کشمیر جنت نظیر
ازقلم , ابوذر منجوٹھہ
5فروری یوم یکجہتی کشمیرپاکستان بھر اور دنیا بھر میں موجود 15لاکھ کشمیری تارکین وطن پورے عزم کے ساتھ مناتے ہیںیہ دن ہمیں یہ بتا تا ہے کہ کشمیری اس جدوجہد میں اکیلے نہیں ہیں ۔ یہ ظلم آ ج سے نہیں ہو رہا کشمیر کے باسیوں پر اس کی تاریخ بہت پرانی ہے جب گوروں نے معائدہ امرتسر کے تحت گلاب سنگھ کے ہاتھ کشمیریوں کو 75لاکھ میں بیچ دیا تھا 1946ء میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کے موقع پر کشمیر کو پاکستان کہ شہ رگ کی حثیت قرار دیا۔
1947میں پھر ایک موقع جو آزادی کا تھا جس میں تمام ایسی ریاستیں جہاں مسلمان اکثریتی علاقوں کو پاکستان کو دیا جانا تھا زبردستی قبضہ کرکے انڈین آرمی نے اس علاقے پر اپنا قبضہ جما لیا اس قبضے کے بعد سے آج تک تحریک آزادی کشمیر چل رہی ہے اس تحریک میں ہزاروں لاکھوں مسلمان کشمیریوں کا خون شامل ہو چکا ہے ۔تحریکیں خون مانگتی ہیں اور اس تحریک کو بھی خون سے سینچا گیا ہے۔ مولانا فضل الہیٰ وزیر آباد کی قیادت میں 23 اگست 1947 کو نیلابٹ کے مقام سے پہلی مسلح جدوجہد کا شروع کی گئی۔ 15 ماہ کے مسلسل جہاد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔پنڈت جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ پہنچ گئے اور وہاں پر جا کر یہ وعدہ کیا کہ ہم ریاست کشمیر میں رائے شماری کروائیں گے اور فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق ہو گا ۔لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ہر انسان کا یہ حق ہے کہ وہ آزادی سے زندگی گزارے لیکن انڈین آرمی نے یہ حق کشمیریوں سے چھین لیا ہے9لاکھ سے زیادہ آرمی نے کشمیریوں پر جبر کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں ۔
شیخ عبداللہ جو کہ اُس وقت شیر کشمیر کہلاتے تھے اند راگاندھی معائدہ کی وجہ سے شیخ عبداللہ کو حکومت میں بٹھا دیا گیا تاکہ وہ کشمیر کو انڈیا سے جوڑے رکھیں لیکن کشمیروں نے یہ بات قبول نہیں کی اور وہی شیر کشمیر غدار کشمیر کے نام سے مشہور ہو گیا۔23 مارچ 1987ء کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کیجیت کو ہار میں تبدیل کر کے ہندوستان نے کشمیری عوام کی پر اپنی ظالمانہ حکومت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ یہی وہ نقطہ آغاز تھا کہ جب کشمیری مسلمان اپنی آزادی کے لیے ایک دفعہ پھر مسلح جدوجہد کی طرف آئے1989میں ہندوستان حکومت نے حریت پسندوں کے گھروں میں تلاشی خواتین کی عصمت دری کی بدترین مثالیں قائم کیں سلام ہے ان حریت پسندوں کو جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے اپنے خون سے یہ جدوجہد جاری رکھی۔5جنوری کو 1989کو لاہور میں قاضی حسین احمد (مرحوم) نے ایک پریس کانفرنس کی اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے 5فروری کو عوام سے ہڑتال کی اپیل کر کے یوم کشمیر منانے کا فیصلہ کیا ۔اس فیصلے کو تمام جماعتوں نے قبول کیا اور سیاسی اختلافات بھلا کر اکھٹے یوم کشمیر منانا شروع کیا اور آج تک یہ سلسلہ چل رہا ہے۔
اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل اور اس جیسے ادارے جن کا کام ایسے ظلم کو روکنا ہے انہوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کو ظلم نظر نہیں آتا میں سلام پیش کرتا ہوں برہان وانی شہید اور اس جیسے تمام کشمیر کے شہیدوں کو ۔ شہید برہان وانی نوجوانوں کے لیے ایک آواز بنا ایک نیا جوش اور جذبہ اس نے اپنی خون سے اس تحریک میں شامل کیا انڈین آرمی نے پیلٹ بلیٹس کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے کئی نوجوانوں کو بینائی سے محروم کر دیافوجی جیپوں کے آگے کشمیری نوجوان لڑکوں کو باندھ کر رکھنا لیکن سلامتی کونسل کے اداروں کو یہ باتیں نظر نہیں آتیں ۔انڈین یونیورسٹیوں میں جو کشمیری نوجوان پڑھتے ہیں ان کو آئے دن شدت پسند زدوکوب کرتے رہتے ہیں۔اقوام متحدہ کشمیریوں سے رائے شماری کروا کر ان کو یہ حق دیں کہ وہ چاہیں تو انڈیا سے الحاق کریں پاکستا ن سے یا پھر وہ ایک الگ اور علیحدہ ریاست کی صورت میں رہنا چاہیں ۔اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سیمنار ریلیاں منعقد کرنی چاہیں ۔ اس موقع پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر دنیا کو بتایا جائے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے علاوہ کوئی حل قبول نہیں کرے گا۔49ممالک کا عرب اتحاد اور او آئی سی کو کہا جانا چاہیے کہ وہ ہندوستان پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ کشمیریوں پر مظالم کو بند کریں ۔ حکومت اعلان کرے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی موقف پر کوئی اندرونی یا بیرونی دباؤ قبول نہیں کریں گے۔ میں تمام پاکستان کے نوجوانوں کو جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں ٹوئیٹر کے ذریعے سے ہی دنیا کو بتا دیں کہ پاکستان کی عوام کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔
یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی