حرف حرف خوشبو
مصنف ۔شمشاد سرائی
تبصرہ ۔ محمد عمر شاکر
حرف حرف خوشبو کا انتساب دھرتی کے ان مظلوم و محروم انسانوں کے نام کیا گیا ہے جن کا بھرے جہاں میں کوئی پرسان حال نہیں
کتاب کا دیباچہ استاد امان اللہ کاظم نے لکھا جوکہ عکس تحریر ڈاکٹر خیال امروہی ہے ڈاکٹر خیال امروہی مرحوم کے خیالات شمشاد سرائی کے ذوق علمی کے بارے جو لکھے گے انہیں بھی کتاب میں شائع کیا گیاہے آغا نور محمد پٹھان سابق ریذیڈنٹ ڈائریکٹر اکادمی ادبیات پاکستان صوبہ سندھ نے شمشاد سرائی کی شاعری کے بارے مفصل رائے دی جس میں سے مختصر یہ ہے کہ شمشاد سرائی کی شاعری کو آزادی کا وہ بلند گیت قرار دیا ہے جس کی آواز صحراؤں اور پہاڑوں میں خوشبو کیساتھ گونجتی ہے جہاں اس خدا کی مخلوق کے نظام بندگی کو بدل کر نظام زندگی میں بدل دیا گیا ہے اور من تو کی منافقانہ حاکمیت کی وہ مزمت کرتے ہیں
دختر نسیم لیہ آئینہ مثال انچارج خواتین ایڈیشن روز نامہ خبریں لاہور نے میاں شمشاد سرائی کو تھل کی مہکتی مٹی کا تخلیق کار صبح امید کا ستارہ قرار دیا ڈاکٹر حمید الفت ملغانی نے سرائی خاندان کی لیہ میں ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ حرف حرف خوشبو میں وسیب کی تہذیب و ثقافت کی جھلک واضح نظر آتی ہے ڈاکٹر گل عباس اعوان نے شمشاد سرائی کو انسان اور انسانیت سے پیار کرنے والا شاعر قرار دیا ہے ڈاکٹر پروفیسر مزمل حسین نے شمشاد سرائی کی شاعری کہ اس امتیازی پہلو کو سراہایا ہے کہ سرائی کی شاعری میں سرائیکی وسیب سے جڑت اور خانوادہ رسول ﷺ سے وابستگی بڑے حوالے کے طور پر جگہ جگہ دکھائی دیتی ہے شمشاد سرائی کی غیر مطبوعہ تین صدائے ریگزار (تاریخ ادب لیہ ۔نثر )پندھ پیت دے (سرائیکی مجموعہ کلام )تاریخ لیکھی (عہد کلھوڑہ کا سنہری باب ) غیر مطبوعہ کتب ہیں
۔شمشاد سرائی