ڈاکٹرنَجمہ شاہینؔ کھوسہ کا نام اردو شاعری کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔05؍دسمبر 1973ء کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی جس کے بعد نشتر میڈیکل کالج ملتان میں داخلہ لیا۔ 1996ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا اور ہاؤس جاب کے دوران ہی شاعری کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد نجمہ شاہین کھوسہ نے انسانیت کی خدمت کے لئے اپنے آبائی شہر کا انتخاب کیا ۔ ابتدا میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ڈیرہ غازی خان میں میڈیکل آفیسر کے طور پرکام شروع کیا اور اپنا کلینک قائم کیا جو اب ہسپتال کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔جان سرجیکل ہسپتال کا شمار اب ڈیرہ غازی خان کے معتبر طبی اداروں میں ہوتا ہے۔ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ نے شاعری کے ساتھ وابستگی برقرار رکھی ۔اب تک ان کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ 2007ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو اپنے منفرد اسلوب اور چونکا دینے والے نام کی وجہ سے اس نے ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’میں آنکھیں بند رکھتی ہوں‘‘ 2010ء میں شائع ہوا۔ ”اور شام ٹھہر گٰئی‘‘ 2013ء اور ’’پھول،خوشبو اور تارہ‘‘ 2016ء میں شائع ہوا ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ غزل اور نظم دونوں میں یکساں مہارت رکھتی ہیں ۔انہوں نے سرائیکی علاقے کی عورت کے دکھوں کو قریب سے دیکھا اور انہی دکھوں کو اپنے شعروں کا موضوع بنایا ۔ آج وہ اس خطے کی عورتوں کی آواز بن چکی ہیں ۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ وہ اندرون و بیرون ملک کی کانفرنسوں ، مشاعروں اور سیمینارز میں اس خطے کی نمائندگی کر چکی ہیں۔
፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤
منتخب کلام ……
زخموں سے کہاں لفظوں سے ماری گئی ہوں میں
جیون کے چاک سے یوں اتاری گئی ہوں میں
مجھ کو مرے وجود میں بس تو ہی تو ملا
ایسے تری مہک سے سنواری گئی ہوں میں
افسوس مجھ کو اس نے اتارا ہے گور میں
جس کے لئے فلک سے اتاری گئی ہوں میں
مجھ کو کیا ہے خاک تو پھر خاک بھی اڑا
اے عشق تیری راہ میں واری گئی ہوں میں
لو آ گئی ہوں ہجر میں مرنے کے واسطے
اتنے خلوص سے جو پکاری گئی ہوں میں
میری صداقتوں پہ تمہیں کیوں نہیں یقین
سو بار آگ سے بھی گزاری گئی ہوں میں
تم جانتے نہیں ہو اذیت کے کیف کو
ہجرت کے کرب سے تو گزاری گئی ہوں میں
میں مٹ چکی ہوں اور نمایاں ہوا ہے تو
مرشد خمار میں یوں خماری گئی ہوں میں
اس وجد میں وجود کہاں ہے مرا وجود
جانے کہاں پہ ساری کی ساری گئی ہوں میں
مقتل میں جان دینا تھی پیاروں کے واسطے
میں ہی تھی ان کو جان سے پیاری گئی ہوں میں
یہ قرضِ عشق میں نے چکانا تھا اس لئے
شاہینؔ اپنی جان سے واری گئی ہوں میں
●━─┄━─┄═•✺❀✺•═┄─━─━━●
ہر ایک خواب میں حرف و بیاں میں رہتا ہے
وہ ایک شخص جو دل کے مکاں میں رہتا ہے
نہ دل نکلتا ہے اس کا نہ شام ہوتی ہے
اب اس طرح سے بھی کوئی جہاں میں رہتا ہے
یقین ہے کہ وہ مجھ پر یقین رکھتا ہے
گمان ہے تو وہ اب تک گماں میں رہتا ہے
میں اس طرح سے ہوں آزاد اپنی دنیا میں
کہ جیسے کوئی پرند آشیاں میں رہتا ہے
رکھا ہوا ہے حفاظت کے ساتھ اسے دل میں
میں بے امان ہوں وہ تو اماں میں رہتا ہے
✦•──┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈──•✦
گئی رتوں کی رفاقتوں میں تمہیں ملوں گی
میں چاہتوں کی ریاضتوں میں تمہیں ملوں گی
تم اپنی منزل کے راستوں میں جو دیکھ پاؤ
تو راستوں کی صعوبتوں میں تمہیں ملوں گی
نہیں ملوں گی کسی بھی وصل آشنا سفر میں
میں ہجر موسم کی شدتوں میں تمہیں ملوں گی
کہ میں نے چاہت کو بھی عقیدہ بنا لیا ہے
اگر ملی تو عقیدتوں میں تمہیں ملوں گی
میں جانتی ہوں کہ تیرے ادراک میں نہیں ہوں
مگر وفا کی شباہتوں میں تمہیں ملوں گی
ہو قید تم اپنی ذات کے خول میں اگرچہ
بس ایک خوشبو ہوں دستکوں میں تمہیں ملوں گی
وہ بنتِ حوّا کو گو نظر سے گرا رہے ہیں
مگر وہ کہتی ہے رفعتوں میں تمہیں ملوں گی
نہیں ہے شاہینؔ خواب پر اعتبار مجھ کو
سو زندگی کی حقیقتوں میں تمہیں ملوں گی
●━─┄━─┄═•❀•═┄─━─━━●
آنکھوں میں لئے درد کا طوفان کھڑی ہوں
اے عشق ترے در پہ میں حیران کھڑی ہوں
اک خواب کے تاوان میں آنکھوں کو گنوایا۔۔
بےروح ہوئی ہوں ،یہاں بے جان کھڑی ہوں
کیا آس تھی جس نے مری دنیا ہی بدل دی
ہے راہ عجب جس پہ میں حیران کھڑی ہوں
محشر میں مرے اشک گواہی مری دیں گے
دنیا کے خدا کا لئے احسان کھڑی ہوں
رستہ تو دیا ہوتا ، مسافر تھی ترے در کی
میں عشق کا لے کر ترے وجدان کھڑی ہوں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─┄●•●
تحریر …جاوید شیخ ساگر