عقید ہ ختم نبوت اسلام کے اہم ترین عقائد میں سے ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ رب العزت نے سلسلۂ نبوت کی ابتدا سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمدﷺکی ذاتِ اقدس پر فرمائی محمد رسول اللہ ﷺپر نبوت ختم ہوگئی،آپ ﷺکے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گاالبتہ حضرت عیسٰی علیہ السلام قریبِ قیامت میں ضرور نازل ہوں گے، لیکن رسول اللہ ا کی شریعت پر ہوں گے، اس لیے نزول عیسی ؑ سے رسول اللہ ﷺکے خاتم النبیین ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا،کیوں کہ ایک توحضرت عیسٰی علیہ السلام شریعتِ محمدیہ ﷺپر ہوں گے،دوسرے اس کے علاوہ حضرت عیسٰی کو تو رسول اللہﷺسے پہلے پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپﷺکی ختم نبوت کا اعلان فرمایا۔(سورہ توبہ:33)اسی طرح قرآنِ کریم میں حقِ جل شانہ نے تمام پیغمبروں سے اس بات کا عہد لیا کہ اگر محمدﷺ کا زمانہ پا لو تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت اور پاسداری کرنا۔ (سورہ آلِ عمران:81)یہی وجہ ہے کہ آنحضرتﷺسے پہلے تمام انبیائے سابقین آپﷺ کی آمد کی بشارت دیتے رہے، آپ ﷺکا خاتم الانبیا ہونا تورات او رانجیل اور تمام انبیائے سابقین کے صحیفوں میں مذکور تھا، جو علما اہلِ کتاب دینِ اسلام میں داخل ہوئے، انھوں نے بیک زبان ہوکر اس امر کا اقرار اور اعتراف کیا کہ ہم نے آنحضرتﷺکو اسی صفت پر پایا جیسا کہ ہم نے تورات اور انجیل میں دیکھا او رپڑھا تھا،اس کے علاوہ آپ ﷺ کی مہرنبوت بھی آپ کے خاتم النبیین ہونے کی حسی دلیل تھی، جس کو دیکھ کر علمائے یہود اور نصاری آپﷺکی نبوت اور ختمِ نبوت کی شہادت دیتے تھے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام علیھم السلام کی مجموعی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے،جن میں سے رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے اورآپﷺ خاتم الانبیاء اور آخرالانبیاء ہیں آپ کے بعد کوئی دوسرا نبی نہ ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں ہے:’’نبوت میں سے کچھ باقی نہیں رہا بجز مبشرات(سچے خوابوں )کے ‘‘۔(صحیح بخاری و مسلم )
حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں: میری مثال نبیوں میں ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے ایک بہت اچھا اور پورا مکان بنایا لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،جہاں کچھ نہ رکھا، لوگ اسے چاروں طرف سے دیکھتے بھالتے اور اس کی بناوٹ سے خوش ہوتے ہیں ، لیکن کہتے ہیں : کیاہی اچھا ہوتا کہ اس اینٹ کی جگہ بھی پر کرلی جاتی ،پس میں نبیوں میں اسی اینٹ کی جگہ ہوں۔(مسندِاحمد )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہی ہے او رنہ نبی۔
ختمِ نبوت کا یہ عقیدہ اجماعی عقائد میں سے ہے،عہدِنبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرتﷺ بلاکسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔قرآن مجید کی ایک سو آیاتِ کریمہ رحمتِ عالم ا کی احادیثِ متواترہ بھی اس پر شاہد عدل ہیں
امت کا سب سے پہلا اجماع بھی اسی مسئلہ پر منعقد ہوا۔حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین)سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہو م یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا او رنہ رسول اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر اجماع کا منکر ہوگا۔(الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ123)
امام العصر حضرت مولانا سید محمد انورشاہ کشمیریؒ اپنی آخری کتاب میں تحریر فرماتے ہیں: سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا ،وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا۔جس کا سبب صرف اس کا دعوئ نبوت تھا۔(خاتم النبین ص:76 ترجمہ ص:791)
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ: آنحضرتﷺ کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لیے جتنی جنگیں لڑی گئیں، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کی کل تعداد:295ہے، او رعقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ و دفاع کے لیے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہدِخلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ کرام اور تابعین کی تعداد بارہ سو(1200)ہے، جن میں سے سات سو(700) قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے۔( مسک الختام فی ختم نبوۃ سیدالانامﷺ) اس سے ختمِ نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرام میں سے ایک صحابی حضرت خبیب بن زید انصاری خزرمیؓ بھی تھے،ان کی شہادت کا واقعہ بڑاایمان افروز ہے:
حضرت خبیب بن زید انصاری کو آنحضرتﷺنے یمامہ کے قبیلہ بنوحنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا۔ مسیلمہ کذاب نے حضرت خبیبؓ سے کہا : کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمدا اللہ کے رسول ہیں؟۔حضرت خبیب نے فرمایا :جی ہاں!مسیلمہ کذاب نے کہا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں مسیلمہ بھی اللہ کا رسول ہوں؟اس پرحضرت خبیب نے جواب میں فرمایا : میں بہرا ہوں ،تیری یہ بات نہیں سن سکتا۔ مسیلمہ باربار سوال کرتا رہا وہ یہی جواب دیتے رہے او رمسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا ،حتیٰ کہ خبیب کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔
یہی جذبہ ایمانی ہمیں تابعین میں بھی نظر آتا ہے۔ آنحضرتﷺ کی حیاتِ طیبہ کے آخری وقت میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسودعنسی پیدا ہو،جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لیے مجبور کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابومسلم خولانیؒ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ تابعی حضرت ابومسلم خولانی ؒ نے صاف انکار فرمادیا۔اس پر اسودعنسی نے ایک خوف ناک آگ دہکائی اور حضرت ابومسلمؒ کو اس آگ میں ڈال دیا، لیکن اللہ تعالی نے ان کے لیے آگ کو بے اثر فرمادیا اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسودعنسی او راس کے رفقا پر ہیبت سی طاری ہوگئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ اسے جلاوطن کردو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروکار بھی اسلام قبول نہ کرلیں،چناں چہ انھیں یمن سے جلاوطن کردیا گیا ،یمن سے نکل کر یہ جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آفتابِ رسالتﷺ روپوش ہوچکا ہے، آنحضرت ا وصال فرماچکے او رحضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بن چکے ہیں، انھوں نے اپنی اونٹنی مسجدِنبوی کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کردی۔وہاں پر حضرت عمرؓ موجود تھے، انھوں نے ایک اجنبی مسافر کو دیکھا تو ان کے پاس آئے او رپوچھا : آپ کہاں سے آئے ہیں؟جواب دیا: یمن سے!حضرت عمرؓ نے فوراً پوچھا:اللہ کے دشمن اسودعنسی نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا ،بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسودعنسی نے کیا سلوک کیا؟حضرت ابومسلم ؒ نے فرمایا!ان کا نام عبداللہ بن ثوب ہے۔ اتنی دیر میں حضرت عمرؓ کی فراست کام کرچکی تھی، انھوں نے فوراً فرمایا کہ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ وہی صاحب ہیں۔حضرت ابومسلم نے جواب میں فرمایا! جی ہاں۔حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرط مسرت و محبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ اور انہیں لیے ہوئے خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں پیش ہوئے ،انہیں صدیق اکبرؓ نے اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایا:اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ ا کے اس شخص کی زیارت کرادی، جس کے ساتھ اللہ تعالی نے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیساکہ معاملہ فرمایا۔ (مسک الختام)
یہ تو دور صحابہؓ وتابعین کے دو بزرگوں کے جذبہ ایمانی کی ایک ہلکی سی جھلک تھی،ورنہ تاریخ اٹھاکر دیکھیے تو معلوم ہوگا ،کہ کسی بھی دور میں امت مسلمہ نے اس اہم ترین مسئلے میں کسی قسم کے تساہل وتکاسل اور سستی وغفلت کا مظاہرہ نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دور میں ختم نبوت کے عقیدے سے مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرنے کی کوئی کوشش کام یاب نہ ہوسکی۔ایک طرف تو مسلمانوں کی صفوں میں موجود ناسور اس عقیدے پر نقب لگانے کی کوشش ہر دور میں کرتے رہے،دوسرے عالم کفر نے بھی ایسے عناصر کی ہمیشہ ہی پیٹھ ٹھونگی،حوصلہ افزائی ہی نہیں،پشت پناہی کی،جس کی وجہ سے ان فتنوں کا سلسلہ بھی روز افزوں رہا۔اس پر فتن دور میں بھی اس اہم ترین عقیدے پر ضرب لگانے یا کم ازکم اس عقیدے کو بے اثر کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔مسلمانوں کو یہ بات جان اور سمجھ لینی چاہیے،کہ جو کوئی بھی نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا انکار کرتا ہے،یا اس کی کوئی ایسی تعبیر وتشریح کرتاہے،جو امت مسلمہ کے متفقہ عقیدے سے ٹکراتی ہے،یا کسی بھی ولی،پیر،غوث،قطب ،ابدال کو منصب نبوت پرکلی یاجزوی،ظلی یابروزی غرض کسی بھی انداز میں بٹھانے کی کوشش کرتاہے،تووہ مسلمان نہیں،مرتد وزندیق ہے اور مسلمانوں کے ایمان کا ڈاکوہے۔یہ اس قدر حساس مسئلہ ہے کہ :امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں:اگر کسی نے کسی شخص کے سامنے نبوت کا دعویٰ کیا،اور اس شخص نے اس سے اپنے دعوے پر دلیل طلب کی،تو ایسا شخص بھی دائر ہ اسلام سے خارج ہے۔
یوم دفاع ختم نبوت کا یہ تاریخ دن ایک طرف ختم نبوت کے منکرین کے خلاف کی جانے والی لازوال وبے مثال جدوجہد کی یاد تازہ کرتا ہے سوشل میڈیا کے ذریعہ اسلام مخالف طاقتیں آج نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں وہ فروعی اختلافات کو بنیاد بنا کر نوجوانوں کو گمراہ کر کے عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں دوسری طرف یہ دن اس اہم ترین اجماعی عقیدے کی اہمیت بھی اجاگر کرتا ہے آئیے یہ عہد کریں کہ ہم کسی بھی قیمت پر عقیدہ ختم نبوت کے دفاع وتحفظ اور اس کی ترویج واشاعت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے نسل نو کی تربیت بھی اس انداز سے کریں گے کہ وہ بھی اس عقیدے کے خلاف کی جانے والی بڑی سے بڑی کوشش کو ناکام بنانے میں اپناایمانی کردار ادا کرنا فرض اولین سمجھیں ۔