یوم تکبیر ، یومِ تفکر
محمدعماراحمد ‘لیہ
یوں توہم برسوں سے 28مئی کویومِ تکبیرمناتے آرہے ہیں کہ اس دن ہم نے عالمی وعلاقائی غاصبوں کے تمام ترخدشات،تحفظات اوردھمکیوں کے باوجودوطنِ عزیز کودفاعی طورپرمستحکم کرنے کے لئے ایٹمی تجربات کئے ۔پاکستان اسلامی دنیاکی پہلی ایٹمی قوت جبکہ دنیا کی بڑی ایٹمی قوتوں میں سے ایک ہے۔پاکستان نے دنیامیں امن کے لئے اٹھنے والے ہرقدم سے قدم ملایااورعالمی اداروں کے
شانہ بشانہ رہا۔خطے میں اسلحے کی دوڑ کاسبب بھارتی اجارہ داری اورعالمی قوتوں کی بھارت نوازی کاردِعمل ہے۔بھارت اورپاکستان کے ہمیشہ سے ہی تعلقات کشیدہ رہے ہیں اوربدقسمتی سے عالمی طاقتیں بھارت کے زیادہ قریب ہیں ۔بھارت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے مگرپاکستان کی خارجہ پالیسی اورسفارکاری کمزورہے کہ پاکستان اپنامقدمہ مضبوطی سے نہیں لڑپایاحالانکہ ہمارے پاس کئی اہم ثبوت موجودہیں۔حالیہ دنوں میں امریکہ کاہمارے ساتھ تلخ رویہ ،بھارت کونیٹو میں شامل کرنے کی باتیں اوربھارت کوایٹمی اثاثوں میں اضافے کی اجازت یہ سب کچھ ہمارے لئے تشویش ناک ہے ۔پاکستان کی امدادکو کڑی شارئط سے مشروط کردیاگیاہے،ایف16کی عدم فراہمی اورملامنصورپرڈرون حملہ یہ ظاہرکرتاہے کہ آنے والاوقت ہمارے لئے کٹھن ہوسکتاہے۔دوسری طرف ہم خطے میں تنہاہورہے ہیں ،ایران بھارت اورافغانستان کے حالیہ معاہدے اورطالبان کے ایران وروس سے روابط ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں ۔چین سے تعلقات پرہمیں بڑازعم ہے مگر ہم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ چین کے بھارت سے روابط بھی بہتر ہیں اوربھارت سے بھی ہماری طرح کے بلکہ ہم سے بھی زیادہ اقتصادی معاہدے موجود ہیں ۔چین نے مولانامسعوداظہر کے حوالے سے بھارتی قرارداد ویٹو تو کی مگر ہمیں بھی یہ پیغام دیاہے کہ ہم اس طرح کے مسائل خود حل کریں اوریہ بھی کہ پاکستان چین سے اس قدرتوقعات نہ رکھے جس پر ہم پورانہ اترسکیں یا پوراکرنے پرمشکلات کاسامنا کرناپڑے۔
اس28مئی کوہم یومِ تکبیر کی بجائے ’یومِ تفکر‘ کے طورپرمنائیں ۔ہم سوچیں کہ ہماری14,15سالہ دہشتگردی کے خلاف خدمات کاصلہ ہم سے بے رخی وبے اعتنائی کی صورت میں کیوں دیاجارہاہے۔؟ہم امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں مگرامریکہ کمال ڈھٹھائی کے ساتھ یہ اعلان کیوں کررہاہے کہ پاکستان پرڈرون حملے جاری رہیں گے۔؟ہزاروں قربانیوں اوراقتصادی نقصان کے باوجود ہم سے ڈومور کامطالبہ کیوں کیا جارہاہے ۔؟ہم خطے میں تنہاکیوں ہورہے ہیں اور ایران جوہماراتاریخی پڑوسی ہے وہ آج ہمارے مخالف کیمپ میں کیوں جارہاہے۔؟ہم افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت دونوں میں سے کسی کوبھی راضی کیوں نہ کرپائے ۔؟موجودہ انتظامیہ رہی تووہ ہم سے پہلے ہی ناراض اوربھارت کے قریب ہے اوراگرطالبان برسرِ اقتدار آتے ہیں تو وہ بھی ایران کے ذریعے بھارت کے قریب تر ہوگئے توہمارے ہاتھ کیاآئے گا۔؟ ہم ایٹمی قوت توہیں مگر امریکہ،بھارت ،ایران اورافغانستان ہماری سرحدی حدود اورخودمختاری کالحاظ کیوں نہیں رکھتے۔؟امریکہ توامریکہ رہا افغانستان جیسے کمزورملک کارویہ ہم سے ایک حاکم کاساکیوں ہوتاہے۔؟یہ وہ سوال ہیں جوہم جیسی ایٹمی قوت کے لئے لمحہ فکریہ ہیں اوران کے جواب ڈھونڈنا نہایت ضروری اوروقت کااہم تقاضا ہے۔ہمیں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر بہتر پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے اورافغانستان کے مستقبل کودیکھتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار اداکرناچاہئے ۔ڈبل گیم ترک کرکے افغان حکومت اورطالبان میں سے ایک فریق کاانتخاب کرناضروری ہے۔اسی طرح برادر ملک ایران سے تعلقات بھی اہم ہیں اورہمیں اپنے اس پڑوسی کومخالف کیمپ میں جانے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔برابری کی بنیاد پربھارت اورامریکہ سے تعلقات قائم کرنے چاہئیں اوراپنی خودمختاری کوہرحال میں مقدم رکھناچاہئے ۔خارجہ پالیسی اورسفارتکاری کومضبوط بنیادوں پراستوارکرکے اپنے مثبت کرداراورپڑوسیوں کے منفی کردار کواجاگرکرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ہمیں خودکواتنامضبوط اور غیرت مند بناناہے کہ کوئی بھی ہماری سرحدوں کے تقدس کوپامال نہ کر پائے اوراگر کوئی ایسا کرے تو اسے منہ توڑ جواب دیاجائے تاکہ وہ یا کوئی اور ملک اس طرح کا قدم اٹھانے سے پہلے لاکھ بار سوچے۔
اس28مئی کوہم یومِ تکبیر کی بجائے ’یومِ تفکر‘ کے طورپرمنائیں ۔ہم سوچیں کہ ہماری14,15سالہ دہشتگردی کے خلاف خدمات کاصلہ ہم سے بے رخی وبے اعتنائی کی صورت میں کیوں دیاجارہاہے۔؟ہم امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں مگرامریکہ کمال ڈھٹھائی کے ساتھ یہ اعلان کیوں کررہاہے کہ پاکستان پرڈرون حملے جاری رہیں گے۔؟ہزاروں قربانیوں اوراقتصادی نقصان کے باوجود ہم سے ڈومور کامطالبہ کیوں کیا جارہاہے ۔؟ہم خطے میں تنہاکیوں ہورہے ہیں اور ایران جوہماراتاریخی پڑوسی ہے وہ آج ہمارے مخالف کیمپ میں کیوں جارہاہے۔؟ہم افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت دونوں میں سے کسی کوبھی راضی کیوں نہ کرپائے ۔؟موجودہ انتظامیہ رہی تووہ ہم سے پہلے ہی ناراض اوربھارت کے قریب ہے اوراگرطالبان برسرِ اقتدار آتے ہیں تو وہ بھی ایران کے ذریعے بھارت کے قریب تر ہوگئے توہمارے ہاتھ کیاآئے گا۔؟ ہم ایٹمی قوت توہیں مگر امریکہ،بھارت ،ایران اورافغانستان ہماری سرحدی حدود اورخودمختاری کالحاظ کیوں نہیں رکھتے۔؟امریکہ توامریکہ رہا افغانستان جیسے کمزورملک کارویہ ہم سے ایک حاکم کاساکیوں ہوتاہے۔؟یہ وہ سوال ہیں جوہم جیسی ایٹمی قوت کے لئے لمحہ فکریہ ہیں اوران کے جواب ڈھونڈنا نہایت ضروری اوروقت کااہم تقاضا ہے۔ہمیں ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ کر بہتر پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے اورافغانستان کے مستقبل کودیکھتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار اداکرناچاہئے ۔ڈبل گیم ترک کرکے افغان حکومت اورطالبان میں سے ایک فریق کاانتخاب کرناضروری ہے۔اسی طرح برادر ملک ایران سے تعلقات بھی اہم ہیں اورہمیں اپنے اس پڑوسی کومخالف کیمپ میں جانے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔برابری کی بنیاد پربھارت اورامریکہ سے تعلقات قائم کرنے چاہئیں اوراپنی خودمختاری کوہرحال میں مقدم رکھناچاہئے ۔خارجہ پالیسی اورسفارتکاری کومضبوط بنیادوں پراستوارکرکے اپنے مثبت کرداراورپڑوسیوں کے منفی کردار کواجاگرکرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ہمیں خودکواتنامضبوط اور غیرت مند بناناہے کہ کوئی بھی ہماری سرحدوں کے تقدس کوپامال نہ کر پائے اوراگر کوئی ایسا کرے تو اسے منہ توڑ جواب دیاجائے تاکہ وہ یا کوئی اور ملک اس طرح کا قدم اٹھانے سے پہلے لاکھ بار سوچے۔