کیا اب بھی وقت نہیں آیا ؟
انجم صحرائی
ہماری سیاسی تاریخ کی یہ ایک شرمناک سچائی ہے کہ آ زادی کے بعد سے لے کر آج تک مخصو ص سیاسی اجارہ دار ہماری سیاست پر قابض رہے ہیں ، قاءد اعظم کے بے وقت انتقال اور قاءد ملت نواب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پا کستان کو ایسی سیاسی قیادت نصیب نہیں ہو سکی جو پا کستان میں بسنے والے کروڑوں بے وسیلہ ، بے گھر ، محنت کش ، مزدور ، سفید پوش اور خاموش اکثریت کی خالص نما ئندہ ہو ۔
کہا جا سکتا ہے
کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
وطن عزیز میں جو حکومت بھی بر سر اقتدار آ ئی اقتدار کا ہماء ایک ہی نسل ایک ہی طبقہ اور ایک ہی قبیلہ کے سر خیلوں کے سر پر بیٹھا ، یہ سرخیل آزادی سے قبل بھی شاہ کے درباری تھے اور آزادی کے بعد بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں بھی انہی خانوادوں کے چہرے نظر آءے ۔ عام آدمی جس نے انگریز سامراج کے خلاف آ زادی کی جنگ لڑی ، پا کستان بنا نے میں اپنے لہو کا خراج دیا ، پا کستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا پسینہ بہایا اسے سواءے مسائل و مشکلات کے کچھ نہ ملا ۔
حکومت ایوب خان کی ہو یا ذو الفقار علی بھٹو کی ، اقتدار بے نظیر کا ہو یا نواز شریف کا ۔ مارشل لاء ضیاء الحق کا ہو یا پر ویز مشرف کا ، نعرے جمہوریت کے ہوں یا اسلام کے ، روٹی کپڑے مکان کے ہوں یا نئے پا کستان کے سبھی لالی پاپ ثابت ہو ئے ۔۔ڈفلی بجانے والے ہاتھ سبھی ایک جیسے نظر آءے
دکھ تو یہ ہے کہ صدیوں کے یہ شاہ پرست نہ آزادی کی حفا ظت کر سکے اور نہ آزاد پا کستان کی ۔۔ پا کستان دو لخت ہوا مگر کسی کی آنکھ میں دکھ ، افسوس اور شرمندگی نظر نہیں آ ئی ۔
آزادی کے ستر برس گذرنے کے بعد آج چور چور چور کا شور مچا ہے لگتا ہے کہ سیاست کے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں لیکن آج بھی عام آدمی اک تما شا ہے ، اس کا کیس نہ کسی عدالت میں زیر سماعت ہے اور نہ ہی اس کے مسائل کسی ٹاک شو کا مو ضوع ہیں ۔۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ عام آدمی خود اپنی بات کرے اور اپنی ذات کا ادراک کرے ؟ اپنے سیاسی حقوق کا علم ا ٹھائے اور ظلم و نا انصافی کے خلاف اک نئی کر بلا آ باد کرے ؟
انجم صحرائی