• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

سفر رائیگاں ۔ عفت بھٹی

webmaster by webmaster
ستمبر 21, 2017
in کالم
0
سفر رائیگاں ۔ عفت بھٹی

سفر رائیگاں ۔ عفت بھٹی

گرم پانی کا تسلہ رکھے ۔اس کے سفید نازک ہاتھ بھدے پاؤں کا نرمی سے مساج کر رہے تھے۔اسکی زلفیں چوٹی کی قید سے آزاد ہو کر ناگن کی طرح بل کھاتی گلابی گالوں کے بوسے لے رہیں تھیں۔اسلم کی نظر اس کے خوبصورت چہرے پہ گئی اور منجمند ہو گئی پل بھر کو یوں لگا کہ کوئی حسین مورتی کسی سنگتراش کا شاہکار ۔ مکمل حسن جو جادو کر دے ۔قوت گویائی چھین لے ۔وہ بھی توایسی ہی تھی ۔شایدآج وہ پہلی دفعہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا ۔معمولی کپڑوں میں بھی اس کا روپ اجالے کی طرح روشن تھا۔دیا نے پاؤں تولیے سے پونچھے اور تسلہ اٹھا کے کھڑی ہو گئی۔بے اختیار اسلم کی طرف دیکھا ۔کوئی اور حکم۔نگاہوں نے سوال کیا؟ اسلم چونکا نن نہیں بس اندر جاؤ۔لہجے میں درشتی در آئی ۔
ہاتھ خاطب ہوئے کھانا لاؤں؟ نہیں کھا کر آیا ہوں جاؤ سونے دو مجھے۔ اور بازو آنکھوں پہ رکھ لیا۔نگاہوں نے گویا سسکی بھری اور وہ پلٹ گئی ۔سامنے کھانا رکھے دو نوالے لی بھوک جیسے اڑ گئی ٹرےپرے کھسکا کے چارپائی پہ دراز ہوگئی۔ آنسو تھے کہ امڈے آ رہے تھے۔جانے کب آنکھ لگ گئی۔اس کے پاؤں میں گھنگرو بندھے تھے اور وہ محو رقص تھی کائنات تھم گئی نوٹوں کی بارش نے اسے نہلا دیا شمی بائی نے اس کی بلائیں لیں ۔دیکھیں شمی بائی اب اس ہیرے کو مارکیٹ میں لے ہی آئیں۔قسم خدا کی قیامت برپا کر دے گی اور آپکی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔نواب ریحان نے پان منھ میں رکھ کر انگلیوں سے کتھا چاٹتے ہوئے کہا۔۔ارے نہیں نواب صاحب ابھی بچی ہےسولہ کا سن ہے اور میرے بڑھاپے کا آخری سہارا۔شمی بائی نے جواب دیا۔پردے کے پیچھے کھڑی دیا کا دل دہل گیا۔اسے ہر طرف کالے کلوٹے خوفناک مرد اپنی ہوسناک نظروں سے تکتے نظر آئے ۔مانا اسے رقص سے عشق تھا مگر نواب ریحان کی بات نے اس میں خوف بھر دیا۔اسے ماں اور ماہ رخ خالہ یاد آئیں جو ایڈز میں مبتلا تھیں اور زندگی کے دن پورے کر رہی تھیں۔کوٹھے پہ رونمائی کی بہت بڑی تقریب منعقد ہوتی اور نئ نویلی طوائف رقص کے بعد رونمائی کے لیے پیش کی جاتی۔اس دن سب سے بڑی بولی لگانے والے کے لیے چاند رات ہوتی یہی اس کوٹھے کا دستور تھا۔رات ماں سے لپٹی دیا نے اشاروں سے سارا قصہ ماں کے گوش گذار کیا۔نیلم بائی نے اسے اپنی کمزور بانہوں میں سمیٹ لیا ۔اور فکر میں گھر گئی برسوں پہلے وہ محبت میں پاگل ہو کر گھر سے بھاگ آئی تھی اور بے وفا نے اسے نکاح کے بعد تصرف میں لا کر چند ماہ بعد کسی کو فروخت کر دیا ۔اور اس نےشمی بائی کے کوٹھے پہ دام کھرے کر لیے۔جہاں آٹھ ماہ بعد دیا نے جنم لیا دس سال تک نادیہ عرف نیلم بائی دلوں پہ اپنے رقص کی بدولت راج کرتی رہی اور شمی کے خزانے بھرتی رہی پھر بیماری نے اس کا حسن جوانی سب چھین لیا اور بیماری بھی ایڈز جیسی مہلک اب وہ کچھ عرصے کی مہمان تھی۔ سختی کے باوجود جب شمی افیون کے نشے میں دھت ہوتی تو دیا دبے قدموں ماں کے پاس چلی آتی۔
آج اس کی رونمائی تھی بڑا جشن تھا ۔دیگوں میں انواع اقسام کے کھانے پک رہے تھے گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئیں تھیں۔دیا آج کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔اس سے قبل کے قرعہ فال کسی کے نام نکلتا خوفناک دھماکہ ہو گیا یکے بعد دیگرے دھماکوں نے ساتھ کے علاقے کے ساتھ بازار حسن کو بھی لپیٹ میں لے لیا ۔دیا شدید زخمی حالت میں اسلم کو ملی۔جو کراچی سے اپنے دوست کو ملنے آیا تھا اور وہ اسے ہسپتال لے گیا مگراس کی حالت کے پسش نظر کراچی شفٹ کیا گیا اسلم کو اس کا رشتہ دار سمجھتے ہوئے ساتھ بھجوا دیا ۔ایک ماہ بعد جب دیا تندرست ہوئی تو اسلم اسے اپنے گھر لے آیا ۔قوت گویائی سےمحروم دیا اسکو نجات دہندہ سمجھتے ہوئے اس کی خدمت کرتی ۔مگر اسلم کا سرد رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا ۔اسلم بھی کیا کرتا وہ ہو بہو نادیہ تھی جو کبھی اس کی خاطر گھر چھوڑ آئی تھی۔۔

iffat bhatti

Tags: column by ifat bhatti
Previous Post

نیب لاہور کا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے گھر پر چھاپہ، ملازمین سے پوچھ گچھ

Next Post

”بے نظیر اور مرتضیٰ بھٹو کو آصف زرداری نے قتل کروایا ، اس کے افغان حکام سے تعلقات تھے، بی بی کا فون بھی 2سال بعد ملا“بالآخر پرویز مشرف نے منہ کھول دیا

Next Post
”بے نظیر اور مرتضیٰ بھٹو کو آصف زرداری نے قتل کروایا ، اس کے افغان حکام سے تعلقات تھے، بی بی کا فون بھی 2سال بعد ملا“بالآخر پرویز مشرف نے منہ کھول دیا

”بے نظیر اور مرتضیٰ بھٹو کو آصف زرداری نے قتل کروایا ، اس کے افغان حکام سے تعلقات تھے، بی بی کا فون بھی 2سال بعد ملا“بالآخر پرویز مشرف نے منہ کھول دیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

سفر رائیگاں ۔ عفت بھٹی

گرم پانی کا تسلہ رکھے ۔اس کے سفید نازک ہاتھ بھدے پاؤں کا نرمی سے مساج کر رہے تھے۔اسکی زلفیں چوٹی کی قید سے آزاد ہو کر ناگن کی طرح بل کھاتی گلابی گالوں کے بوسے لے رہیں تھیں۔اسلم کی نظر اس کے خوبصورت چہرے پہ گئی اور منجمند ہو گئی پل بھر کو یوں لگا کہ کوئی حسین مورتی کسی سنگتراش کا شاہکار ۔ مکمل حسن جو جادو کر دے ۔قوت گویائی چھین لے ۔وہ بھی توایسی ہی تھی ۔شایدآج وہ پہلی دفعہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا ۔معمولی کپڑوں میں بھی اس کا روپ اجالے کی طرح روشن تھا۔دیا نے پاؤں تولیے سے پونچھے اور تسلہ اٹھا کے کھڑی ہو گئی۔بے اختیار اسلم کی طرف دیکھا ۔کوئی اور حکم۔نگاہوں نے سوال کیا؟ اسلم چونکا نن نہیں بس اندر جاؤ۔لہجے میں درشتی در آئی ۔ ہاتھ خاطب ہوئے کھانا لاؤں؟ نہیں کھا کر آیا ہوں جاؤ سونے دو مجھے۔ اور بازو آنکھوں پہ رکھ لیا۔نگاہوں نے گویا سسکی بھری اور وہ پلٹ گئی ۔سامنے کھانا رکھے دو نوالے لی بھوک جیسے اڑ گئی ٹرےپرے کھسکا کے چارپائی پہ دراز ہوگئی۔ آنسو تھے کہ امڈے آ رہے تھے۔جانے کب آنکھ لگ گئی۔اس کے پاؤں میں گھنگرو بندھے تھے اور وہ محو رقص تھی کائنات تھم گئی نوٹوں کی بارش نے اسے نہلا دیا شمی بائی نے اس کی بلائیں لیں ۔دیکھیں شمی بائی اب اس ہیرے کو مارکیٹ میں لے ہی آئیں۔قسم خدا کی قیامت برپا کر دے گی اور آپکی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔نواب ریحان نے پان منھ میں رکھ کر انگلیوں سے کتھا چاٹتے ہوئے کہا۔۔ارے نہیں نواب صاحب ابھی بچی ہےسولہ کا سن ہے اور میرے بڑھاپے کا آخری سہارا۔شمی بائی نے جواب دیا۔پردے کے پیچھے کھڑی دیا کا دل دہل گیا۔اسے ہر طرف کالے کلوٹے خوفناک مرد اپنی ہوسناک نظروں سے تکتے نظر آئے ۔مانا اسے رقص سے عشق تھا مگر نواب ریحان کی بات نے اس میں خوف بھر دیا۔اسے ماں اور ماہ رخ خالہ یاد آئیں جو ایڈز میں مبتلا تھیں اور زندگی کے دن پورے کر رہی تھیں۔کوٹھے پہ رونمائی کی بہت بڑی تقریب منعقد ہوتی اور نئ نویلی طوائف رقص کے بعد رونمائی کے لیے پیش کی جاتی۔اس دن سب سے بڑی بولی لگانے والے کے لیے چاند رات ہوتی یہی اس کوٹھے کا دستور تھا۔رات ماں سے لپٹی دیا نے اشاروں سے سارا قصہ ماں کے گوش گذار کیا۔نیلم بائی نے اسے اپنی کمزور بانہوں میں سمیٹ لیا ۔اور فکر میں گھر گئی برسوں پہلے وہ محبت میں پاگل ہو کر گھر سے بھاگ آئی تھی اور بے وفا نے اسے نکاح کے بعد تصرف میں لا کر چند ماہ بعد کسی کو فروخت کر دیا ۔اور اس نےشمی بائی کے کوٹھے پہ دام کھرے کر لیے۔جہاں آٹھ ماہ بعد دیا نے جنم لیا دس سال تک نادیہ عرف نیلم بائی دلوں پہ اپنے رقص کی بدولت راج کرتی رہی اور شمی کے خزانے بھرتی رہی پھر بیماری نے اس کا حسن جوانی سب چھین لیا اور بیماری بھی ایڈز جیسی مہلک اب وہ کچھ عرصے کی مہمان تھی۔ سختی کے باوجود جب شمی افیون کے نشے میں دھت ہوتی تو دیا دبے قدموں ماں کے پاس چلی آتی۔ آج اس کی رونمائی تھی بڑا جشن تھا ۔دیگوں میں انواع اقسام کے کھانے پک رہے تھے گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئیں تھیں۔دیا آج کسی اپسرا سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔اس سے قبل کے قرعہ فال کسی کے نام نکلتا خوفناک دھماکہ ہو گیا یکے بعد دیگرے دھماکوں نے ساتھ کے علاقے کے ساتھ بازار حسن کو بھی لپیٹ میں لے لیا ۔دیا شدید زخمی حالت میں اسلم کو ملی۔جو کراچی سے اپنے دوست کو ملنے آیا تھا اور وہ اسے ہسپتال لے گیا مگراس کی حالت کے پسش نظر کراچی شفٹ کیا گیا اسلم کو اس کا رشتہ دار سمجھتے ہوئے ساتھ بھجوا دیا ۔ایک ماہ بعد جب دیا تندرست ہوئی تو اسلم اسے اپنے گھر لے آیا ۔قوت گویائی سےمحروم دیا اسکو نجات دہندہ سمجھتے ہوئے اس کی خدمت کرتی ۔مگر اسلم کا سرد رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا ۔اسلم بھی کیا کرتا وہ ہو بہو نادیہ تھی جو کبھی اس کی خاطر گھر چھوڑ آئی تھی۔۔

iffat bhatti

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.