• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

پاکستان اور نظام سیاست .. تحریر ۔ محمد عمر شاکر

webmaster by webmaster
جولائی 23, 2018
in کالم
0
پاکستان اور نظام سیاست .. تحریر ۔ محمد عمر شاکر

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری نظام حکومت رائج ہے بلا شبہ نظام باقاعدگی سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے اور انحصار کرنے والے عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے کسی بھی ملک کا نظام اپنے مقامی حالات اور محلِ وقوع سے متاثر اور اپنے ماحول اور گرد ونواح سے گھرا ہوتا ہے جسے ہم اس کے مقاصد، بناوٹ اور ترکیب کے مطابق پرکھ سکتے ہیںآئین اور قانون، روایات، طرزعمل، قواعد و ضوابط، طرز حکمرانی، ادارے اور اسی طرح کے دیگر عوامل کسی بھی ملک کے نظام کو واضح کرتے ہیں
روزمرہ کے امور کی انجام دہی کیلیے وضع کیے گئے قواعد ہی دراصل ’’نظام‘‘ کہلاتے ہیں؛ جس کیلیے آئین اور قوانین بنائے جاتے ہیں۔ ہر ملک کا آئین عوام کی اکثریت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور آئین میں ترامیم بھی بظاہر عوام کے مفاد میں کی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود تواتر سے چند افراد کا ٹولہ عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے نظام بنائے تو جاتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس پر عمل کتنا کیا جاتا ہے اس لیے اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ نظام ایک کتابی دستاویز نہیں بلکہ ایک رویہ ہے یہ صرف سربراہ حکومت ہی نہیں بلکہ تمام سرکاری مشینری کے روزمرہ امور کی انجام دہی کا طریقہ ہے، اس لیے بظاہر ایک چہرے یا خاندان کی تبدیلی سے نظام میں وہ تبدیلی نہیں آئے گی جس کی اشد ضرورت مملکت خداداد پاکستان کو ہے ہمارا نظام روز بروز فالج زدہ اور ناقابل اصلاح ہوتا جا رہا ہے اور اس میں بنیادی تبدیلی کے بغیر الیکشن کے عمل کو جاری رکھنے سے کوئی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے
یہ کھیل ہم کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جب عوام میں اس نظام سے بیزاری پیدا ہوتی ہے تو چہرے یا حکمران جماعت ہی تبدیل کردی جاتی ہے یا اسی جماعت کے افراد کو لے کر ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کردی جاتی ہے نئے نعرے اور نام سے عوام کو پھر سہانے خواب سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور بھولی عوام پھر تبدیلی کے نعرے پر بے وقوف بن جاتی ہے۔
پرانے آزمائے ہوئے انجن اور ڈبوں پر مشتمل ٹرین بلا شبہ کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچاسکتی وہ جو خود اس نظام کی پیداوار ہیں اور کل تک اس نظام سے مفادات حاصل کرتے رہے، وہ کبھی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کریں گے اور نہ اس جدوجہد کو کامیاب ہونے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کے نعرے میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے اور اب چہرے کی تبدیلی اور اقتدار کے حصول کو اصل مقصد بنالیا گیا ہے
قابل ذکر ووٹ حاصل کرنے والی تمام جماعتیں جو اس وقت اقتدار کا عرصہ گزار چکی ہیں لیکن انیس بیس کے فرق کے علاوہ کوئی انقلابی تبدیلی تو کیا تبدیلی کا نشان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ تو پھر عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک تبدیلی اور حقوق کے حصول کیلیے ان ہی لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے؟ جن سے مایوسیوں اور محکومیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا عوام ایک بار اس نظام انتخابات کو ہی مسترد کیوں نہیں کردیتے جس میں تبدیلی چاہنے والے کبھی قابل ذکر تعداد میں اسمبلی کے فلور پر نہیں پہنچ سکتے اس نظام میں جیتنے کیلیے پیسہ، دھونس، دھاندلی، ظلم، جبر اور مافیا کی سرپرستی چاہیے اور یہ شرائط کوئی بھی انقلابی ذہن رکھنے والا لیڈر پوری نہیں کرسکتا اس نظام کے تحت ہونے والے الیکشن کے اجزائے ضروری نہ ایسے لوگوں کے پاس ہوں گے اور نہ وہ قابل ذکر تعداد میں اسمبلی میں پہنچ سکیں گے
نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی!
یہاں تبدیلی کو بھی چوروں اور بھگوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ان کی شمولیت پر خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہر آنے والا باغی اور چھوڑ کر جانے والا داغی بن جاتا ہے یہ نظام ان ہی لوگوں کا ہے، وہی اس نظام کی ضروریات رکھتے ہیں۔ عوام کی اکثریت اس نظام میں کوالیفائی نہیں کرتی یہ نظام ان کا ہے اور وہی اس میں نسل در نسل کھیلیں گے یہ کھیل شرفاکا نہیں، چاہے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عبدالستار ایدھی جیسے محسن پاکستان ہی کیوں نہ ہوں۔
کیا کسی تحریک کے سربراہ ہی فقط کرپٹ ہوتے ہیں؟ جو ان کا ساتھ دیتے ہیں کیا وہ کرپٹ نہیں؟ جو ان کا ساتھ دیتے ہیں کیا وہ ساتھ کسی نظریے، عوام، پاکستان اور اسلام کی خدمت کے لیے دیتے ہیں؟ جو کروڑوں لگا کر اپنی سیاست بناتا اور الیکشن لڑتا ہے، وہ عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہے! یہ سب سے بڑا جھوٹ، فریب اور مکر ہے۔ اس کرپشن کے دسترخوان سے سب ہی مستفید ہوتے رہے اور ہورہے ہیں۔ اور زیادہ کی تلاش میں ایک سے دوسری پارٹی میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ نہ ان کا کوئی نظریہ ہے اور نہ لیڈر، ان کا مقصد بس اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ ان لیڈران کے سابقہ اور نئے لیڈران کی تعریف اور تحفظ میں بیانات دیکھ لیں۔ اگر پھر بھی عوام یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان کے وفادار رہیں گے تو میں یہی کہوں گا کہ وہ بیوقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں نظریہ، منشور، قابلیت، ایجنڈے اور کارکردگی کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوتی۔ ووٹ ذات، برادری، قومیت، مسلک اور لاشوں پر دیے جاتے ہیں۔ پھر تبدیلی کیسے ممکن ہے؟ یہی وجہ ہے کہ سیاست پر چند خاندانوں کا کنٹرول ہے اور عوام کی اکثریت کیلیے یہ ایک شجر ممنوعہ ہے دور حاضر میں ایک تبدیلی آرہی ہے کہ سیاست جاگیردار گھرانوں کی گرفت سے نکل کر سرمایہ داروں کی گرفت میں جا رہی ہے
جہاں تک عوامی انجماد کا تعلق ہے کچھ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ اب تبدیلی کا قطعی امکان نہیں، کچھ کسی طاقتور مسیحا، اللہ دین کے چراغ یا جادو کی چھڑی کا انتظار کر رہے ہیں اور کچھ خود بھی مایوس ہیں اور دوسروں کو بھی مایوس کر رہے ہیں کہ اب یہی قوم کا مقدر ہے تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی انقلاب , کوئی بھی تبدیلی لانے میں چند لوگوں کا کردار ہی ہوا کرتا ہے۔ اور وہ چند لوگ عام سطح کے ہوتے ہیں کسی اشرافیہ سے نہیں ہوتے لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ قوم میں تبدیلی کا شعور اور خواہش ہواسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی نظام سیاست بالآخر چند انقلابی ہی ٹھیک کریں گے جس سے عام آدمی کی بھی ایوانوں تک رسائی حاصل ہو گی۔

Tags: column by umer shakir
Previous Post

لیہ . تحریک انصاف ملک غلام حیدر تھند گروپ کا کا میاب پاور شو ،محترمہ سعیدہ ملک امیدوار ایم پی اے تحریک انصاف کے جلسہ میں عوام کی ہزاروں کی تعداد میں بھر پور شرکت

Next Post

لیہ ۔پر امن انتخابات کی تیاری ، لیہ پولیس کا فلیگ مارچ

Next Post
لیہ ۔پر امن انتخابات کی تیاری ، لیہ پولیس کا فلیگ مارچ

لیہ ۔پر امن انتخابات کی تیاری ، لیہ پولیس کا فلیگ مارچ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری نظام حکومت رائج ہے بلا شبہ نظام باقاعدگی سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے اور انحصار کرنے والے عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے کسی بھی ملک کا نظام اپنے مقامی حالات اور محلِ وقوع سے متاثر اور اپنے ماحول اور گرد ونواح سے گھرا ہوتا ہے جسے ہم اس کے مقاصد، بناوٹ اور ترکیب کے مطابق پرکھ سکتے ہیںآئین اور قانون، روایات، طرزعمل، قواعد و ضوابط، طرز حکمرانی، ادارے اور اسی طرح کے دیگر عوامل کسی بھی ملک کے نظام کو واضح کرتے ہیں روزمرہ کے امور کی انجام دہی کیلیے وضع کیے گئے قواعد ہی دراصل ’’نظام‘‘ کہلاتے ہیں؛ جس کیلیے آئین اور قوانین بنائے جاتے ہیں۔ ہر ملک کا آئین عوام کی اکثریت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور آئین میں ترامیم بھی بظاہر عوام کے مفاد میں کی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود تواتر سے چند افراد کا ٹولہ عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے نظام بنائے تو جاتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس پر عمل کتنا کیا جاتا ہے اس لیے اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ نظام ایک کتابی دستاویز نہیں بلکہ ایک رویہ ہے یہ صرف سربراہ حکومت ہی نہیں بلکہ تمام سرکاری مشینری کے روزمرہ امور کی انجام دہی کا طریقہ ہے، اس لیے بظاہر ایک چہرے یا خاندان کی تبدیلی سے نظام میں وہ تبدیلی نہیں آئے گی جس کی اشد ضرورت مملکت خداداد پاکستان کو ہے ہمارا نظام روز بروز فالج زدہ اور ناقابل اصلاح ہوتا جا رہا ہے اور اس میں بنیادی تبدیلی کے بغیر الیکشن کے عمل کو جاری رکھنے سے کوئی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے یہ کھیل ہم کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جب عوام میں اس نظام سے بیزاری پیدا ہوتی ہے تو چہرے یا حکمران جماعت ہی تبدیل کردی جاتی ہے یا اسی جماعت کے افراد کو لے کر ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کردی جاتی ہے نئے نعرے اور نام سے عوام کو پھر سہانے خواب سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور بھولی عوام پھر تبدیلی کے نعرے پر بے وقوف بن جاتی ہے۔ پرانے آزمائے ہوئے انجن اور ڈبوں پر مشتمل ٹرین بلا شبہ کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچاسکتی وہ جو خود اس نظام کی پیداوار ہیں اور کل تک اس نظام سے مفادات حاصل کرتے رہے، وہ کبھی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کریں گے اور نہ اس جدوجہد کو کامیاب ہونے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کے نعرے میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے اور اب چہرے کی تبدیلی اور اقتدار کے حصول کو اصل مقصد بنالیا گیا ہے قابل ذکر ووٹ حاصل کرنے والی تمام جماعتیں جو اس وقت اقتدار کا عرصہ گزار چکی ہیں لیکن انیس بیس کے فرق کے علاوہ کوئی انقلابی تبدیلی تو کیا تبدیلی کا نشان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ تو پھر عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک تبدیلی اور حقوق کے حصول کیلیے ان ہی لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے؟ جن سے مایوسیوں اور محکومیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا عوام ایک بار اس نظام انتخابات کو ہی مسترد کیوں نہیں کردیتے جس میں تبدیلی چاہنے والے کبھی قابل ذکر تعداد میں اسمبلی کے فلور پر نہیں پہنچ سکتے اس نظام میں جیتنے کیلیے پیسہ، دھونس، دھاندلی، ظلم، جبر اور مافیا کی سرپرستی چاہیے اور یہ شرائط کوئی بھی انقلابی ذہن رکھنے والا لیڈر پوری نہیں کرسکتا اس نظام کے تحت ہونے والے الیکشن کے اجزائے ضروری نہ ایسے لوگوں کے پاس ہوں گے اور نہ وہ قابل ذکر تعداد میں اسمبلی میں پہنچ سکیں گے نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی! یہاں تبدیلی کو بھی چوروں اور بھگوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ان کی شمولیت پر خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہر آنے والا باغی اور چھوڑ کر جانے والا داغی بن جاتا ہے یہ نظام ان ہی لوگوں کا ہے، وہی اس نظام کی ضروریات رکھتے ہیں۔ عوام کی اکثریت اس نظام میں کوالیفائی نہیں کرتی یہ نظام ان کا ہے اور وہی اس میں نسل در نسل کھیلیں گے یہ کھیل شرفاکا نہیں، چاہے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عبدالستار ایدھی جیسے محسن پاکستان ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا کسی تحریک کے سربراہ ہی فقط کرپٹ ہوتے ہیں؟ جو ان کا ساتھ دیتے ہیں کیا وہ کرپٹ نہیں؟ جو ان کا ساتھ دیتے ہیں کیا وہ ساتھ کسی نظریے، عوام، پاکستان اور اسلام کی خدمت کے لیے دیتے ہیں؟ جو کروڑوں لگا کر اپنی سیاست بناتا اور الیکشن لڑتا ہے، وہ عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہے! یہ سب سے بڑا جھوٹ، فریب اور مکر ہے۔ اس کرپشن کے دسترخوان سے سب ہی مستفید ہوتے رہے اور ہورہے ہیں۔ اور زیادہ کی تلاش میں ایک سے دوسری پارٹی میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ نہ ان کا کوئی نظریہ ہے اور نہ لیڈر، ان کا مقصد بس اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ ان لیڈران کے سابقہ اور نئے لیڈران کی تعریف اور تحفظ میں بیانات دیکھ لیں۔ اگر پھر بھی عوام یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان کے وفادار رہیں گے تو میں یہی کہوں گا کہ وہ بیوقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں نظریہ، منشور، قابلیت، ایجنڈے اور کارکردگی کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوتی۔ ووٹ ذات، برادری، قومیت، مسلک اور لاشوں پر دیے جاتے ہیں۔ پھر تبدیلی کیسے ممکن ہے؟ یہی وجہ ہے کہ سیاست پر چند خاندانوں کا کنٹرول ہے اور عوام کی اکثریت کیلیے یہ ایک شجر ممنوعہ ہے دور حاضر میں ایک تبدیلی آرہی ہے کہ سیاست جاگیردار گھرانوں کی گرفت سے نکل کر سرمایہ داروں کی گرفت میں جا رہی ہے جہاں تک عوامی انجماد کا تعلق ہے کچھ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ اب تبدیلی کا قطعی امکان نہیں، کچھ کسی طاقتور مسیحا، اللہ دین کے چراغ یا جادو کی چھڑی کا انتظار کر رہے ہیں اور کچھ خود بھی مایوس ہیں اور دوسروں کو بھی مایوس کر رہے ہیں کہ اب یہی قوم کا مقدر ہے تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی انقلاب , کوئی بھی تبدیلی لانے میں چند لوگوں کا کردار ہی ہوا کرتا ہے۔ اور وہ چند لوگ عام سطح کے ہوتے ہیں کسی اشرافیہ سے نہیں ہوتے لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ قوم میں تبدیلی کا شعور اور خواہش ہواسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی نظام سیاست بالآخر چند انقلابی ہی ٹھیک کریں گے جس سے عام آدمی کی بھی ایوانوں تک رسائی حاصل ہو گی۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.