مریم جہانگیر کی نئی نسل کے لیے تربیت ساز کہانیاں
مریم اپنی کتاب میں پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ ’’ایک شخص نے بیج تو بویا نہیں ،لیکن وہ روز گملے میں پانی دیتا اور تیز دھوپ میں گملے پر سبز جالی تان دیتا ۔اس کا انتظار ایسا تھا کہ معلوم ہوتا کہ ابھی پھل لگے گا اور وہ بیٹھ کر کھائے گا ۔کچھ ایسی ہی مثال ہماری بھی ہے ۔ہم نسل نو سے امید رکھتے ھیں کہ وہ اردو زبان پر مہارت رکھے ،اس کے استعمال میں طا ق ہو ،ان کا مشاہدہ خوب ہو اور نظر تیز ہو ،بصیرت میں ان کی جب تعریف کی جائے تو ان کی سیرت کے متعلق بھی تعریف کے ڈونگرے برسا ئے جائیں لیکن مسئلہ وہی ہے کہ بیج ہم نے بویا ہی نہیں ‘‘
مریم نے اپنے پیش لفظ میں اس حقیقت سے پردہ چاک کیا ہے جو زندہ ہے اور اسے ہم اپنی بہتری کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔سچ بھی یہی ہے کہ ہم بہت سے آئیڈیاز سوچتے ہیں لیکن اس پر عمل در آمد کرنے لیے عملی طور پر قدم نہیں اٹھاتے ہماری وہی حالت ہے کہ ہم نے اسلام آباد بھی جانا ہے اور سفر بھی نہیں کرنا ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ مسافت کیے بغیر ڈسکہ سے اسلام آباد جایا جائے گا ۔اس کے لیے ہمیں مسافت کا عمل کرنا پڑے گا ۔اور یہی بات مریم اپنی کہانیوں میں نئی نسل کو بتانا اور سکھانا چاہتی ہے ۔
نامور ادیب اور شاعر محمود ظفر اقبال ہاشمی مریم کی کہانیوں بارے لکھتے ہیں کہ
’’بچوں کا ادب امید ،تربیت اور زندگی کا ادب ہے اور مریم نے اسے چن کر اپنا نام بہت چنیدہ قلم کاروں میں لکھوا لیا ہے ‘‘
مریم نے واقعی جاندار اور شاندار کہانیاں لکھ کر اپنا سفر آسان کر لیا ہے اور منزل پہ پہنچنے کی تڑپ میں وہ ہوش و حواس اور سنبھل سنبھل کر چل رہی ہیں۔اس کتاب میں کل 27 کہانیاں شامل ہیں ۔ہر کہانی میں بچوں کے لئیے ایک بہترین سبق موجود ہے اور کہانی کے آخر میں ذرا سوچیے کے عنوان سے اس کہانی میں سے تین سوالات بچوں سے پوچھے گئے ھیں تاکہ ان کی ذہنی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا ہو ۔
پہلی کہانی میں حدیث مبارکہ کے ذریے نماز کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے دوسری میں سمجھایا گیا ہے کہ اپریل فول ہماری روایات کا حصہ نہیں ’’روشنی کا دیا‘‘کے عنوان سے ایک کہانی میں بچوں کے دل میں مسلم اتحاد پیدا کرنے کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش بہت احسن انداز میں کی گئی ہے ۔’’بات ہے سچائی کی‘‘، اس میں دعا کی اہمیت بتائی ہے کہ کہ اللہ کی رضا کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا سبحان اللہ ،اس خوبصورت سوچ کی مالک مریم اگلی کہانی میں حسد کے نقصانات سے آگاہ کرتی نظر آتی ھیں ’’مرا ہوا سانپ‘‘ میں ذکر ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا چاہئیے ۔’’عزم نو ‘‘کے نام سے ظاہر ہے کہ نئے عزم کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ’’ٹیں ٹیں ‘‘ان لوگوں کے لیے جو ظاہری شکل و صورت کو اہمیت دیتے ھیں۔’’ایک پلیٹ‘‘۔’’بھاگی تو نہیں جا رہی ‘‘۔’’ جب نا ممکن بنا ممکن‘‘ بہترین چار نصیحتیں ۔’’ پنکھو ،منکھو ‘‘۔’’چھوٹی سی لاپرواہی ‘‘ پتنگ بازی کے جنوں میں مبتلا بچوں کو ضرور پڑھنی چاہئیے ۔’’صرف پانچ منٹ ‘‘۔’’اناج کے دانے ،کھڑے کان ،بے عزتی ،اناج ،گلہری اور درخت میں بچوں کے لئیے اخلاقی سبق اور سیکھنے کو بہت
کچھ موجود ہے ’’غبارے ‘‘ایک مختصر کہانی مگر اثر انگیز ، ’’جگنو اور بلب‘‘ میں آج کے انسان کی سوچ کو نیچا دکھایا گیا ہے جسے بس میں میں کرنا آتا ہے اور وہ وہ دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے ۔
’’میری امی ،بھرم ،غرور کا قصہ ،اور باجرہ ‘‘ایک سے بڑھ کے ایک خوبصورت کہا نیا ں ھیں ۔جن میں بچوں کے لئیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے ۔جس کے لئیے ہم مریم کے شکر گزار ھیں کہ بچوں کے لئیے اس نے یہ نایاب تحفہ پیش کیا جسے پڑھ کے یقیناًبہت سے ذہن اپنی بگڑی ہوئی سوچ کو سنوار سکیں گے ۔میں سمجھتی ہوں یہ کتاب ہر بچے کو لازمی پڑھنی چاہئیے کہ اس میں ان کے سیکھنے کو بہت کچھ ہے ۔ اور انشاء اللہ ان کو اپنی درست سمت متعین کرنے میں بہت راہنمائی کرے گی ۔
اس پیاری سی مخلص لڑکی کے لئیے دلی دعا ہے کہ یہ اپنے تمام ارادوں اور خواھشات کو پورا کرے اور اپنے قلم کی طاقت سے اپنی شفاف اور مثبت سوچ یونہی تحریر کرتی رہے تاکہ معا شرے کی سوچ کو بدلا جا سکے مریم کامیابیاں ہمیشہ تمہاری منتظر رہیں آمین ۔
ان کی کہانیوں سے کچھ اقتباسات پیشِ خدمت ہیں
’’بلند حوصلوں کی عمارتوں پر ہی کامیابی کی سیڑھیاں ھیں ‘‘
’’دادا ابو نے سمجھایا تھا کہ اللہ کا دھیان کیسے رکھا جاتا ہے ۔بہترین طریقہ ہے کہ نماز پڑھ کر ۔۔۔نماز اللہ کی یاد ہے اللہ سے ملاقات ہے ‘‘
"اچھے دوست کی نشانی یہی ہے کہ وہ غلط راستے پر جانے والے دوست کو گھسیٹ کر ہی سہی ، لیکن راہ راست پر لے ہی آتے ھیں ۔۔۔”
ہماری زندگی کی رہیں متعین کرنے والی ذات اوپر بیٹھی ہے ۔۔۔ہم فقط کٹھ پتلیاں ھیں ۔۔۔ہم صرف اپنی کوشش کر سکتے ھیں ۔۔۔لیکن اس کوشش کے ساتھ دعا بھی لازمی جز ہے ۔۔۔’
” یہ چاروں صوبے اس دھرتی ماں کی پہچان اور اولاد ھیں ۔۔۔ان میں بسنے والے کس رنگ روپ کے ھیں یا کس ذات سے منسلک ھیں ۔۔۔یہ بات بالکل معنی نہیں رکھتی ۔۔۔معنی رکھتا ہے تو صرف یہ کہ یہ چاروں صوبے پاکستان کے ھیں اور اسی نا طے ہر صوبے میں رہنے والے لوگ دوسرے صوبے میں رہنے والے لوگوں کے بھائی ھیں”
"سچ ہی کہا جاتا ہے زندہ سانپ چیونٹیوں کو کھاتا ہے اور مرے ہوے سانپ کو چیونٹیاں کھا جاتی ھیں ۔۔۔”
” تم نے آدھے علم کی وجہ سے آدھی قیامت تو مچا دی۔۔۔تمہیں یہ تو پتہ ہے کہ جس گھر میں کتا ہو ،وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ،لیکن تمہیں یہ بھی پتہ ہونا چاہئیے کہ حفاظت کی غرض سے کتے پا لنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے ” ختم شد