مہمان کالم .کمیٹی ڈال دو بھائی … مقبول الٰہی
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے آبائی انتخابی حلقہ میانوالی سے بائی روڈ اگر مدینتہ الاولیا ملتان جو ہوسکتا ہے ...
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے آبائی انتخابی حلقہ میانوالی سے بائی روڈ اگر مدینتہ الاولیا ملتان جو ہوسکتا ہے ...
لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...
Read moreDetails
تین برسوں بعد ملاقات کا اثر تھا یا حالات کا نتیجہ۔یا پھر غلام رسول اصغر کی نصف صدی سے چند برس کم عمر کے ا ثرات چہرے پر وہ چمک ماند تھی مگر لہجہ کی تازگی ۔ مضبوطی غلام وارادہ کی حوصلگی نے مجھے احساس دلایا کہ عمر و حالات سے مقابلہ کی جنگ آج بھی غلام رسول اصغر اسی توانائی و قوت سے لڑرہا ہے جس کا آغاز 35برس قبل کیا تھا۔بستر پر موجودجواں ہمت نے ا پنے صاحب فراش ہونے کی بابت آف ااینڈ دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے بتایا جب وہ بول رہے تھے تو ان کے لفظ ،لفظ، نہیں میری روح و جسم میں تیر بن کر ببوست ہورہے تھے جن سے خون تو نہیں رس رہا تھا مگر دور کی شدت اپنے عروج پر تھی۔خاندہ شریک حیات اور صاحب اولاد غلام رسول اصغر نے اپنا دکھ اس انداز میں بیان میں کیاکہ اس کے خلاف ا لزام عائد کرنے ۔کہانی بنانے اور داستان بنا کر تشہیر کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ایک گھڑی رک کر نہ دیکھا کسی نے قانون نافذ کرنے والوں سے میر ے زخمی ہونے کی فائل میں درج کرداروں کی اصلیت دریافت نہ کی۔بے گناہ شہری کو اور ایک شریف مگر ان کا جرم غریب ہونا تھا کو اپنی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھانے والوں نے حقیقت کی کھوج کی اور نہ یہ سوچا کہ الزام بہتان تراشی سے کسی کوکتنا نقصان پہنچ سکتا ہے جسکی تلافی کوئی کرنا بھی چاہے تو نہیں ہوسکتی۔غلام رسول اصغر بستر علالت پر بھی اسی طرح بول رہا تھا جیسا وہ جلسہ گاہو ں میں سٹیج پرمجمع اور مائیک کے سامنے بات کرتاتھا،کمپرومائز نہ کرنا ،حالات کا مقابلہ کرتا ،کسی کو بھاتا اور کسی کھٹکتا ۔جب گرا تو سب نے اپنی اپنی بھڑاس نکالی۔جس کا جتنا ظرف تھا اس نے اتنی بڑی کبانی تراشی ۔ سٹوری بنائی ۔پھر اسے پھیلایا۔اسکی تشہیر کی۔
میرے چاہنے والوں کے سامنے میری تصویر کشی اس طرح کی کہ پکچر پر اجلی سطح باقی نہ رہے،وہ جن کے خلاف سیاسی زبان بولتا تھا وہ پیش پیش تھے، مگر دکھ تو یہ ہے کہ جن کا صدر تھا وہ بھی اپنا غبار نکال رہے تھے، عیادت کرنے آئے جاتے ہوئے الزامات کی دستان چھوڑگئے، اللہ بھلا کر ے جھوٹ لکھنے ، چھاپنے اور پھیلانے والوں کا، لفظ اور لہجے میں قائم رشتہ ٹوٹے بغیر یوں گویا کہ پیارے بھائی ڈاکٹر شوکت حسین شاہ نے علاج کے لئے لاہور کسی بڑے ڈاکٹر کے پاس بھیجا ، معائنہ کے بعد کچھ بتانے سے پہلے میرے بھائی ، بیٹے سے کہاکہ غلام رسول اصغر کو گاڑی میں بٹھا آؤ، میں سجھ گیا کہ کہ مجھے بتانا نہیں چاہتے، ڈاکٹرسے کہا کہ جس حالت میں ہوں اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے، آپ میری کیفیت بتائیں تو ڈاکٹر نے کہا کہ تم ٹھیک نہیں ہو سکتے، جوابا کہامایوس نہیں ہوں میرا اللہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ ایک اور بڑے ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے پھر سفر کیا تو اس کی علاج گاہ نصیحت و ہدایات سے سجی ہوئی تھی مگر دو دن سفر کرکے جاتا رہا، 38ہزار روپے بھی خرچ ہو گئے مگر ڈاکٹر نے ٹائم ہی نہیں دیا، پر یس کلب چوک اعظم نے صوبائی حکومت سے سرکاری سطح پر علاج کرانے کا مطالبہ کیا۔کوئی بات نہیں شکر ہے سرکار ی امدا د کے بغیر پہلے بھی اور بعد میں بھی زندہ ہوں۔شکر ہے مالک کائنات کا کہ وہ مشکلات ختم کرنے والا ہے مجھے امید ہے رب کائنات پر ایک مرتبہ پھر زندگی کی دوڑ میں شریک ہوں گا۔انکار کے باوجود ابن غلام رسول اصغر نے چائے سے تواضع کی ۔دعائیہ کلمات کے ساتھ ایک دوسرے کو الواداع کہا چلتے چلتے میر ملاقات انجم صحرائی نے برادر غلا م رسول اصغر سے علیحدگی میں ملاقات کی خواہش کی ۔اس احساس کے ساتھ واپس ہوئے کہ ہم میڈیا ورکر ، قلم کار ، شاعر ، ادیب خود کتنے بڑے ظالم ہیں کہ ان حکمرانوں سے مدد کے متمنی ہیں کہ جوجعلی واوچرز بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔جو کتوں ، اونٹوں کے دنگل کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔جنہیں اپنی محفلوں سے فرصت نہیں انہیں کیا خاک غلام رسول اصغر کا احساس ہوگا۔نہ جانے کتنے غلام رسول اصغر اونچے محلات کے مکینوں کی توجہ کے انتظار میں خاک نشین ہوگئے۔قلمکار ساتھیو، میڈیا ورکرو، تمہارا رب تم سے قر ض مانگ رہا ہے تاکہ وہ کئی گنا بڑھا کر واپس کردے۔اپنے رب کو قرض نہیں دیتے ہوتو آپس میں ہی کمیٹی ڈال لو بھائی ۔کمیٹی ڈال لو بھائی۔شام و سحر کا سفر تو جاری ہے ۔کمیٹی ڈال لو بھائی ۔