کچل دیاہے کسی نے گلاب پاؤں میں
ؐخضرکلاسرا
قصور کی دھرتی پر قیامت ٹوٹ گئی ، معصوم بیٹی زنیب کیساتھ ہونیوالی زیادتی نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیاہے۔اس صورتحال میں قانون نافذکرنیوالے اداروں بالخصوص پولیس کارکردگی اور ذمہ داریوں پر سنگین سوال اٹھ رہے ہیں ۔ لیکن پنجاب حکومت ہے کہ وہی پرانا طریقہ استعمال کررہی ہے جوکہ ملزموں تک پہنچنے کی بجائے عوام کو مشتعل کرنے کا سبب بن رہاہے ۔احتجاج کیلئے قصور کے شہری نکلے تو پولیس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن طرز پر ٹی وی کیمروں کی موجودگی میں فائرنگ کرکے دونوجوانوں کو ڈھیر کردیاجوکہ پولیس اور پنجاب حکومت کے مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتاہے کہ وہ اتنے بڑے واقعہ پر عوام کے احتجاج کے بنیادی حق کو بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔اندازہ کریں ،قصورشہر لاہور کیساتھ جڑا شہر ہے ،لیکن شہباز حکومت کی طرف چراغ تلے اندھیرے کی صورتحال یوں چل رہی ہے ایک طرف زنیب کیساتھ ہونیوالے اندوہناک واقعہ پر پولیس متحرک نہیں ہوئی بلکہ حد تویہ ہے کہ زینب کے چچا کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی طرف سے کہا گیا کہ زنیب کی لاش تلاش کرنے والے سپاہی کو دس ھزار روپے انعام دیں مطلب نااہلی کی ساری حدیں پارکردی گئیں ۔ادھر اطلاعات ہیں کہ معصوم زنیب کوئی قصور شہر کی پہلی معصوم بچی نہیں تھی جوکہ درندوں کی ہوس کا نشانہ بنی بلکہ زنیب کے واقعہ سے قبل بھی بچیوں کیساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات ہوچکے ہیں لیکن اس ظلم، اور انسایت سوز واقعات پر کوئی بڑی کاروائی کا ثبوت نہیں ملتا ۔یوں اس سنگین جرم میں ملوث افراد کا حوصلہ بڑھ گیاکہ وہ قصور کی دیگر بیٹیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔قصور کو 1976ء میں ضلع کا درجہ دیاگیاتھا ۔قصور دودریاؤں راوی اور ستلج کے درمیان واقعہ ہے۔قصور کی پہچان دیگر بھی کئی حوالوں سے ہے لیکن معروف بزرگ بابا بلھے شاہ کا دربار بھی قصور شہر میں ہے اور وہ اس کا بڑا حوالہ ہیں ۔قصورکے بارے میں بتایاجاتاہے کہ اس شہر کو کشور ،کاسویا پھرکاشی نامی شخص نے جوکہ رام چندرا کا بیٹا تھا اس نے آبادکیاتھا جبکہ اس کے دوسرے بھائی لاہو پوریالاہور کو بسایاتھا۔یوں قصور اور لاہور جڑواں شہر ہیں۔قصور میں بہت سارے محلات ہونے کی وجہ سے اس شہر کو محلات کا شہر بھی کہتے ہیں اور اب بھی قصور کی پرانی آبادیوں میں وہ قلعہ جات اور محلات موجود ہیں ۔بابا بلھے شاہ نے قصور سے یوں بھی محبتوں کا اظہارکیاہے۔ اساں قصوری ، ساڈی ذات قصوری ۔۔۔۔۔اساں وچ قصور دے راہندے۔ بابابلھے شاہ کی دھرتی زینب کیساتھ ہونیوالے ظلم اور زیادتی کے بعد بددستور سوگوار ہے ۔شہر میں مظاہرے جاری ہیں ۔قصور کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ان کا قصور کیاہے ؟ ان کے بچوں کیساتھ ایسا انسایت سوز ظلم کیوں کیاجارہاہے ؟ قصور میں زینب کیساتھ بربریت کے بعد حالات کا اس نہج پر پہنچنے کے پیچھے بھی ایک پس منظرہے ۔دوسال قبل قصور کے اسی علاقے میں بچوں کیساتھ زیادتیوں کا سکینڈل سامنے آیاتھا ۔بچوں کیساتھ اخلاق باختہ ویڈیوز بھی سامنے آئی تھیں مگر حکومت، پولیس اور دیگر اداروں کی طرف سے وہی روایتی طریقہ اخیتارکیاگیا اور کسی بھی ملزم کو قرارواقعی سز انہیں دی گئی ،یوں جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوئی اور نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ قصور کے دوتھانوں کی حدود میں چند ماہ کے اندر ایسے ظلم ،زیادتی او رقتل کے گیارہ المناک واقعات ہوچکے ہیں جبکہ قصور سے ہٹائے جانیوالے ڈی پی او نے بھی ایسی آٹھ بھیانک وارداتوں کا اعتراف کیاہے۔ لیکن موصوف بحیثت سربراہ پولیس ضلع قصور کوئی ایک ملزم کو بھی گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ادھر زنیب کیساتھ ہونیوالی زیادتی کے بعد قتل اور پولیس کی نااہلی پر احتجاج کرنیوالوں پرپولیس نے فائرنگ کرکے دونوجوانوں کو ماردیاہے ۔سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پولیس قصور کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ان کو مارنے پر کیوں تل گئی ہے ؟ ضلع قصور میں جب زینب سمیت دیگر معصوم بچیوں کیساتھ ہونیوالی زیادتی ،قتل اور دیگر افسوس ناک واقعات ہورہے تھے تو اس وقت یہاں کے ارکان اسمبلی کا بھی تو فرض تھاکہ وہ قصور پولیس اوردیگر انتظامیہ کیساتھ ان انسایت سوز واقعات کو روکنے کیلئے بات کرتے خاص طورپر وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کے پاس جاتے کہ پولیس ناکام ہوگئی اور تسلسل کے ساتھ واقعات میں اضافہ ہورہاہے، کوئی ایسا حکم جاری کریں تاکہ قصور کی بچیوں اور شہریوں کو بھی وہی تحفظ ملے جوکہ آپ کے بچوں اور آپ کو عوام کے ٹیکسوں پر حاصل ہے ۔ لیکن ایسا کچھ ارکان اسمبلی کی طرف سے بھی نہیں کیاگیا ۔یوں عوام کو سٹرکوں پر آکر دنیا کو متوجہ کرنا پڑاہے۔قصور کی سیاسی صورتحال یوں ہے کہ قصور ضلع کی قومی اسمبلی کی پانچ نشتوں پر لیگی امیدوار کامیاب ہوئے تھے جن میں سلمان حنیف قصو ر حلقہ این اے 138،وسیم اخترشیخ قصور حلقہ این اے 139،رشید احمد خان قصور حلقہ این اے 140،رانا محمد اسحاق خان قصور حلقہ این اے141،رانا محمد حیات خان قصور حلقہ این اے 142 شامل ہیں ۔اسی طرح قصور ضلع کی صوبائی اسمبلی کی دس نشتیں ہیں ،ان پرملک احمد سعید خان ،ملک محمد احمد خان،محمود انور،محمد انس قریشی ،محمد نعیم صفدر انصاری ،محمد یعقوب ندیم سیٹھی،رانا محمد اقبال خان ،سردار محمد آصف نکئی ،سردار وقاص حسن موکل اور شیخ علاوہ الدین کا میاب ہوئے تھے ۔اس بات سے تو اتفاق ہے کہ پولیس نے قصور کے عوام کیساتھ ظلم کی انتہاء کرکے ان کی زندگیاں تباہ کردی ہیں ،ملزموں کو اتنا موقعہ دیاہے کہ وہ معصوم زینب سمیت دس بچیوں کیساتھ زیادتی ،قتل جیسی سنگین وارداتوں کا ارتکاب کرسکیں ،ادھر شہبازشریف بھی بحیثیت وزیراعلی ذمہ دار ہیں کہ وہ صوبائی دارلحکومت لاہور کیساتھ جڑے شہر قصور میں بچیوں کے قتل ،زیادتی کے واقعات پر بروقت کوئی کاروائی کرنے میں ناکام رہے ۔اسی طرح دیگر اداروں کو بھی قصور وار ٹھہرایاجاسکتاہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ قصور کے ارکان اسمبلی کا بھی تو فرض تھابلکہ اولین فرض تھاکہ وہ زینب سمیت دیگر بچیوں کیساتھ انسایت سوز واقعات پر قومی وصوبائی اسمبلی میں کوئی آواز اٹھاتے ۔پولیس کی بے حسی اور نالائقی پر بات کرتے ۔یاپھر ان کو قصور کے عوام نے کسی اور دھندے کیلئے منتخب کرکے اسمبلیوں کیلئے بھیجاتھا ،جس پر وہ لگے ہوئے ہیں۔کیا بحیثت عوامی نمائندے ان کی ذمہ داری نہیں ہے کہ قصور کے عوام کی عزتوں اور زندگیوں کو محفوظ بنانے کیلئے کردار ادارکریں ؟۔ راقم الحرو ف اس دلخراش واقعہ پر اپنی بات تھل کے شاعر انتخاب احمد کے اس شعر پر ختم کررہاہے۔ پڑا ہے صبح سے ماتم ہمارے گاؤں میں۔۔۔ ۔۔کچل دیاہے کسی نے گلاب پاؤں میں