۔ شب و روز زندگی (قسط 6)
تحریر : انجم صحرائی
میں نے بتایا نا کہ خیال اکیڈیمی کا تاسیسی اجلاس ویرا سٹیڈیم کے اا فیسرز کلب میں منعقد ہوا تھا اس زما نے میں ملتان روڈ کا یہ حصہ وی وی آئی پی ہوا کرتا تھا ۔ بلدیہ کے دفاتر کے ساتھ سول کورٹس ، آج کے دفتر ضلع کونسل کے ساتھ ملحقہ کو ٹھی اسسٹنٹ کمشنر کی ہوا کرتی تھی اور بلدیہ دفاتر کے سا منے خو بصورت ویرا سٹیڈیم ۔ اس زما نے میں منعقد ہو نے والی سبھی ادبی تقریبات اسی سٹیڈیم میں آ فیسر کلب کے خو بصورت لان میں ہوا کرتی تھیں ۔ ویرا سٹیڈیم کے ٹینس لان میں آفیسرز اور سول ممبران شام کو ٹینس کھیلتے ان سول ممبران میں عبد اللہ خان ، جلال خان ایڈوو کیٹ ، فقیرحسین خان ایڈ وو کیٹ نمایاں تھے اسی زما نے میں میں نے چند لڑکوں کو بھی ٹینس ریکٹ کے ساتھ وہاں جاتے اور ٹینس کھیلتے دیکھا ان لڑکوں میں سے ایک آج کے جسٹس سید شہباز رضوی ہیں انہی دنوں یہ افواہ بھی زبان زدعام تھی کہ اسی کلب کی عمارت میں ہمارے شہر کے کئی معززین رات کو تاش کا کھیل کتوری بھی کھیلتے ہیں۔
ویرا سٹیڈیم کا فٹ بال گرا ئونڈ سیا سی جلسوں کے لئے استعمال ہو تا رہتا ہے ما ضی میں پیپلز پا رٹی کے با نی چیئر مین ذو الفقار علی بھٹو نے اپنا انتخا بی جلسہ بھی اسی ویرا سٹیڈیم میں کیا تھا ، اور آج کے سیا ستدا نوں میں میاں نوا شریف اور عمراں خان بھی اسی ویرا سٹیڈیم میں جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں مجھے یا د ہے کہ شیر پا کستان نام سے ہو نے والے ایک دنگل میں جھارا پہلوان نے بھی یہاں ایک کشتی چند لمحوں میں جیتی تھی یہ خو بصورت سٹیڈیم لیہ میں تعینات ہو نے والے سی ایس پی ایس ڈی ایم مصطفے زیدی نے لیہ تعیناتی کے دوران شہر میں تعمیر ہو نے والے سٹیڈیم کو اپنی خو بصورت جر من بیوی ویرا کے نام پر منسوب کر دیا تھا ۔ مصطفے زیدی اردو کے ایک ترقی پسند خو بصورت شا عر تھے ۔ زبان زد عام شعر
“انہیں پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آ ئو
میرے گھر کے راستے میں کو ئی کہکشاں نہیں ہے ”
مصطفے زیدی 10 اکتو بر1930میں بھارت کے شہر اللہ آباد میں پیدا ہوئے ابھی انیس سال کے تھے جب تیغ اللہ آ بادی کی منتخب نظموں ” پر مشتمل پہلی کتاب زنجیریں ” شا ئع ہو ئی۔ تیغ اللہ آبادی مصفے زیدی کا قلمی نام تھا ۔ ان کے والد انڈیا کر مینل انوسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ میں آ فیسر تھے ۔ مصفے زیدی نے 1950 میں بھارت سے پا کستان کے لئے ہجرت کی اور 1953 میں گورٹمنٹ کالج لا ہور سے انگریزی میںماسٹر ادب کیا ۔ سول سر وس میں آ نے سے قبل اسلا میہ سا ئینس کالج کراچی اور پشاور یو نیورسٹی میں تعلیمی خدمات انجام دیں ۔ سول سروس جوائن کرنے کے بعد لیہ سمیت سیالکوٹ ،لا ہور ، نواب شاہ اور خیر پور میں بطور اسسٹنٹ کمشنر خد مات انجام دیں ۔ دوران ملا مت ہی سر کا ر کی جانب سے انہیں MUFFIED فا ئونڈ یشن کے تر بیتی پروگرام میں شر کت کے لئے لندن بھیجا گیا بیرون ملک سے وا پسی پر انہیں سیکرٹری بلدیات مقرر کر دیا گیا بہترین خد مات اور کار کردگی پر حکو مت کی طرف سے انہیں اعلی سول ایوارڈ تمغہ قا ئد اعظم سے بھی نوازا گیا ۔ مصطفے زیدی لیہ میں بطور اسسٹنٹ کمشنر سال 1958 میں تعینات ہو ئے اس زما نے میں اسسٹنٹ کمشنر کو ایس ڈی ایم کہا جا تا تھا ۔ اور انہی کے دور ملاز مت میں ویرا سٹیڈیم کی تعمیر مکمل ہو ئی ۔ مصطفے زیدی پا کستا نی ادب میں ایک بڑا نام ہے علم ادب سے ان کے گہرے تعلق کے سبب کہا جا سکتا ہے کہ ان کے دور میں لیہ میں ادبی معر کہ آ را ئیاں اور بزم آ را ئیاں یقینا زوروں پر رہی ہوں گی ۔ لیہ پر تحقیق کر نے والے محققین اور لکھنے والے ادبی دانشوروں کو تیغ اللہ آ بادی کے اس ادبی دور کا بھی کھوج لگا نا چا ہئیے کہ وہ بھی لیہ تا ریخ کا ایک اہم باب ہے ۔ مصطفے زیدی 22 اکتوبر 1970 میں کرا چی میں اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ پا ئے گئے ، پہلے شبہ ظاہر کیا گیا انہیںان کی ایک خا تون دوست شہناز سلیم کے ذر یعے زہر دے کر قتل کیا گیا ہے ۔ کچھ عر صہ بعد قتل کی تحقیقا ت کا پنڈورہ بند کر دیا گیا شا ئد اسی بے حس رویے کو مصطفے زیدی نے اپنی زند گی میں کہے اس شعر میں بیان کیا ہے۔
” میںکس کے ہا تھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہو ئے ہیں دستا نے” بر سبیل تذ کرہ اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بتا تا چلوں کہ 1946 میںمتحدہ بھارت کے زما نہ میں لیہ کے آ خری اسسٹنٹ کمشنر کنور شو سنگھ تھے 1947 میںقیام پا کستان کے بعد پہلے اسسٹنٹ کمشنر خان احمد خان ترین مقرر ہو ئے ۔ لیہ تحصیل میں خد مات انجام دینے والے اسسٹنٹ کمشنر صاحبان میں سید محمد قا سم رضوی ، مسٹر ذکا ء اللہ نا ئیک اور ڈاکٹر لیا قت نیازی جیسے علم دوست اور سماج دوست افسران بھی شا مل ہیں ۔ ما ضی آ شنا لوگ آ ج بھی مسٹر ذ کا ء اللہ نا ئیک کو یاد کرتے ہیں جن کے دور میں لیہ کو پھو لوں اور رو شنیوں کا شہر کہا جا تا تھا ۔اس زما نے کے بلد یا تی سیا ست کے کچھ لو گوں میں جو لوگ مجھے یاد ہیں ان میں شیخ غلام محمد انصاری اور شیخ نصیر احمد پراچہ سر فہرست ہیں ۔ جنو بی صدر بازار میں قائم شمیم جزل سٹور کے مالک شیخ غلام محمد انصاری اس زما نے میں خا صے متحرک تھے کو نسلر اور چیئرمین بھی رہے خاصے نفیس ، اور ذہین کا روباری انسان تھے ان کی شاپ شمیم جزل سٹور اس زما نے میں سٹیٹس سمبل ہوا کرتی تھی اور شیخ نصیر احمد پرا چہ تحریک پا کتان کے کارکن تھے اور ایک معروف کاروباری۔
لیہ میں چو بارہ روڈ پر قا ئم ہو نے والا پہلا پی ایس او پٹرول پمپ انہی کا تھا بلد یا تی الیکشن میں خا صے متحرک رہے مجھے یاد ہے کہ انہوں نے ایک بار صو با ئی انتخا بات میں بھی حصہ لیا مو لانا احتشام الحق تھا نوی کے معتقدین میں سے تھے نصیر پراچہ ایک فعال سیا سی کارکن بھی تھے ان کی جناح ویلفیئر سو سا ئٹی اس زما نے کی ایک فعال سما جی تنظیم تھی ، مرحوم نصیر احمد پراچہ سے مجھے اپنے اخبار صبح پا کستان کے لئے انٹر ویو کر نے کا بھی مو قع ملا ۔ اس تفصیلی انٹر ویو میں مر حوم نے تحریک پا کستان اور قائد اعظم کے ساتھ اپنی وابستہ یادوں کو بیان کیا تھا ۔ سقو ط ڈھا کہ کے حوالے سے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں اتنے جذ با تی ہو ئے کہ آ نکھوں سے آ نسو بہنے لگے اور کا فی دیر تک وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا ئے۔
اقبال نے کہا تھا کہ “فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا “کچھ یہی حالا ت تھے ہمارے ۔پٹرول پمپ کی ملاز مت سے بھی جی جلد اکتا گیا ۔ اس کام میں یکسا نیت سی تھی بس آ ئو اور تیل بھرتے رہو سارے دن کی طویل ڈیو ٹی کے بعد رات ڈھلے جب چھٹی ہو تی تو پا ئوں میں اتنی جان نہیں ہو تی تھی کہ پیدل اسلم موڑ تک جا یا جا سکے لیکن اس پٹرول پمپ کی ملازمت سے مجھے لوگوں سے ملنے اور ان سے استفادہ کر نے کا مو قع ملا میرا خیال ہے کہ اگر کو ئی انسا نوں کو تھوڑا بہت جا ننے کا سلیقہ سیکھنا چا ہتا ہے تو وہ ہوٹل یا پٹرول پمپ کی نو کری کر لے انسان شنا سی میں کمال مہارت حا صل ہو جا ئے گی ۔ انسا نوں کی اس بستی میں انسا نوں کا جاننا انسان کے لئے بہت ضروری ہے ۔ لیکن اس کتاب دنیا کا باب” حضرت انسان ” اتنا پیچیدہ اور دشوارہے کہ اسے چا ہے جتنا پڑھ لو اتنا ہی الجھتا جا ئے گا۔
انجم صحرائی