وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے آبائی انتخابی حلقہ میانوالی سے بائی روڈ اگر مدینتہ الاولیا ملتان جو ہوسکتا ہے کہ آنے و الے دنوں میں جنوبی پنجاب صوبہ کا ممکنہ ہیڈ کوارٹر بن جائے، جانے کا اتفاق ہوتو چھوٹے بڑے قصبات و شہروں جن میں سرائے مہاجر (سرائے کرشنا)، پلی آصف ، اڈا 217، پکٹ 234، زندہ دلان فتح پور ، قاضی آبادسے ہوتے ہوئے آپکی گاڑی پھیلتے پھولتے شہر میں پہنچا دیگی۔جس کی رونقیں ، کاروبار، پھیلی آبادیاں، ایم ایم روڈ کے اطراف میں قائم بازار ، شاپس اور ان دکانوں کے آگے موجودتجاوزات اور سڑک کے عین اوپر ہتھ ریڑھی والے دکاندار کم مزدور اپنے پیٹ کے ذوزخ کو بھرنے کیلئے روزی کی تلاش میں دن بھر چھوٹی بڑی گاڑیوں کے شمالاً جنوباً آتے جاتے ٹائروں کی رگڑ کے نتیجہ میں اڑنے والی مٹی گرد جس میں ہر قسمی آئرن سے لیکر متوازن غذا کے تما م اجزا صرف کھائے ہی نہیں جاتے بلکہ نتھنوں کے ذریعہ سے پھپھڑوں میں بھی سموئے جاتے ہیں۔اس گلشن میں سیر وسیاحت کا سفر دن رات ، سردی گرمی ، بہار ، خزاں کی تمیز کے بغیر جاری رہتا ہے۔سبزی ، گوشت ، فروٹ کی موبائیل شاپس (تجاوزات والے آئے روز انہیں دھکیل دیتے ہیں ۔جنکے جانے کے بعد یہ واپس اپنی اپنی جگہوں پر آجاتے ہیں )کو کراس کرتے ہیں تو یہاں کے شہریوں کے زندہ دل ۔بالغ نظر اور وطن سے محبت کی بھرپور نشانی کے طور پر مزار قائد اور مینار پاکستان کا مشترکہ ماڈل کراچی سے خیبر تک اور لیہ نشیب سے واہگہ بارڈر تک آنے جانے والے مسافروں کو زبان حال سے پیغام دے رہا ہے ۔ماڈل چوک تک پہنچنے کیلئے دائیں بائیں اطراف میں سرکاری اداروں کی مہربانیوں سے قائم جھیلوں کو پل صراط کی مانند عبور کرنا پڑتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ چوک اعظم ،تھل کی سرزمین لیہ کا گیٹ وے ہے۔چوک اعظم سامنے آتے ہی چوک اعظم سے جڑی یادیں بھی ایک ایک کرکے زندہ ہونے لگیں۔کھیل کے دنوں میں مسلم ہائی سکول کے ریگستانی گراؤنڈ ، پڑھنے کے ایام میں چوک اعظم کے دوستوں کے ساتھ گپ شپ، سید شبیر شاہ، چوہدری علی اختر، ڈاکٹر رحمت اللہ، ڈاکٹر صوفی نور محمد اور کتنی ہی شخصیات کے سامنے بیٹھنے ۔انہیں سماعت کرنے سیکھنے کا موقع ملا.
پرائیویٹ اور گورنمنٹ اداروں کی نوکری سے دل بھرا تو من کی پیاس بجھانے کیلئے قلم کا غد سے ایسا رشتہ جڑا کہ اب خیال آتا ہے کہ میرے ترکہ میں چند پرانے کاغذوں کے علاوہ کیا ہے۔عملی زندگی کے ابتدائی دنوں میں جن سے پیار محبت ملا ان میں غلام رسول اصغر سب سے اولین ہے۔پروفائل میں درج تاریخ پیدائش کے سال کو ا گر نکال دیا جائے تو غلام ر سول اصغر سے پیا ر کا سفر 26برس قبل شروع ہوا۔جب بھی ملاقات ہوتی ہمیشہ محبتوں کا تبادلہ۔کسی تکلف کے بغیر نشست و برخاست ۔مقامی حالات اور ان کے ذمہ داران پر کڑھن کے جملوں کا تبادلہ۔مسائل سے ناپید اور صرف نظرکیے حضرت انسان کی زندگی کو کس طرح سہل بنایا جائے کے حوالے سے ضروری خیالات کو خبریں کے صفحات پر منتقل کرنے کی بات پر ملاقات شرو ع ہوکر اختتام پذیر ہوتی۔وہ سفر تو ہمیشہ ہی یاد گار رہے گا کہ جب’’ خبریں‘‘ پروگرام میں شرکت کیلئے غلام رسول اصغر ، عابد حسین کھرل اور راقم نے ایک ہی سیٹ پر الحمرا حال لاہور کا سفر کیا ۔ایک ہی ادارہ میں کام کرنے کی بنا پر عابد حسین کھرل سے تو اکثر ملاقات ہوتی ہے مگر وقت کی دھول ، مسائل کے بڑھتے ہوئے سمندر میں غرق ہونے کی وجہ سے غلام رسول اصغر کے پاس جانے کا تفاق تو نہ ہوا البتہ گاہے بگاہے مختلف تقاریب میں اکٹھے ہوتے خیر خیریت اہل و عیال بارے تبادلہ خیال ہوتا۔
موبائل فون ، فیس بک، وٹس ایب کی جدید سہولیات نے باہمی رابطوں کو ایک طرح سے کاٹ سا دیا ہے اور یہی کچھ غلام رسول اصغر کے ساتھ بھی ہوا کہ ان سے باقاعدہ ملاقات نہ رہی۔اتوار کی دوپہر چوک اعظم پریس کلب کی حلف برداری کے بعد غلا م رسول اصغر سے ملاقات کیلئے ان کی رہائش گاہ تک پہنچنے کیلئے شہر کے آخری حصہ جس کے سامنے سبز لہلہاتے کھیت کسی دیہی آبادی کی خبر دے رہے تھے کہ چوک اعظم شہر کا حجم اب وارڈ سے نکل کردیہات پر محیط ہوچکا ہے۔صاحب احترام سینئر صحافی انجم صحرائی کی طرف سے مہیا کی گئی سفر ی سہولت میں شریک سفر محسن عدیل چوہدری کے ہمراہ غلا م رسول اصغر اپنے گھر کے مہمان خانہ میں بستر پر لیٹے ۔رضائی میں لپٹے انتظار کررہے تھے۔پہلے کی طرح گرمجوشی سے اٹھ کر گلے ملنا ۔پرتپاک انداز میں شیک ہینڈ کرنا چاہتے تھے مگر اپنی خواہش کو تکمیل کے دامن میں سمیٹ نہ سکے۔انجم صحرائی نے سب سے پہلے اور آخر میں مصافحہ کرنے کا اعزاز راقم کے حصہ میں آیا ۔برابر کے پلنگ پر آنے والے اس طرح نشست گاہ ہوئے کہ ایک طرف انجم صحرائی کی بزرگی اور دوسری طرف محسن عدیل چوہدری کی جسامت، راقم حفظ مراتب کا لحاظ کرتے ہوئے مہمان شخصیات کے وسط اس طرح دبکا بیٹھا رہا کہ ایک طرف گستاخی، دوسری طر ف بدتمیزی کا خدشہ۔میزبان غلام رسول اصغر اور مہمانوں کے درمیان چھوٹی سی میز حائل تھی۔اس میزپر رکھی ادویات صاحب خانہ کی شامل خوراک کی اجزا کی نشاندہی کررہی تھیں۔
تین برسوں بعد ملاقات کا اثر تھا یا حالات کا نتیجہ۔یا پھر غلام رسول اصغر کی نصف صدی سے چند برس کم عمر کے ا ثرات چہرے پر وہ چمک ماند تھی مگر لہجہ کی تازگی ۔ مضبوطی غلام وارادہ کی حوصلگی نے مجھے احساس دلایا کہ عمر و حالات سے مقابلہ کی جنگ آج بھی غلام رسول اصغر اسی توانائی و قوت سے لڑرہا ہے جس کا آغاز 35برس قبل کیا تھا۔بستر پر موجودجواں ہمت نے ا پنے صاحب فراش ہونے کی بابت آف ااینڈ دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے بتایا جب وہ بول رہے تھے تو ان کے لفظ ،لفظ، نہیں میری روح و جسم میں تیر بن کر ببوست ہورہے تھے جن سے خون تو نہیں رس رہا تھا مگر دور کی شدت اپنے عروج پر تھی۔خاندہ شریک حیات اور صاحب اولاد غلام رسول اصغر نے اپنا دکھ اس انداز میں بیان میں کیاکہ اس کے خلاف ا لزام عائد کرنے ۔کہانی بنانے اور داستان بنا کر تشہیر کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ایک گھڑی رک کر نہ دیکھا کسی نے قانون نافذ کرنے والوں سے میر ے زخمی ہونے کی فائل میں درج کرداروں کی اصلیت دریافت نہ کی۔بے گناہ شہری کو اور ایک شریف مگر ان کا جرم غریب ہونا تھا کو اپنی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھانے والوں نے حقیقت کی کھوج کی اور نہ یہ سوچا کہ الزام بہتان تراشی سے کسی کوکتنا نقصان پہنچ سکتا ہے جسکی تلافی کوئی کرنا بھی چاہے تو نہیں ہوسکتی۔غلام رسول اصغر بستر علالت پر بھی اسی طرح بول رہا تھا جیسا وہ جلسہ گاہو ں میں سٹیج پرمجمع اور مائیک کے سامنے بات کرتاتھا،کمپرومائز نہ کرنا ،حالات کا مقابلہ کرتا ،کسی کو بھاتا اور کسی کھٹکتا ۔جب گرا تو سب نے اپنی اپنی بھڑاس نکالی۔جس کا جتنا ظرف تھا اس نے اتنی بڑی کبانی تراشی ۔ سٹوری بنائی ۔پھر اسے پھیلایا۔اسکی تشہیر کی۔
میرے چاہنے والوں کے سامنے میری تصویر کشی اس طرح کی کہ پکچر پر اجلی سطح باقی نہ رہے،وہ جن کے خلاف سیاسی زبان بولتا تھا وہ پیش پیش تھے، مگر دکھ تو یہ ہے کہ جن کا صدر تھا وہ بھی اپنا غبار نکال رہے تھے، عیادت کرنے آئے جاتے ہوئے الزامات کی دستان چھوڑگئے، اللہ بھلا کر ے جھوٹ لکھنے ، چھاپنے اور پھیلانے والوں کا، لفظ اور لہجے میں قائم رشتہ ٹوٹے بغیر یوں گویا کہ پیارے بھائی ڈاکٹر شوکت حسین شاہ نے علاج کے لئے لاہور کسی بڑے ڈاکٹر کے پاس بھیجا ، معائنہ کے بعد کچھ بتانے سے پہلے میرے بھائی ، بیٹے سے کہاکہ غلام رسول اصغر کو گاڑی میں بٹھا آؤ، میں سجھ گیا کہ کہ مجھے بتانا نہیں چاہتے، ڈاکٹرسے کہا کہ جس حالت میں ہوں اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے، آپ میری کیفیت بتائیں تو ڈاکٹر نے کہا کہ تم ٹھیک نہیں ہو سکتے، جوابا کہامایوس نہیں ہوں میرا اللہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ ایک اور بڑے ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے پھر سفر کیا تو اس کی علاج گاہ نصیحت و ہدایات سے سجی ہوئی تھی مگر دو دن سفر کرکے جاتا رہا، 38ہزار روپے بھی خرچ ہو گئے مگر ڈاکٹر نے ٹائم ہی نہیں دیا، پر یس کلب چوک اعظم نے صوبائی حکومت سے سرکاری سطح پر علاج کرانے کا مطالبہ کیا۔کوئی بات نہیں شکر ہے سرکار ی امدا د کے بغیر پہلے بھی اور بعد میں بھی زندہ ہوں۔شکر ہے مالک کائنات کا کہ وہ مشکلات ختم کرنے والا ہے مجھے امید ہے رب کائنات پر ایک مرتبہ پھر زندگی کی دوڑ میں شریک ہوں گا۔انکار کے باوجود ابن غلام رسول اصغر نے چائے سے تواضع کی ۔دعائیہ کلمات کے ساتھ ایک دوسرے کو الواداع کہا چلتے چلتے میر ملاقات انجم صحرائی نے برادر غلا م رسول اصغر سے علیحدگی میں ملاقات کی خواہش کی ۔اس احساس کے ساتھ واپس ہوئے کہ ہم میڈیا ورکر ، قلم کار ، شاعر ، ادیب خود کتنے بڑے ظالم ہیں کہ ان حکمرانوں سے مدد کے متمنی ہیں کہ جوجعلی واوچرز بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔جو کتوں ، اونٹوں کے دنگل کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔جنہیں اپنی محفلوں سے فرصت نہیں انہیں کیا خاک غلام رسول اصغر کا احساس ہوگا۔نہ جانے کتنے غلام رسول اصغر اونچے محلات کے مکینوں کی توجہ کے انتظار میں خاک نشین ہوگئے۔قلمکار ساتھیو، میڈیا ورکرو، تمہارا رب تم سے قر ض مانگ رہا ہے تاکہ وہ کئی گنا بڑھا کر واپس کردے۔اپنے رب کو قرض نہیں دیتے ہوتو آپس میں ہی کمیٹی ڈال لو بھائی ۔کمیٹی ڈال لو بھائی۔شام و سحر کا سفر تو جاری ہے ۔کمیٹی ڈال لو بھائی ۔