ؟سچائی پردہ پوش کیوں ہے اور جھوٹ کو دوام کیوں ہے ۔آخر یہ منصبی کیا ہے ؟غریب ہمیشہ غریب ہی کیوں رہتا اورامیر، امیر سے امیر تر کیوں ہوتا جا رہا ؟ایسے سوال جہاں دل کو بوجھل کر دیتے ہیں وہاں ہمت بھی بڑھاتے ہیں کہ اللہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔سب کو وہی ملتا ہے جتنی وہ محنت کرتا ہے ۔اب مالک کا انصاف دیکھیں جو آسمان پہ بیٹھا ڈوریاں ہلا رہا ہے اور اپنی مخلوق پہ ہولے ہولے مسکراتا ہے جس طرح ماں اپنے بچے کی نادانیوں پہ۔سو جو جس طرح کی بھی محنت کرتا مالک اس کو اس کا پھل دیتا ہے۔رزق کی تقسیم،اس نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے جو اس پہ توکل کرتا ہے اور ساتھ اپنی محنت بھی جاری رکھتا وہ پاتا ہے ،یہ بھی عجب فلسفہ ہے کہ کسی کے لیے دنیا عیاش گاہ بنائی اور کسی کے لیے امتحان گاہ۔اس کی حکمتیں وہی جانے اس میں کیا رموز پوشیدہ ہیں انسان کی محدود عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی ۔مجھے تو بس یہ سمجھ آتی جو مقدر میں لکھا ہے وہ مل کر رہتا ہے ۔ہم ناقص العقل ہیں دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں اس سے بے خبر کہ وہ دعا ہمارے حق میں فائدہ مند ہے یا نہیں کیونکہ اکثر ہماری دعائیں ہماری خواہشات کا ہی احاطہ کیے ہوتی ہیں ۔اب ہوتا وہی ہے جو ہمارا رب ہمارے لیے بہتر سمجھتا ہم چوں کہ اپنے فائدے سے بے خبر ہوتے اس لیے اپنی دعا کی قبولیت نہ ہونے پہ ناشکرے پن پہ اتر آتے جب کہ جو ہمارا رب ہمیں عطا کرتا وہ ہماری مطلوبہ دعا سے بہتر ہوتا ۔
آجکل ہم جتنے مسائل کا شکار ہیں ان میں سے بیشتر خود ساختہ ہیں ۔اگر لوگ بھوکوں مر رہے ہیں تو قصور کس کا ؟صرف اور صرف ہمارا کیونکہ ہماری تقسیمِ رزق میں بے ایمانی ہے ہمارے حکمرانوں کی نیت میں کھوٹ ہے ہم اس حساب کتاب میں اقربا پروری دکھاتے بھرے گوداموں اور بھرے پیٹ کو اور منہ تک بھرتے ہیں اگر حکمران اپنے قبلے و کعبے سیدھے کر لیں تو کوئی بھوکا نہ مرے ،اسلام میں زکوۃ اور فطرانے کا بلا وجہ حکم نہیں اس کا اصل اصیل یہی تھا کہ مساوات ،جذبہ ایثار کو فروغ ملے اور بھائی چارہ قائم ہو ،لیکن واہ ری ہماری دلی ایمان داری کہ ہم نے مذہب کو بھی مرضی کے رنگ میں رنگ لیا ۔عیدِ قربان کو ہی دیکھیے ۔قربانی کا بکرا بھی خدا کی خوشنودی سے ذیادہ لذت و کام دہن اور اقربا پروری کی خوشنودی کے لیے خریدا جاتا ۔ارے بھیا ایک ران تو سسرال جائے گی ۔اے لو بڑی آپا کب سے پائے کھانے کو ترس رہی ہیں پائے ان کے ہوئے چانپیں اور دستی بڑے چچا کو بھجوانا کئی رکے کام کروا دیتے آخر گورنمنٹ کے آفیسر ہیں ۔اوہو بیگم غریبوں کا بھی حق بنتا ہے نا ۔میاں صاحب نے دانت نکوستے پوچھا ۔ہاں ہاں کیوں نہیں اب اللہ کے لیے قربانی کی ہے ان کو بھی دیں گئے جی ۔پھیپھڑے،گردے،اوجھڑی ،اور گوشت ملا جلا کے ۔بیوی نے پپو کا پیمپر بدلتے ہوئے کہا ۔واہ مسجودِ ملائک تری اوقات ،ابھی بھی تجھ میں ہابیل و قابیل موجود ہیں وہ کیا ہے نا؛
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی