پاکستان تحریک انصاف کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد آخر کار رنگ لے آئی اور 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وفاق، پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں، پی ٹی آی برسرِ اقتدار آگئی، اس کامیابی کی سب بڑی وجہ پی ٹی آئی کی جانب سے عوام کے لیے تبدیلی کا نعرہ تھا، حالانکہ اس جماعت نے بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایلیکٹیبلز کی روایتی سیاست کا سہارا لیا، بہت سے حلقوں میں پرانے سیاسی پہلوانوں نے ہوا کا رخ بھانپتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور ان کو بڑی گرم جوشی سے پارٹی میں شامل کیا گیا مطلب نہ نظام بدلا نہ چہرے بدلے اگر بدلا تو سیاسی پارٹی کا نام بدلا، جیسے کہ پرانی سگریٹ کو نئی پیکنگ میں پیش کردیا جائے، مگر پھر بھی عوام نے پی ٹی آئی کی حکومت سے امیدیں وابستہ رکھیں، تحریک انصاف نے اپنی الیکشن کمپین میں جنوبی پنجاب کو ترجیحی بنیادوں پر پر الگ صوبہ بنانے کے حوالے سے وعدہ کیا، جس وعدے کی بدولت پاکستان تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب کی عوام نے بھرپور مینڈیٹ دیا، وقت کے ساتھ ساتھ موجودہ حکمران جماعت کو اپنے کیے گئے بہت سے ارادوں کے برعکس جانا پڑا،جیسا کہ انکے سیاسی قائدین اپنے انتخابی جلوسوں میں کہتے دکھائی دیتے تھے کہ ہم IMF کے پاس کبھی نہیں جائیں گے مگر پھر سب نے دیکھا کہ حکومت نے IMF سے مشکل شرائط پر قرضہ حاصل کیا، جس کے انہوں یہ دلائل دیے کہ وقت کا تقاضا ہے، معاشی بحران ہے، مجبوری ہے، سو عوام نے اپنے حکمرانوں کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کیا، مگر اب اس حکومت کا دوسرا سال مکمل ہونے کو آیا ہے، مہنگائی اپنے عروج پر ہے، بجلی مہنگی، پٹرول مہنگا، چینی اور آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا، دوسری طرف ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی مراعات میں اضافے دیکھنے میں آئے اور ممبران اسمبلی و وزراء کے پروٹوکول پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں، تو ایسے میں عام آدمی کے دل میں ہزاروں سوال ایسے اٹھتے ہیں کہ کیا سارا بوجھ ہمارے ناتواں کندھوں نے اٹھانا ہے، موجودہ حکومت میں جنوبی پنجاب ایک بار پھر بری طرح سے نظر انداز کیا گیا، صرف وزیر اعلیٰ کے ذاتی حلقے میں ترقیاتی کام جاری و ساری ہیں، جب سے پاکستان تحریک انصاف کو حکمرانی ملی تھی اسی روز سے سننے میں آیا تھا کہ وزیراعلیٰ ہر ماہ پورے صوبے کہ کسی نہ کسی ضلع کا دورہ کیا کریں گے تاکہ اصلاح احوال ہو، مگر ایسا بھی نہ ہو سکا ضلع لیہ جو کہ ان کے حلقے کا ہمسایہ ضلع ہے وہاں تک انکی تشریف آوری نہ ہو سکی، آخرکا 21 فروری 2020 کو ضلع لیہ کی قسمت چمکی اور بیک وقت وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب احساس پروگرام کے افتتاح کے لیے لیہ تشریف لائے، احساس پروگرام ایک بہت جامع حکمت عملی کے تحت وضع کیا گیا ہے جس کا مقصد غریب طبقے کو ایک باعزت روزگار فراہم کرنا ہے، احساس پروگرام کا افتتاح اہلیان لیہ کے لیے نہایت خوش آئند تھا، ضلعی انتظامیہ نے اس ایونٹ کے لیے بہت بہترین انتظامات کیے تھے، مگر سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ اس ایونٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی ضلعی باڈی بالکل بے بس اور غیر فعال دکھائی دی، اور تو اور منتخب نمائندوں کو بھی ایونٹ ہال میں جانے کے لیے بہت سے پاپڑ بیلنے پڑے، اہلیانِ لیہ کو اس تاریخ ساز جلسے سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، امید کی جارہی تھی کہ وزیراعظم پاکستان لیہ کو ڈویژن بنانے کی نوید سنائیں گے، لیہ کی تھل یونیورسٹی کا اعلان فرمائیں گے جو کہ ویسے ہی گزشتہ دور حکومت کا پراجیکٹ تھا، چوک اعظم کا کو تحصیل کا درجہ دیا جائے گا، لیہ میں ماں بچے کی صحت کے ہسپتال کا اعلان ہوگا، لیکن ایسا تو کچھ ہوا ہی نہیں اور ہوا کچھ یوں کہ جیسا کہ مظفر گڑھ کی سیاست ہمیشہ سے تگڑی رہی اور مظفر گڑھ کے سیاست دانوں نے اپنے علاقے کی جنگ لڑی تو وہ اسی طرح لیہ میں کھڑے بازی لے گئے اور محترم وزیراعظم نے چوک سرور شہید کو تحصیلِ بنانے کا اعلان فرماء دیا، جس کے بعد سے آج تک لیہ کے تمام منتخب نمائندے اپنے حلقے کے لوگوں کے سامنے وضاحتیں پیش کرتے نظر آئے، کہا جاتاہے کہ سیاست میں وقت اور موقع دونوں ہی اہمیت کے حامل ہیں، بیچارے لیہ کے منتخب نمائندے ہمیشہ کی طرح موقع ہی گنوا بیٹھے اور منہ تکتے رہ گئے ، کچھ دانشوروں کا فرمانا ہے کہ یہ غیر سیاسی تقریب تھی، تو اگر ایسا تھا تو یہاں چوک سرور شہید کا اعلان کیوں کیا گیا، تقریب کے فوراً بعد ایک زبردست ہلچل دیکھنے میں آئی، اور تمام منتخب نمائندے اکٹھے ہو کر وزیر اعلیٰ پنجاب کے حضور پیش ہوگئے کہ آقا لیہ تشریف لائیں اور ہماری فیس سیونگ کریں ورنہ ہماری سیاست تباہ ہو جائے گی جس پر محترم وزیراعلیٰ نے تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ کے مصداق ایک کے بعد ایک تاریخ دینا شروع کی ہوئی ہے خدا کرے کہ وہ جلد تشریف لے آئیں ، بے شک اس تقریب اور اعلیٰ شخصیات کی آمد کے ثمرات اپنی جگہ ہونگے مگر اہلیان لیہ میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے اور وہ اپنے منتخب کردہ سیاسی نمائندوں سے سوال کر رہے ہیں کہ ان کے ضلع کو کیا حاصل ہوا تحریک انصاف کے دور میں….. سوال تو بنتا ہے، کیا اب بھی ہمارے سیاست دان روایتی سیاست پر اکتفا کریں گے یا پھر اپنے وقار کو اجاگر کرنے کے لیے جو وقت ان کے پاس بچا ہے اس میں ضلع لیہ کے لیے کوئی تاریخی اور ٹھوس اقدامات سرانجام دیں گے…