• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

انصاف کاپتھر! محمدعماراحمد

webmaster by webmaster
جنوری 29, 2017
in کالم
0
انصاف کاپتھر!  محمدعماراحمد
انصاف کاپتھر
محمدعماراحمد
منصفِ اعظم ﷺنے فرمایا
’’تم سے پہلے کئی قومیں اس وجہ سے تباہ ہوئیں کہ اگرکوئی کمزورجرم کرتاتوسزادی جاتی اوراگرطاقتورجرم کرتاتواسے چھوڑ دیا جاتا‘‘
ہمارے یہاں بھی یہی صورتحال ہے کہانصاف انہی کے لئے ہے جوطاقتورہیں اورسزاکے حق دارغریب ونادار۔آنجہانی مشرف کے عہدِآمریت میں جب عدلیہ پرقدغن لگائی گئی توقوم نے یک زباں ہوکراس عدلیہ کاہی ساتھ دیا۔افتخارچوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججزنے آمرکے سامنے انکارکے جرم کی پاداش میں نظربندی کاسامناکیا۔پھریوں ہواکہ وکلانے عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع کی۔تحریک کے آغازکے بعدملک بھرکی عوام نے وکلاکاساتھ دیاکہ عدلیہ کی بحالی لازمی ہے۔ تمام طبقات کی مشترکہ جدوجہد کے سبب بالآخرعدلیہ بحالی کی تحریک کامیابی سے ہمکنارہوئی۔مگرکچھ ہی مدت بعدیہ عدلیہ کی نہیں بلکہ شخصیات کی بحالی ثابت ہوئی۔کیوں کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعدمحض زبانی جمع خرچ اوربڑی بڑی اخباری سرخیوں میں ججزکے ’’جرات مندانہ‘‘بیانات کی اشاعت کے سواقوم کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔عدلیہ کے ’’عہدِ افتخار‘‘میں ہی چوٹی زیریں میں حافظ عبداللہ نامی ایک شخص کوایک ہجوم نے تھانے سے نکلواکراسے گلیوں میں گھسیٹااورپھرآگ لگادی۔اوروں کوقانون کی حکمرانی کے بھاشن دینے والی عدلیہ مگرگنگ ہی رہی تھی۔ریمنڈڈیوس،شاہ رخ جتوئی اورسیالکوٹ میں دوبھائیوں پرظلم کرنے والے ظالم اس عدلیہ کے ہاتھوں سے ہی "پارسائی”کی سندلے کرآزادہیں۔پرویزمشرف ، سانحہ 12 مئی ،قصورکے درندہ صفت انسان اوراقلیتوں کی بستیاں جلانے والے سب ہی توآزادہیں۔
عدلیہ کاکام یہ ہے کہ وہ بلاتفریق انصاف کی فراہمی یقینی بنائے ۔عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعدعوام عدلیہ کواپنے تمام دکھوں کامداواسمجھنے لگی تھی۔ملک میں سیاسی وانتظامی بدعنوانیوں کے سبب واحدسہاراعدلیہ تھی مگرعدلیہ عوام کی امنگوں پرپورااترنے میں مکمل طورپرناکام رہی۔لاپتہ افرادکامعاملہ تاحال زیرِالتواہے کیوں کہ سامنے ایک طاقتورفریق ہے ۔حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس صاحب نے کئی باراپنے خطبات وریمارکس میں ملکی نظم ونسق کی زبوں حالی کارونارویا۔سوال مگریہ ہے کہ عدلیہ سمیت باقی ادارے کیاکررہے ہیں اورنظام کی بہتری کی ذمہ داری آخرکس کی ہے ۔؟کیااس ذمہ داری کاکچھ احساس کم ازکم عدلیہ کوبھی ہے کہ نہیں۔؟ملک میں بدامنی،ناانصافی اورظلم وجبرکی صورتحال میں عدلیہ بھی برابرکی ذمہ دارہے۔ دوسرے اداروں کی طرح عدلیہ بھی روایتی بیان بازی اورخانہ پُری کے سواکچھ نہیں کررہی۔ارسلان افتخارکامعاملہ ہویاحاضرسروس جج کے گھرمیں تشددکانشانہ بننے والی طیبہ کا۔عدلیہ کاکرداروہی ہے جودوسرے اداروں کاہے کہ اپنے پیٹی بھائیوں کے "پاک دامن” پرکوئی”داغ” نہ لگنے دیاجائے ۔جس ملک میں منصفوں کی حالت یہ ہوکہ وہ عدلیہ کے وقارکی بجائے شخصی وقارکومدِنظررکھ کرمعاملات کودیکھیں تووہاں کس انصاف کی امیدرکھی جائے ۔
اس طرح کے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ لوگ وفات پاجاتے ہیں اورپھران کے حق میں فیصلہ آتاہے ۔25، 25 سال عمرقید کی سزامکمل کرکے باہرآتے ہیں اورعدالت سے اپناکیس واپس لیتے ہیں۔12سال بعدایک سزائے موت کے قیدی کی قسمت جاگتی ہے اوراس کے بے گناہ ہونے کافیصلہ کیاجاتاہے ۔کچھ ہی روزپہلے لاہورہائیکورٹ میں ایک شخص نے خودکوآگ لگاکرخودکشی کی کوشش کی۔نہایت معمولی کیس بھی اتنے لٹکائے جاتے ہیں کہ لوگ عمربھرعدالتوں کے چکرلگاتے رہتے ہیں۔شریف شرفاہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ عدالت سے واسطہ نہ پڑے اوروجہ نظامِ عدل ہے ۔عدلیہ کواپنے رویوں پرغورکرناچاہئے ۔ججزکاکام انصاف پرمبنی فیصلہ کرناہے نہ کہ بھاشن دینا۔ججزکی زبانیں نہیں فیصلے بولنے چاہئیں کہ عدلیہ بہترکام کررہی ہے ۔انصاف کی بروقت فراہمی کے لئے بارہابیانات تودئے گئے اوراسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاسوں میں بھی اس پرغورکیا گیامگرحالات جوں کے توں ہیں۔سستے اورفوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اورکسی کی شخصیت اورعہدہ کی بجائے عدالتی وقارکومدِنظررکھناچاہئے ۔لوگ ہرطرف سے مایوس ہوکرعدلیہ کی طرف آتے ہیں مگرعدلیہ بھی انصاف کی فراہمی کے لئے کچھ چیزوں کوضروری سمجھتی ہے جن کے بغیرانصاف کاحصول نہایت ہی مشکل ہے ۔احمدندیم قاسمی اپنی مشہورنظم "پتھر”میں عدلیہ کے شرمناک کرداررکی بابت تحریرکرتے ہیں
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا  ہے
مگر ہاتھ میں تیشۂِ زرہوتووہ ہاتھ آتاہے
Tags: column by ammar ahmad
Previous Post

لیہ ۔آ فتاب رند ھاوامرحوم کی نمازہ جنازہ ادا کر دی گئی ۔ پیر سید سبط الحسنین شاہ گیلانی نے نمازہ جنازہ پڑھائی ۔

Next Post

دشت آرزو .. عفت بھٹی

Next Post
دشت آرزو ..   عفت بھٹی

دشت آرزو .. عفت بھٹی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
انصاف کاپتھر محمدعماراحمد
منصفِ اعظم ﷺنے فرمایا ’’تم سے پہلے کئی قومیں اس وجہ سے تباہ ہوئیں کہ اگرکوئی کمزورجرم کرتاتوسزادی جاتی اوراگرطاقتورجرم کرتاتواسے چھوڑ دیا جاتا‘‘ ہمارے یہاں بھی یہی صورتحال ہے کہانصاف انہی کے لئے ہے جوطاقتورہیں اورسزاکے حق دارغریب ونادار۔آنجہانی مشرف کے عہدِآمریت میں جب عدلیہ پرقدغن لگائی گئی توقوم نے یک زباں ہوکراس عدلیہ کاہی ساتھ دیا۔افتخارچوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججزنے آمرکے سامنے انکارکے جرم کی پاداش میں نظربندی کاسامناکیا۔پھریوں ہواکہ وکلانے عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع کی۔تحریک کے آغازکے بعدملک بھرکی عوام نے وکلاکاساتھ دیاکہ عدلیہ کی بحالی لازمی ہے۔ تمام طبقات کی مشترکہ جدوجہد کے سبب بالآخرعدلیہ بحالی کی تحریک کامیابی سے ہمکنارہوئی۔مگرکچھ ہی مدت بعدیہ عدلیہ کی نہیں بلکہ شخصیات کی بحالی ثابت ہوئی۔کیوں کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعدمحض زبانی جمع خرچ اوربڑی بڑی اخباری سرخیوں میں ججزکے ’’جرات مندانہ‘‘بیانات کی اشاعت کے سواقوم کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔عدلیہ کے ’’عہدِ افتخار‘‘میں ہی چوٹی زیریں میں حافظ عبداللہ نامی ایک شخص کوایک ہجوم نے تھانے سے نکلواکراسے گلیوں میں گھسیٹااورپھرآگ لگادی۔اوروں کوقانون کی حکمرانی کے بھاشن دینے والی عدلیہ مگرگنگ ہی رہی تھی۔ریمنڈڈیوس،شاہ رخ جتوئی اورسیالکوٹ میں دوبھائیوں پرظلم کرنے والے ظالم اس عدلیہ کے ہاتھوں سے ہی "پارسائی"کی سندلے کرآزادہیں۔پرویزمشرف ، سانحہ 12 مئی ،قصورکے درندہ صفت انسان اوراقلیتوں کی بستیاں جلانے والے سب ہی توآزادہیں۔ عدلیہ کاکام یہ ہے کہ وہ بلاتفریق انصاف کی فراہمی یقینی بنائے ۔عدلیہ بحالی کی تحریک کے بعدعوام عدلیہ کواپنے تمام دکھوں کامداواسمجھنے لگی تھی۔ملک میں سیاسی وانتظامی بدعنوانیوں کے سبب واحدسہاراعدلیہ تھی مگرعدلیہ عوام کی امنگوں پرپورااترنے میں مکمل طورپرناکام رہی۔لاپتہ افرادکامعاملہ تاحال زیرِالتواہے کیوں کہ سامنے ایک طاقتورفریق ہے ۔حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس صاحب نے کئی باراپنے خطبات وریمارکس میں ملکی نظم ونسق کی زبوں حالی کارونارویا۔سوال مگریہ ہے کہ عدلیہ سمیت باقی ادارے کیاکررہے ہیں اورنظام کی بہتری کی ذمہ داری آخرکس کی ہے ۔؟کیااس ذمہ داری کاکچھ احساس کم ازکم عدلیہ کوبھی ہے کہ نہیں۔؟ملک میں بدامنی،ناانصافی اورظلم وجبرکی صورتحال میں عدلیہ بھی برابرکی ذمہ دارہے۔ دوسرے اداروں کی طرح عدلیہ بھی روایتی بیان بازی اورخانہ پُری کے سواکچھ نہیں کررہی۔ارسلان افتخارکامعاملہ ہویاحاضرسروس جج کے گھرمیں تشددکانشانہ بننے والی طیبہ کا۔عدلیہ کاکرداروہی ہے جودوسرے اداروں کاہے کہ اپنے پیٹی بھائیوں کے "پاک دامن" پرکوئی"داغ" نہ لگنے دیاجائے ۔جس ملک میں منصفوں کی حالت یہ ہوکہ وہ عدلیہ کے وقارکی بجائے شخصی وقارکومدِنظررکھ کرمعاملات کودیکھیں تووہاں کس انصاف کی امیدرکھی جائے ۔ اس طرح کے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ لوگ وفات پاجاتے ہیں اورپھران کے حق میں فیصلہ آتاہے ۔25، 25 سال عمرقید کی سزامکمل کرکے باہرآتے ہیں اورعدالت سے اپناکیس واپس لیتے ہیں۔12سال بعدایک سزائے موت کے قیدی کی قسمت جاگتی ہے اوراس کے بے گناہ ہونے کافیصلہ کیاجاتاہے ۔کچھ ہی روزپہلے لاہورہائیکورٹ میں ایک شخص نے خودکوآگ لگاکرخودکشی کی کوشش کی۔نہایت معمولی کیس بھی اتنے لٹکائے جاتے ہیں کہ لوگ عمربھرعدالتوں کے چکرلگاتے رہتے ہیں۔شریف شرفاہرممکن کوشش کرتے ہیں کہ عدالت سے واسطہ نہ پڑے اوروجہ نظامِ عدل ہے ۔عدلیہ کواپنے رویوں پرغورکرناچاہئے ۔ججزکاکام انصاف پرمبنی فیصلہ کرناہے نہ کہ بھاشن دینا۔ججزکی زبانیں نہیں فیصلے بولنے چاہئیں کہ عدلیہ بہترکام کررہی ہے ۔انصاف کی بروقت فراہمی کے لئے بارہابیانات تودئے گئے اوراسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاسوں میں بھی اس پرغورکیا گیامگرحالات جوں کے توں ہیں۔سستے اورفوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اورکسی کی شخصیت اورعہدہ کی بجائے عدالتی وقارکومدِنظررکھناچاہئے ۔لوگ ہرطرف سے مایوس ہوکرعدلیہ کی طرف آتے ہیں مگرعدلیہ بھی انصاف کی فراہمی کے لئے کچھ چیزوں کوضروری سمجھتی ہے جن کے بغیرانصاف کاحصول نہایت ہی مشکل ہے ۔احمدندیم قاسمی اپنی مشہورنظم "پتھر"میں عدلیہ کے شرمناک کرداررکی بابت تحریرکرتے ہیں
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا  ہے مگر ہاتھ میں تیشۂِ زرہوتووہ ہاتھ آتاہے
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.