• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

عرب امارات کے دروازے پر (قسط 8).. انجم صحرائی

webmaster by webmaster
جنوری 21, 2020
in کالم
0
عرب  امارات کے دروازے پر (قسط  8).. انجم صحرائی

وہ میری تصویر بنا رہا تھا اور میں سامنے بیٹھا اسے دیکھے جا رہا تھا ، میرے انہماک نے شائد مجھے خاصا سنجیدہ کر دیا تھا جبھی تو عین اس وقت واٹس ایپ پر مجھے کامران تھند کا میسج مو صول ہوا ۔۔ سر تھوڑا سا مسکرائیں تاکہ تصویر اچھی بن سکے۔۔

گو پی آ رٹسٹ دو بئی کے گو گل ویلج کے انڈین پویلین میں بہت نمایاں ہے ، وہ بندے کو سامنے بٹھاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں اس کا پنسل سکیچ بنا کر اسے پیش کر دیتا ہے ۔ جب ہم نے اسے دیکھا وہ ایک عربی نو جوان کی تصویر بنا رہا تھا ، عربی نو جوان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی جس نے عبا ئیہ پہنا ہواتھا اور اس کا چہرہ بھی نقاب میں ڈھکا ہوا تھا ، گو پی کی انگلیوں میں پھنسی پنسل تیزی سے چل رہی تھی ، وہ بار بار سا منے بیٹھے ہو ئے نو جوان کے چہرے کو دیکھتا کبھی پنسل چلاتا اور کبھی ربڑ ۔۔ اس نے پنسل سکیچ بنا نے میں خاصا کم وقت لیا ۔۔ مکمل کر نے کے بعدگوپی نے رقم لینے اور تصویر نو جوان کی ساتھی خاتون کو دینے کے بعد بغیر سر اٹھائے آواز لگائی ۔۔ نیکسٹ (next) اور گو پی کا اگلا شکار میں تھا۔۔

ہوا یوں تھا کہ ہم سبھی دو بئی گو گل ویلج دیکھنے آ ئے تھے اور یہیں گو پی سے ہماری ملاقات ہو ئی۔۔ میں نے بتایا نا کہ گوپی ایک نو جوان کا پنسل سکیچ بنا رہا تھا اور بہت سے لوگ تصویر بنانے کے اس منظر کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے ، کچھ من چلے مو بائل وڈ یو بھی بنا رہے تھے اور کچھ تصاویر لے رہے تھے ۔۔ ہم بھی وہاں جا کھڑے ہو ئے ۔ گوپی کو تصویر بناتے دیکھ کر نو می بولے ۔۔ ابو ۔۔ تصویر بنوائیں گے ؟
نہیں یار خاصی دیر ہو جا ئے گی میں نے نیم رضامندانہ لہجے میں جواب دیا ۔۔ بنوائیں ابو جی تصویر ۔۔ یہ ایک یاد گار تصویر ہو گی ہم سب کے لئے۔ نو می نے فیصلہ سنایا۔ اسی اثنا میں گو پی نے نیکسٹ کہا اور میں گو پی کے سا منے تھا ۔۔

سا منے بٹھا کر گو پی آ رٹسٹ نے مجھے غور سے دیکھا اپنے ہا تھوں سے میرے کندھوں کو متناسب کرتے ہو ئے دھیمے لہجے میں عینک درست کرنے کے لئے کہا ۔ اور پھر پنسل نے اس کی انگلیوں کے اشارے پر رقص شروع کر دیا اور تھوڑی ہی دیر میں سفید کا غذ پر لگا ئی گئی آ ڑھی ترچھی لکیروں میں تصویر کا جنم ہو نے لگا ۔۔ گوپی مجھے دیکھتا،ربڑ سے اضافی لکیریں مٹاتا اور پھر پنسل سے لکیریں بناتا ۔ لکیریں مٹانے اور بنانے کے عمل کے دوران جب وہ مجھے دیکھتا تو ایسے تیز سا نس لیتا جیسے مزدور ہتھوڑا چلاتے ہو ئے سانس لیتے ہیں ، بسا اوقات تو اس کی سانس کی رفتار اتنی تیز اور شدت کی ہو تی کہ اس کے بھنچے دونوں ہو نٹوں سے مو ہوم سے سیٹی بجنے کا احساس بھی ہو تا ۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سفید کا غذ پرپنسل سے لکیریں کھینچنے کی اٹھکیلیاں کر نے کی بجائے بہت سارا وزن اٹھانے کی مشقت کر رہا ہو ۔یقینا اسے تصویر بناتے ہو ئے سا نس لینا مشکل لگ رہا ہو گا۔۔کیوں؟ یہ سوال میرے ذہن میں اٹک گی , تصویر مکمل ہو ئی تو میں نے پو چھا یار یہ تم تصویر بناتے ہو ئے زور زور سے ایسے سا نس کیوں لے رہے تھے جیسے تمہیں سا نس لینے خاصی دشواری محسوس ہو رہی ہو؟ میری ی بات سن کر وہ دھیرے سے مسکرایا اور بو لا، بڑا زور لگتا ہے سر پنسل سے تصویر بنانے میں۔۔

قارئین کرام اگر آپ ساری دنیا ایک ہی چھت تلے دیکھنے کے خواہشمد ہیں تو دو بئی گوگل ویلج کی سیر ضرور کیجئے گا ۔جہاں دنیا
بھر کے نوے کے قریب مختلف ممالک کے پویلین اپنی ثقافت اور کلچر لئے آپ کو خوش آ مدید کہنے کے لئے مو جود ہیں ۔ایک چھت تلے کا جملہ میں نے محاورۃ استعمال کیا ہے، شیخ محمد بن زیڈ روڈ پر واقع دو بئی گو گل ویلج کو آپ کثیر الثقافتی پارک بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس کے دامن میں ثقافت، خریداری اور انٹر ٹینمنٹ کا ایک منفرد حسین امتزاج مو جود ہے ۔ یہاں پا کستان سمیت ، انڈیا، ترکی، ایران، مصر سمیت یورپ کے بیشتر مما لک سمیت دنیا بھر نوے سے زیادہ ممالک کے پویلین مو جود ہیں ، جہاں آپ خریداری کر سکتے ہیں اور ثقافت اور کلچر کا مطا لعہ بھی ۔ ایک اندازے کے مطا بق گذشتہ سال 6 ملین سے زائد سیاحوں نے گوگل ویلج کا وزٹ کیا ۔ دنیا بھر کے بعظیم فنکار یہاں اپنا شو پیش کر چکے ہیں جن میں شاہ رخ خان، راحت فتح علی خان اور سمیرا سید جیسے نمایاں نام شا مل ہیں ، کہتے ہیں کہ یہاں بھی انڈین میڈ یا گروپ چھایا ہوا ہے۔ پا کستان کے سبھی فن کاروں کے یہی میڈ یا گروپ میزبان بنتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی ہو اگر یہ سچ ہے تو پا کستان کے ارباب اختیار کو اپنی ثقافت کے حوالے سے پا لیسی وضع کر نے کی ضرورت ہے

گو گل ویلج پہنچنے کے بعد ہم نے دنیا دیکھنے کے سفر کا آ غاز پا کستان پو یلین سے کیا ۔ پا کستانی پو یلین میں مردو خواتین وزیٹر کی خاصی تعداد مو جود تھی ، کپڑوں، لیدر کی جیکٹوں ، ملتانی کھسوں اور ہاتھ سے بنی دستکاری کی دکانوں پر خاصا رش تھا ۔لیکن سب سے زیادہ خریداروں کارش پویلین میں موجود گول گپوں اور دہی بھلوں کی دوکان پر نظر آ یا۔ گھر والوں نے کچھ خریداری کرنا تھی سو بہو بیگم سب کو ساتھ لئے ایک ایک شاپ چیک کرنے میں لگ گئیں اور میں،نعمان، عبد اللہ اور فاطمہ گلوبل ویلج کے درمیان بنی جھیل کنارے جا بیٹھے ، جھیل میں بعض لوگ کشتی رانی سے محظوظ ہو رہے تھے ، جھیل کے پا نی میں گوگل ویلج کی منعکس رنگ برنگ روشنیوں کا منظر دیدنی تھا ۔ تھوڑی ندیر بعد جب اہل خانہ خریداری سے فارغ ہو گئے تب سیاحت کا سفر دو بارہ شروع ہوا ۔ ابو یہ ایران، ہے اور یہ ترکی اور یہ دیکھیں مصر ۔۔ نعمان چلتے چلتے آ گہی کا فرض بھی نبھا رہے تھے ۔ آگے چلے تو ایک پویلین کے آ گے بنے چبوترے نما سٹیج پر ڈرم اور پیانو کی آواز پر چند سیاہ فام نا چتے گاتے اور تھرکتے نظر آ ئے ، پتہ چلا یہ افریقہ کا پویلین ہے ۔ڈرم کے ساتھ پلے بیک میوزک بھی تھا مگر گیت کے بول گو ہمیں تو سمجھ نہیں آ رہے تھے لیکن سٹیج پر موجود فن کاروں کی اچھل کود اور چھلانگیں بتا رہی تھیں کہ گیت معونیت کے لحاظ سے خاصا پر اثر ہے ۔ جبھی تو پرفارم کرنے والے فن کار بڑے جوش اور جذبے سے دوڑ رہے تھے اور قلا بازیاں لگا رہے تھے ۔ سٹیج کے ایک کونے میں کھڑا کلر فل ڈریس میں ملبوس ایک نو جوان پیانو لئے جھوم رہا تھا۔ دو نوجوان ڈرم بجا رہے تھے سٹیج کے درمیان میں مندھرے قد کا ایک مو ٹا سا سیاہ فام ڈنڈا ہا تھ میں لئے عجیب عجیب آوازیں نکا لتے ہو ئے پر فارم کر رہا تھا ۔ لگتا تھا وہ کوئی استقبا لیہ گیت تھا تبھی تو سٹیج پر پر فارم کرنے والا شخص بار بار او، او ، او اور ای ای ای کی آوازیں نکالتے ہو ئے شا ئقین کو سٹیج کے قریب آ نے کے اشارے کر رہا تھا ۔۔ گیت کے بول تو ہمیں سمجھ نہیں آ ئے لیکن ڈرم اور پیانو کی سنگت سے ما حول خوب جم رہا تھا ۔ پویلین کے ااندر گئے تو دیکھا کہ سارے دکاندار بھی سیاہ فام تھے اور خریداروں کی تعداد بھی زیادہ افریقی تھے ، سیلز گرل تو سبھی سیاہ فام خواتین تھیں، موٹی دراز قد اور مضبوط جثے اور لچھے دار الجھے با لوں والی۔۔ عجب سی مہک تھی پویلین کے سارے بازروں میں ۔ پتہ چلا کہ خوشبو اور رنگ گورا کرنے والی مصنوعات سب سے زیادہ یہاں فروخت ہو تی ہیں ۔

اگلا پویلین انڈیا کا تھا جس کے باہر پتلی تماشا ہونے والا تھا ۔۔ گیٹ کے باہر بنے چھوٹے سے بڑے سے طاقچہ نما سٹیج پر رکھی ایک مورتی کے ساتھ ایک نو جوان پجاری بنا بیٹھا ہوا تھا۔ پہلے تومیں سمجھا کہ شا ید یہ ہندؤں کے کسی بھگوان کی آرتی ہے ۔ یہ سوچ کر میں واپس پلٹنے لگا تو نعمان نے بتایا کہ نہیں ابو۔۔ یہاں پتلی تماشہ ہوتا ہے اور ابھی شروع ہو نے والا ہے تھوڑی دیر میں ۔۔
چند ہی لمحے گذرے ہوں گے کہ بیک میوزک پر چلنے والے گانے

اوے تو لونگ وے میں لاچی
تیرے پچھے آ گواچی

پر سٹیج پر رکھی پتلی جسے میں نے بھگوان کی مورتی سمجھا تھا۔۔ نے تھرکنا شروع کر دیا ۔

باقی احوال اگلی قسط میں۔۔

Tags: column by anjum sehrai
Previous Post

آٹے کا بحران؛ 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری

Next Post

حکومت عوام کے لیے عذاب بن چکی ہے، بلاول بھٹو زرداری حکومت عوام کے لیے عذاب بن چکی ہے، بلاول بھٹو زرداری

Next Post
جعلی اکاؤنٹس جےآئی ٹی میں آئی ایس آئی کو شامل کرکے اسے سیاست زدہ کردیا گیا، بلاول بھٹو زرداری

حکومت عوام کے لیے عذاب بن چکی ہے، بلاول بھٹو زرداری حکومت عوام کے لیے عذاب بن چکی ہے، بلاول بھٹو زرداری

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
وہ میری تصویر بنا رہا تھا اور میں سامنے بیٹھا اسے دیکھے جا رہا تھا ، میرے انہماک نے شائد مجھے خاصا سنجیدہ کر دیا تھا جبھی تو عین اس وقت واٹس ایپ پر مجھے کامران تھند کا میسج مو صول ہوا ۔۔ سر تھوڑا سا مسکرائیں تاکہ تصویر اچھی بن سکے۔۔ گو پی آ رٹسٹ دو بئی کے گو گل ویلج کے انڈین پویلین میں بہت نمایاں ہے ، وہ بندے کو سامنے بٹھاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں اس کا پنسل سکیچ بنا کر اسے پیش کر دیتا ہے ۔ جب ہم نے اسے دیکھا وہ ایک عربی نو جوان کی تصویر بنا رہا تھا ، عربی نو جوان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی جس نے عبا ئیہ پہنا ہواتھا اور اس کا چہرہ بھی نقاب میں ڈھکا ہوا تھا ، گو پی کی انگلیوں میں پھنسی پنسل تیزی سے چل رہی تھی ، وہ بار بار سا منے بیٹھے ہو ئے نو جوان کے چہرے کو دیکھتا کبھی پنسل چلاتا اور کبھی ربڑ ۔۔ اس نے پنسل سکیچ بنا نے میں خاصا کم وقت لیا ۔۔ مکمل کر نے کے بعدگوپی نے رقم لینے اور تصویر نو جوان کی ساتھی خاتون کو دینے کے بعد بغیر سر اٹھائے آواز لگائی ۔۔ نیکسٹ (next) اور گو پی کا اگلا شکار میں تھا۔۔ ہوا یوں تھا کہ ہم سبھی دو بئی گو گل ویلج دیکھنے آ ئے تھے اور یہیں گو پی سے ہماری ملاقات ہو ئی۔۔ میں نے بتایا نا کہ گوپی ایک نو جوان کا پنسل سکیچ بنا رہا تھا اور بہت سے لوگ تصویر بنانے کے اس منظر کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے ، کچھ من چلے مو بائل وڈ یو بھی بنا رہے تھے اور کچھ تصاویر لے رہے تھے ۔۔ ہم بھی وہاں جا کھڑے ہو ئے ۔ گوپی کو تصویر بناتے دیکھ کر نو می بولے ۔۔ ابو ۔۔ تصویر بنوائیں گے ؟ نہیں یار خاصی دیر ہو جا ئے گی میں نے نیم رضامندانہ لہجے میں جواب دیا ۔۔ بنوائیں ابو جی تصویر ۔۔ یہ ایک یاد گار تصویر ہو گی ہم سب کے لئے۔ نو می نے فیصلہ سنایا۔ اسی اثنا میں گو پی نے نیکسٹ کہا اور میں گو پی کے سا منے تھا ۔۔ سا منے بٹھا کر گو پی آ رٹسٹ نے مجھے غور سے دیکھا اپنے ہا تھوں سے میرے کندھوں کو متناسب کرتے ہو ئے دھیمے لہجے میں عینک درست کرنے کے لئے کہا ۔ اور پھر پنسل نے اس کی انگلیوں کے اشارے پر رقص شروع کر دیا اور تھوڑی ہی دیر میں سفید کا غذ پر لگا ئی گئی آ ڑھی ترچھی لکیروں میں تصویر کا جنم ہو نے لگا ۔۔ گوپی مجھے دیکھتا،ربڑ سے اضافی لکیریں مٹاتا اور پھر پنسل سے لکیریں بناتا ۔ لکیریں مٹانے اور بنانے کے عمل کے دوران جب وہ مجھے دیکھتا تو ایسے تیز سا نس لیتا جیسے مزدور ہتھوڑا چلاتے ہو ئے سانس لیتے ہیں ، بسا اوقات تو اس کی سانس کی رفتار اتنی تیز اور شدت کی ہو تی کہ اس کے بھنچے دونوں ہو نٹوں سے مو ہوم سے سیٹی بجنے کا احساس بھی ہو تا ۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سفید کا غذ پرپنسل سے لکیریں کھینچنے کی اٹھکیلیاں کر نے کی بجائے بہت سارا وزن اٹھانے کی مشقت کر رہا ہو ۔یقینا اسے تصویر بناتے ہو ئے سا نس لینا مشکل لگ رہا ہو گا۔۔کیوں؟ یہ سوال میرے ذہن میں اٹک گی , تصویر مکمل ہو ئی تو میں نے پو چھا یار یہ تم تصویر بناتے ہو ئے زور زور سے ایسے سا نس کیوں لے رہے تھے جیسے تمہیں سا نس لینے خاصی دشواری محسوس ہو رہی ہو؟ میری ی بات سن کر وہ دھیرے سے مسکرایا اور بو لا، بڑا زور لگتا ہے سر پنسل سے تصویر بنانے میں۔۔ قارئین کرام اگر آپ ساری دنیا ایک ہی چھت تلے دیکھنے کے خواہشمد ہیں تو دو بئی گوگل ویلج کی سیر ضرور کیجئے گا ۔جہاں دنیا بھر کے نوے کے قریب مختلف ممالک کے پویلین اپنی ثقافت اور کلچر لئے آپ کو خوش آ مدید کہنے کے لئے مو جود ہیں ۔ایک چھت تلے کا جملہ میں نے محاورۃ استعمال کیا ہے، شیخ محمد بن زیڈ روڈ پر واقع دو بئی گو گل ویلج کو آپ کثیر الثقافتی پارک بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس کے دامن میں ثقافت، خریداری اور انٹر ٹینمنٹ کا ایک منفرد حسین امتزاج مو جود ہے ۔ یہاں پا کستان سمیت ، انڈیا، ترکی، ایران، مصر سمیت یورپ کے بیشتر مما لک سمیت دنیا بھر نوے سے زیادہ ممالک کے پویلین مو جود ہیں ، جہاں آپ خریداری کر سکتے ہیں اور ثقافت اور کلچر کا مطا لعہ بھی ۔ ایک اندازے کے مطا بق گذشتہ سال 6 ملین سے زائد سیاحوں نے گوگل ویلج کا وزٹ کیا ۔ دنیا بھر کے بعظیم فنکار یہاں اپنا شو پیش کر چکے ہیں جن میں شاہ رخ خان، راحت فتح علی خان اور سمیرا سید جیسے نمایاں نام شا مل ہیں ، کہتے ہیں کہ یہاں بھی انڈین میڈ یا گروپ چھایا ہوا ہے۔ پا کستان کے سبھی فن کاروں کے یہی میڈ یا گروپ میزبان بنتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی ہو اگر یہ سچ ہے تو پا کستان کے ارباب اختیار کو اپنی ثقافت کے حوالے سے پا لیسی وضع کر نے کی ضرورت ہے گو گل ویلج پہنچنے کے بعد ہم نے دنیا دیکھنے کے سفر کا آ غاز پا کستان پو یلین سے کیا ۔ پا کستانی پو یلین میں مردو خواتین وزیٹر کی خاصی تعداد مو جود تھی ، کپڑوں، لیدر کی جیکٹوں ، ملتانی کھسوں اور ہاتھ سے بنی دستکاری کی دکانوں پر خاصا رش تھا ۔لیکن سب سے زیادہ خریداروں کارش پویلین میں موجود گول گپوں اور دہی بھلوں کی دوکان پر نظر آ یا۔ گھر والوں نے کچھ خریداری کرنا تھی سو بہو بیگم سب کو ساتھ لئے ایک ایک شاپ چیک کرنے میں لگ گئیں اور میں،نعمان، عبد اللہ اور فاطمہ گلوبل ویلج کے درمیان بنی جھیل کنارے جا بیٹھے ، جھیل میں بعض لوگ کشتی رانی سے محظوظ ہو رہے تھے ، جھیل کے پا نی میں گوگل ویلج کی منعکس رنگ برنگ روشنیوں کا منظر دیدنی تھا ۔ تھوڑی ندیر بعد جب اہل خانہ خریداری سے فارغ ہو گئے تب سیاحت کا سفر دو بارہ شروع ہوا ۔ ابو یہ ایران، ہے اور یہ ترکی اور یہ دیکھیں مصر ۔۔ نعمان چلتے چلتے آ گہی کا فرض بھی نبھا رہے تھے ۔ آگے چلے تو ایک پویلین کے آ گے بنے چبوترے نما سٹیج پر ڈرم اور پیانو کی آواز پر چند سیاہ فام نا چتے گاتے اور تھرکتے نظر آ ئے ، پتہ چلا یہ افریقہ کا پویلین ہے ۔ڈرم کے ساتھ پلے بیک میوزک بھی تھا مگر گیت کے بول گو ہمیں تو سمجھ نہیں آ رہے تھے لیکن سٹیج پر موجود فن کاروں کی اچھل کود اور چھلانگیں بتا رہی تھیں کہ گیت معونیت کے لحاظ سے خاصا پر اثر ہے ۔ جبھی تو پرفارم کرنے والے فن کار بڑے جوش اور جذبے سے دوڑ رہے تھے اور قلا بازیاں لگا رہے تھے ۔ سٹیج کے ایک کونے میں کھڑا کلر فل ڈریس میں ملبوس ایک نو جوان پیانو لئے جھوم رہا تھا۔ دو نوجوان ڈرم بجا رہے تھے سٹیج کے درمیان میں مندھرے قد کا ایک مو ٹا سا سیاہ فام ڈنڈا ہا تھ میں لئے عجیب عجیب آوازیں نکا لتے ہو ئے پر فارم کر رہا تھا ۔ لگتا تھا وہ کوئی استقبا لیہ گیت تھا تبھی تو سٹیج پر پر فارم کرنے والا شخص بار بار او، او ، او اور ای ای ای کی آوازیں نکالتے ہو ئے شا ئقین کو سٹیج کے قریب آ نے کے اشارے کر رہا تھا ۔۔ گیت کے بول تو ہمیں سمجھ نہیں آ ئے لیکن ڈرم اور پیانو کی سنگت سے ما حول خوب جم رہا تھا ۔ پویلین کے ااندر گئے تو دیکھا کہ سارے دکاندار بھی سیاہ فام تھے اور خریداروں کی تعداد بھی زیادہ افریقی تھے ، سیلز گرل تو سبھی سیاہ فام خواتین تھیں، موٹی دراز قد اور مضبوط جثے اور لچھے دار الجھے با لوں والی۔۔ عجب سی مہک تھی پویلین کے سارے بازروں میں ۔ پتہ چلا کہ خوشبو اور رنگ گورا کرنے والی مصنوعات سب سے زیادہ یہاں فروخت ہو تی ہیں ۔ اگلا پویلین انڈیا کا تھا جس کے باہر پتلی تماشا ہونے والا تھا ۔۔ گیٹ کے باہر بنے چھوٹے سے بڑے سے طاقچہ نما سٹیج پر رکھی ایک مورتی کے ساتھ ایک نو جوان پجاری بنا بیٹھا ہوا تھا۔ پہلے تومیں سمجھا کہ شا ید یہ ہندؤں کے کسی بھگوان کی آرتی ہے ۔ یہ سوچ کر میں واپس پلٹنے لگا تو نعمان نے بتایا کہ نہیں ابو۔۔ یہاں پتلی تماشہ ہوتا ہے اور ابھی شروع ہو نے والا ہے تھوڑی دیر میں ۔۔ چند ہی لمحے گذرے ہوں گے کہ بیک میوزک پر چلنے والے گانے

اوے تو لونگ وے میں لاچی تیرے پچھے آ گواچی

پر سٹیج پر رکھی پتلی جسے میں نے بھگوان کی مورتی سمجھا تھا۔۔ نے تھرکنا شروع کر دیا ۔ باقی احوال اگلی قسط میں۔۔
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.