شب و روز زندگی قسط 17
تحریر : انجم صحرائی
میرے جانے بعد ماحول بالکل تبدیل ہو گیا منشی صاحب نے کانسٹیبل عاشق حسین سے یہ کہتے ہو ئے کہ یار یہ ہمارے ہمسائے اخبار والے ہیں تمہیں غلظ فہمی ہو ئی ہے ہمیں تھا نے سے جا نے کی اجازت دے دی ۔ واپس آتے ہو ئے میں نے شیر خان سے پو چھا کہ کیا ہوا تھا کہنے لگے کچھ بھی نہیں تمہارے چو بارے پہ چڑ ھنے کے بعد میں پیشاب کر نے کے لئے ایک دکان کے ساتھ بیٹھا ہی تھا کہ عا شق حسین آ گیا اور اس نے مجھے ایسے للکا را جیسے میں بہت بڑا ڈکیت ہوں پھر اس نے سیٹی مار کر چو کیدار کو بلا لیا میں انہیں بہت سمجھا نے کی کو شش کی کہ یہ سا منے ہمارا دفتر ہے مگر ان لو گوں نے ایک نہ سنی اور مجھے اٹھا کر تھا نے لے گئے ۔ شیر خان انسا نی حقوق کی پا مالی پر شدید برہم تھے ۔ رات انہوں نے بڑے کرب سے گذاری اور صبح ہو تے ہی ہم نے لیہ کی مختلف سیاسی ،سما جی اور مزدور تنظیموں کی طرف سے رات کے واقعہ پر پو لیس کے خلاف شدید غم و غصہ کے اظہار پر مبنی ٹیلیگرام حکو متی اکا برین اور پو لیس حکام کو ارسال کر دیں ۔ اور سا تھ ہی پریس میں بھی اس واقعہ کے حوالے سے مذ متی بیانات کا ایک ختم نہ ہو نے والا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ۔ ایک ہفتہ بھی نہ گذ را تھا کہ حکو مت اور پو لیس کے اعلی حکام کی طرف سے ٹیلیگرام اور خبروں کی بنیاد پر واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی گئی اور تحقیقات کا بھی حکم دے دیا گیا ۔ ان دنوں تحصیل لیہ کے ڈی ایس پی کریم گجر تھے انہوں نے ہمیں انکوائری کے لئے طلب کر لیا ۔ مقررہ تا ریخ پر ہم ان کے دفتر گئے تو ہمارے سا تھ ہمارے ہمدردوں میں سردار احمد نواز خان ، خلیل احمد خان گر یا نوی ایڈ وو کیٹ اور عبد الکریم گجر بھی تھے ۔ ہمارا مو قف سننے کے بعد ڈی ایسپی نے کا نسٹیبل عاشق حسین سے کہا کہ وہ ہم سے تحریری معا فی طلب کرے سو اس نے ایسا ہی کیا لیکن تحریری معا فی کے با وجود اس کا تبا دلہ کوٹ ادو کر دیا گیا۔
انہی دنوں جب انتخا بات ہو ئے تو انتخا بی مہم کے دوران ایک دن سب بے روزگا روں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کر ا نے کے لئے نا زو شاہ کا تا نگہ کرا ئے پر لے کر استاد حبیب کی دکان سے لا ئو سپیکر ٹا نگے پر نصب کرایا اور سارا دن “نو کری دو ووٹ لو “کے نعرے لگا تے سڑ کوں کا گشت کرتے رہے ۔شہر کے کئی جگہوں پر مجھ سمیت بے روز گا ر رہنما ئوں نے خطاب کیا اور سر ما یہ داری ،جا گیر داری ،کرپشن ، رشوت اور اقربا پروری کے مو ضوعات پرخوب دھول اڑائی خا صی دیر بعد کسی امیدوار نے تھا نے جاکر شکا یت کی کہ یہ ٹانگے والے نہ تو امیدوار ہیں اور نہ ہی کسی امیدوار کے سپورٹر ۔ ان کی اس غیر قا نو نی اور غیر آ ئینی سر گر میوں سے نقص امن کا خطرہ ہے ان کی زبا نوں کو لگام دی جا ئے ۔ سو جب قا ئد انجمن بے روزگاران پا کستان چوک قصا باں پر ہو نے والی کار نر میٹنگ میں بے روزگا ری کا نو حہ پڑھ رہے تھے کہ ایک پو لیس والے نے آ کر انہیں روکا اور بتا یا کہ آپ یہ سب کچھ خلاف قا نون کر رہے ہیں ، چو نکہ انجمن بے روزگاران پا کستان ایک قا نون پسند پر امن تنظیم تھی اور سب سے بڑی بات کہ ہم سب بے روزگار کا مریڈ صبح سے بھو کے مست ملنگ دھمال ڈال رہے تھے سو ہم نے اپنی بات ختم کرتے ہو ئے احتجاجی تحریک کے خا تمے کا بھی اعلان کر دیا ۔ واپسی پر نہ تو ہمارے پاس لا ئو ڈسپیکر کا کرایہ تھا اور نہ ہی ہمارے پاس اتنے پیسے تھے کہ نازو شاہ کے ٹانگے کے کرایہ کی ادا ئیگی کر سکتے ۔مجھے یاد نہیں کہ ہم نے استاد حبیب کو لا ئوڈ سپیکر کا کرا یہ دیا یا نہیںالبتہ نا زو شاہ جو اب بوڑھا ہو چکا ہے اورجس کا گھوڑا مر چکا ہے اور ٹانگہ بیچ کے اس نے سا ری رقم اپنی مرحو مہ گھر والی کی دوا دارو میں لگا کر آج بے روزگار ہے لیکن میرا بے روز گار دنوں کا سا تھی اور بیلی ہے اپنے ٹا نگے کا کرایہ وصول کر نے ہر پندرہ دن بعد صبح پا کستان کے دفتر میں آ جا تا ہے ۔یہ سلسلہ بر سوں سے جاری ہے اور انشا ء اللہ بر سوں جاری رہے گا۔
ہمارے دفتر کے سا منے ڈیڈے کا ہو ٹل تھا چوک قصاباں پر واقع ڈیڈے کے اس ہو ٹل پر چا ئے پینے والوں کا بہت رش رہتا تھا صبح صادق کے وقت یہ ہو ٹل آبا د ہو جا تا اور رات گئے تک چائے پینے کے شا ئقین کا ہجوم ہو ٹل میں مو جود رہتا ۔ بازار کے سبھی دکا ندار بھی ڈیڈے کے ہو ٹل سے چا ئے منگواتے ڈیڈا بازار کے دکا نداروں سے ادھار بھی کرتا یہ ادھار جمعہ سے جمعرات تک کی ہو تی جمعرات کو ادھار بے باک کر نا ضروری ہو تا وگر نہ چا ئے بند کر دی جا تی ۔ جب میں نے دفتر بنا یا اس دن میری جیب میں غا لبا پیسے تھے ہم سارا دن نقد کی چا ئے پیتے رہے مگر اگلے دن مسئلہ پیچیدہ ہو گیا ہم نے چا ئے پینے سے احتراز کیا کہ بجٹ ہی نہیں تھا پھر کہیں سے پیسے آ ئے تب چا ئے چلی استاد ڈیڈے نے شا ئد ہماری زبوں حالی کو محسو س کر لیا تھا ۔ ایک دن خود ہی کہنے لگا کہ” یار تہاڈا کھا تہ نہ بنا گھنوں , جمعرات کو کٹھے دے دتا کرو “۔ اس کی یہ پیشکش سن کر مجھے خو شی بھی ہو ئی اور پریشا نی بھی ۔ خو شی اس بات پر کہ چا ئے کا مسئلہ دا ئمی طور پر حل ہو رہا تھا اور پریشا نی اس بات پر کہ اگر ہم جمعرات کو کھا تہ کلیئر نہ کر سکے تب کیا ہو گا ۔ کچھ دیر سو چنے کے بعد میں نے کہا استاد ٹھیک ہے آ پ چا ئے اپنی مر ضی سے پلا یا کریں اور ہم بل اپنی مرضی سے ادا کیا کریں گے ۔ استاد ڈیڈا میری بات سن کر بہت ہنسا اور کہنے لگا “ایہہ تا ول قیا مت دی ادھار تھی گئی” میں نے بھی مسکراتے ہو ئیسرائیکی میں جواب دیا “جیا لیکن استادقیا مت دی ادھار گھا ٹے دا سودا تا نہیں ” اس دن کے بعد استاد ڈیڈے نے کبھی ہم سے چا ئے کا بل نہیں ما نگا جب پیسے آ تے ہم ادا کر دیتے لیکن استاد ڈیڈے نے بل نہ دینے کی وجہ سے ہماری چا ئے کبھی بند نہ کی استا ڈیڈا اللہ کے ہاں چلے گئے ہم بھی چلے جا ئیں گے بگر استاد ڈیڈا آج بھی ہماری دعا ئوں میں زندہ ہیں۔
محبت کی اس داستان میں اگر میں جمعہ خان کا ڈکر نہ کروں تو یہ بڑی زیا د تی ہو گی ۔ بلوچ ٹرانسپورٹ سے ذرا آگے جمعہ خان کا بھی ایک ہو ٹل تھا ۔ جمعہ خان کے پا ئے بڑے مزیدار ہو ا کرتے تھے اکثر جب میرا اور شیرخان اس کا اس ہوٹل کے سا منے سے گذر ہو تا تو جمعہ خان ہمیں آ واز دے کر بلا لیتا اور ہمیں پا ئے کھلا تا ۔ بڑی دفعہ ہمارے پاس جب پیسے نہ ہو تے تو ہم وہاں سے آ نکھ بچا کر گذ رنے کی کو شش کرتے تب جمعہ خان کی آواز سنا ئی دیتی او خان جی کدھر جا رہے ہو کھانا تو کھا لو ، ہم اشارے سے بتا تے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں تو کہتا یار آ ئو کھانا توکھا لو جب پیسے ہوں دے دینا اور یوں اللہ کریم ہمارے کھا نے کا بندو بست کر دیتا۔ انہی دنوں کا ایک اور نہ بھو لنے واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ پاک بھارت جنگ کے دوران ہم نے بھی اپنا نام قو می رضا کاروں میں لکھوا لیا ایک شام میں مٹر گشت کر نے سٹیشن پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بنچ پر بیٹھے ہو ئے ایک نو جوان شخص کو بچے پتھر مار رہے ہیں اور وہ اپنا منہ چھپا ئے زور زور سے چلا رہا ہے کہ زندہ پیر کو مت مارو ، زندہ پیر کو مت مارو میں نے بچوں کو ڈانٹا تو بچوں نے بتا یا کہ یہ بندہ سارا دن سٹیشن کے سا منے ایک ہو ٹل پر لکڑیاں پھا ڑتا رہا ہے اور اب یہاں آ بیٹھا ہے کچھ کہو تو کہتا ہے کہ میں زندہ پیر ہوں ۔ میں اس کے قریب گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کی پینٹ آ گے پیچھے سے پھٹی ہو ئی تھی اور وہ ٹا نگیں اکھٹی کر کے بیٹھا تھا اسے ایسے بیٹھے دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ وہ پا گل نہیں بلکہ بنا ہوا ہے ۔ میں نے اس سے اس کا نام پو چھا تو وہ بولا کہ میں زندہ پیر ہوں میں نے کہا کہ پیر جی کہاں سے آ ئے ہو تو وہ ایک لحظہ کے لئے خا موش رہا اور مجھے دیکھتا رہا پھر جواب دیا کہ زندہ پیر کراچی سے آ ئے ہیں ۔ مجھے لگا کہ وہ بھوکا ہے ۔میں نے اسے کھا نے کی دعوت دیتے ہو ئے کہا پیر جی کچھ کھا ئیں گے جواب ملا کہ زندہ پیر کھانا نہیں کھا یا کرتے ۔ تھوڑی دیر بعد زندہ پیر بو لے ہاں تبرک لے لوں گا ۔ میں نے کہا ٹھیک آ ئیں اور وہ میرے ساتھ چل پڑا۔
اس کی حالت بہت خراب تھی نہ معلوم وہ کب سے نہیں نہا یا تھا داڑھی کے بال بھی بڑھے ہو ئے تھے اور کپڑے بھی میلے اور پھٹے ہو ئے ۔ چلتے چلتے میں نے کہا پیر جی سے کہا کہ پہلے آپ نہا لیں اور کپڑے بدل لیں پھر کھا نا کھا ئیں گے وہ کچھ نہ بو لا اور خا مو شی سے میرے سا تھ چلتا رہا ۔ میں اسے ناز سینما روڈ پر واقع یا سین کے حمام پر لے آ یا ۔ میں نے یا سین سے کہا کہ یہ میرا مہمان ہے اس نے نہا نا بھی ہے اور بعد میں اس کی شیو بھی کرناہے ۔ اس نے کہا ٹھیک جب پیر جی نہا نے کے لئے حمام میں چلے گئے تب میں نے یا سین سے کہا میں ابھی آ یا اور میں جلدی سے دفتر آیا اور اپنا ایک پرانا جوڑا لے کر حمام پر پہنچ گیا ۔ زندہ پیر ابھی نہا رہے تھے تھوڑی دیر بعد یا سین نے حمام کے دروازے پر کپڑے ٹانگ دیئے اور زور سے کہا کہ بھا ئی یہ کپڑے پہن لینا ۔نہا نے کے بعد پیر جی نے کپڑے پہنے اور حمام سے نکل آ ئے ۔ یا سین نے اس کی شیو بنا ئی تو پیر جی کی شخصیت بالکل ہی بدل گئی وہ بیس با ئیس سال کا بہت ہی خوبصورت نو جوان تھا۔ ہم دونوں نے للی لال روڈ پر واقع نتکا نی ہوٹل سے کھا نا کھایا کھا نے کے دوران جب بھی میں نے اس کے بارے جا ننا چا ہا اس نے کہا کہ میں زندہ پیر ہوں ۔ ابھی ہم نے کھا ناختم ہی کیا تھا کہ بلیک آ ئوٹ ہو گیا اسی دوران میں نے میز سے اٹھ کر ہو ٹل کے مالک محمد بخش نتکانی کو سارا حال سنا یا اور مشورہ ما نگا کہ اب میں کیا کروں۔
میری کتھا سن کے خان بو لے کہ صحرائی آج کل جنگ کا زما نہ ہے ایسا نہ ہو کہ نیکی تمہا رے گلے پڑ جا ئے ایسا کرو تم اسے کینال ریسٹ لے جا ئو وہاں فوج نے کیمپ لگا یا ہوا ہے ان کے حوالے کردو ۔ میں نے کہا ٹھیک ۔ میں نے پیرجی سے کہا کہ آئیں چلیں اور ریلوے روڈ کی طرف ہو لیا ۔جب سٹیشن سے آگے بہرام روڈ پر تھوڑا آ گے آ ئے تو اند ھیرا گھپ تھا آسمان پر تا رے چمک رہے تھے زندہ پیر نے گنگنا نا شروع کر دیا “چا ند نی را تیں تا روں سے کریں با تیں” اس کی آواز بہت پیا ری تھی تھوڑی ہی دیر میں ہم کینال ریسٹ ہا ئوس کی چار دیواری کے اندر داخل ہو گئے ۔ فوج والوں نے گیٹ کے سا تھ ہی اپنا کیمپ آ فس بنا یا ہوا تھا میں زندہ پیر جی کو لے کر جو نہی کمرے میں داخل ہوا زندہ پیر جی وا قعی زندہ ہو گیا اور اس نے کمرے میں داخل ہو تے ہی وہاں مو جود وردی والے صوبیدار کو دیکھتے ہی کھڑاک سے سیلوٹ مارا ۔ اور سید ھا کھڑا ہو گیا ۔ صوبیدار نے پو چھا اوئے تو کدھر ؟ اور میں ہکا بکا ۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے زندہ پیر جی بو لتی ہی بند ہو گئی ہے اس کے خا موش رہنے پر صو بیدارنے میری طرف دیکھا اور بولا تمہیں یہ کہاں ملا ؟ ۔با قی اگلی قسط میں