حسد کا موثر ترین علاج
تحریر: افضال احمد
حسد کی حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو دیکھا کہ اس کو کوئی نعمت ملی ہوئی ہے۔ اس نعمت کو دیکھ کر اس کے دل میں جلن اور کڑھن پیدا ہوئی کہ اس کو یہ نعمت کیوں مل گئی اور دل میں یہ خواہش ہوئی کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے تو اچھا ہے‘ مثلا اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو مال و دولت دیا، یا کسی کو صحت کی دولت دی، یا کسی کو شہرت دی، یا کسی کو عزت دی، یا کسی کو علم دیا، اب دوسرے شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ یہ نعمت اس کو کیوں ملی؟ اس سے یہ نعمت چھن جائے تو بہتر ہے اور اس کے خلاف کوئی بات آتی ہے تو وہ اس سے خوش ہوتا ہے اور اگر اس کی ترقی سامنے آتی ہے تو اس سے دل میں رنج اور افسوس پیدا ہوتا ہے دراصل یہ حسد ہے۔
اب اگر حسد کی اس حقیقت کو سامنے رکھ کر غور کرو گے تو یہ نظر آئے گا کہ حسد کرنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتراض کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت اس کو کیوں دی؟ مجھے کیوں نہیں دی؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر اعتراض کر رہا ہے‘ قادر مطلق پر اعتراض کر رہا ہے۔ اپنے محسن اور منعم پر اعتراض کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ یہ خواہش کر رہا ہے کہ یہ نعمت کسی طرح اس سے چھن جائے۔ ارے بھئی! آپس میں محبت پیدا کرو دوسروں کی خوشی میں کھلے اور صاف دل سے شامل ہو۔
استاد تقی صاحب فرماتے ہیں حسد کے تین درجات ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ دل میں یہ خواہش ہو کہ مجھے بھی ایسی نعمت مل جائے اب اگر اس کے پاس رہتے ہوئے مل جائے تو بہت اچھا ہے ورنہ اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے‘ یہ حسد کا پہلا درجہ ہے۔ حسد کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ جو نعمت دوسرے کو ملی ہوئی ہے وہ نعمت اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے۔ اس میں پہلے قدم پر یہ خواہش ہے کہ اس سے وہ چھن جائے اور دوسرے قدم پر یہ خواہش ہے کہ مجھے مل جائے۔ حسد کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ دل میں یہ خواہش ہے کہ یہ نعمت اس سے کسی طرح چھن جائے اور اس نعمت کی وجہ سے اس کو جو امتیاز اور جو مقام حاصل ہوا ہے اس سے وہ محروم ہو جائے پھر چاہے وہ نعمت مجھے ملے یا نہ ملے یہ حسد کا سب سے رزیل ترین، ذلیل ترین، خبیث ترین درجہ ہے۔
سب سے پہلے حسد کرنے والا ابلیس ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ میں اسے زمین میں خلافت عطا کروں گا‘ اپنا خلیفہ بناؤں گا اور پھر حضرت آدمؑ کو یہ مقام عطا فرمایا کہ فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ بس یہ حکم سن کر یہ ابلیس جل بھن گیا کہ ان کو یہ مقام مل گیا اور مجھے نہ ملا اور اس کے نتیجے میں سجدہ کرنے سے انکار کر دیا، لہٰذا سب سے پہلے حسد کرنے والا بھی شیطان ہے اور شیطان کا کیا حال ہوا سب کے سامنے ہے۔
حسد کی بیماری کا سبب کیا ہوتا ہے؟ اور یہ بیماری کیوں دل میں پیدا ہوتی ہے؟ اس کے دو سبب ہوتے ہیں ۔ اس کا ایک سبب دنیا کے مال و دولت کی محبت ہے اور منصب کی محبت ہے، اس لئے کہ انسان ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ میرا مرتبہ بلند رہے‘ میں اونچا رہوں۔ اب اگر دوسرا شخص آگے بڑھتا ہے تو یہ اس کو گرانے کی فکر کرتا ہے اور اس بیماری کا دوسرا سبب ’’بغض‘‘ اور ’’کینہ‘‘ ہے مثلاً کسی سے دل میں بغض اور کینہ پیدا ہو گیا اور اس بغض کے نتیجے میں اس کی راحت سے سے تکلیف ہوتی ہے اور اس کی خوشی سے رنج ہوتا ہے۔ جب دل میں یہ دو باتیں ہوں گی تو اس کے نتیجے میں لازماً حسد پیدا ہو گا۔
یہ سب اللہ کی تقسیم ہے۔ کہاں تک حسد کرو گے؟ کہاں تک دوسروں کی نعمتوں پر غم زدہ ہو گے؟ اس لئے کہ یہ بات تو پیش آئے گی کہ کوئی شخص کسی نعمت میں تم سے آگے بڑھا ہوا نظر آئے گا اور کوئی شخص کسی دوسری چیز میں تم سے آگے بڑھا ہوا نظر آئے گا لہٰذا سب سے زیادہ اس بات کا تصور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو اپنی حکمت اور مصلحت سے تقسیم فرمایا ہے اور اس مصلحت اور حکمت کو ہم سب سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اس لئے ہم بہت محدود دائرے میں سوچتے ہیں‘ ہماری عقل محدود‘ ہمارا سوچنے کا دائرہ محدود اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پوری کائنات کو محیط ہے وہ یہ فیصلے فرماتے ہیں کہ کس کو کیا چیز دینی ہے؟ اور کس کو کیا چیز نہیں دینی ہے؟ بس اس پر غور کرو گے تو اس کے ذریعہ حسد کا مادہ ختم ہو گا اور حسد کی بیماری میں کمی واقع ہو گی۔
حسد کی بیماری کا علاج یہ ہے کہ وہ شخص یہ تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں اپنی خاص حکمتوں اور مصلحتوں سے انسانوں کے درمیان اپنی نعمتوں کی تقسیم فرمائی ہے کسی کو کوئی نعمت دے دی، کسی کو کوئی نعمت دیدی‘ کسی کو صحت کی نعمت دے دی تو کسی کو مال و دولت کی نعمت دے دی، کسی کو عزت کی نعمت دے دی تو کسی کو حسن و جمال کی نعمت دے دی، کسی کو چین و سکون کی نعمت دے دی اور اس دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کو کوئی نہ کوئی نعمت میسر نہ ہو اور کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔
اردو میں ایک مثل مشہور ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ گنجے کو ناخن نہ دے‘‘ یہ بڑی حکیمانہ مثل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہیں مال و دولت کی نعمت حاصل نہیں ہے‘ اگر تم کو مل جاتی تو ناجانے تم اس کی وجہ سے کیا فساد برپا کرتے اور کس عذاب میں مبتلا ہو جاتے اور اس کی کیسی ناقدری کرتے اور تمہارا کیا حشر ہوتا اب اگر اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت تمہیں نہیں دی ہے تو کسی مصلحت کی وجہ سے نہیں دی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے جس کے پاس جتنا پیسہ ہے وہ اُتنا ہی زیادہ پریشان ہے اور جس کے پاس جتنی زیادہ دنیاوی تعلیم ہے وہ بھی اُتنا ہی زیادہ پریشان ہے کہ تعلیم کے مطابق ملازمت نہیں ملتی۔
حسد کی ساری بیماری اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اپنی طرف دیکھنے کے بجائے دوسروں کی طرف دیکھتا ہے۔ خود اپنے آپ کو جو نعمت حاصل ہے ان کا تودھیان اور خیال ہی نہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی توفیق نہیں مگر دوسروں کی نعمتوں کی طرف دیکھ رہا ہے، اسی طرح اپنے عیوب کی طرف تو نظر نہیں مگر دوسرے کے عیوب تلاش کر رہا ہے۔ اگر انسان اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی ہر وقت نازل ہونے والی نعمتوں کا شکر ادا کرے تو پھر دوسرے پر کبھی حسد نہ کرے تم کیسی بھی حالت میں ہو‘ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تمہیں نعمتوں کی ایسی بارش میں رکھا ہے اور صبح سے شام تک تمہارے اوپر نعمتوں کی بارش برسا رہا ہے کہ اگر تم اس کا تصور کرتے رہو تو دوسروں کی نعمت پر کبھی جلن پیدا نہ ہو۔
آج کل ہمارے معاشرے میں لوگوں کو دوسروں کے معاملات میں تحقیق اور تفتیش کرنے کا بڑا ذوق ہے‘ مثلاً فلاں آدمی کے پاس پیسے کس طرح آرہے ہیں؟ کہاں سے پیسے آرہے ہیں؟ وہ کیسا مکان بنوا رہا ہے؟ وہ کیسی کار خرید رہا ہے؟ اس کے حالات کیسے ہیں؟ ایک ایک کا جائزہ لینے کی فکر ہے اور پھر اس تفتیش اور تحقیق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی ایسی چیز سامنے آتی ہے جو خوشنما اور دلکش ہے لیکن اپنے پاس موجود نہیں تو پھر اس سے حسد پیدا نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا؟
بزرگوں نے لکھا ہے کہ جب دل میں دوسرے کی نعمت دیکھ کر حسد اور جلن پیدا ہو تو اس کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا کرے کہ یا اللہ یہ نعمت جو آپ نے اس کو عطا فرمائی ہے اور زیادہ عطا فرما! اور جس وقت وہ یہ دعا کرے گا اس وقت اس کے دل پرچھریاں ‘چاقو‘ آرے چلیں گے اور یہ دعا کرنا دل پر بہت شاق اور گراں گزرے گا لیکن زبردستی یہ دعا کرے کہ یا اللہ! اس کو مزید ترقی عطا فرما، اس کی نعمت میں مزید برکت عطافرما اور ساتھ ساتھ اپنے حق میں بھی دعا کرے کہ یا اللہ میرے دل میں اس کی نعمت کی وجہ سے جو کڑھن اور جلن پیدا ہو رہی ہے اپنے فضل و رحمت سے اس کو ختم فرما۔دنیا میں ایسا کام کر کے جاؤ کے لوگ آپ کی موت کے بعد آپ کو اچھے لفظوں میں یاد کریں‘ کوئی ایسا علم چھوڑ جاؤ کہ تمہاری موت کے بعد بھی آپ کیلئے ثواب کا ذریعہ بن جائے نا کہ ایسا علم یا رسم و رواج جو آپ کی موت کے بعد بھی آپ کے لئے گناہ کا باعث بنے۔ مخیر حضرات میرے اصلاحی مضامین کی کتابیں چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کریں اور اپنی‘ اپنے والدین کی آخرت سنواریں کسی ایک انسان کی بھی آپ کی وجہ سے اصلاح ہو گئی تو
آپ کی دنیا و آخرت سنور جائے گی! انشاء اللہ۔