قیام پاکستان سے تا دم تحریر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمائے دارانہ نظام کے باعث ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا طوفان ریاستی اداروں کی پکڑ سے باہر ہوتا جا رہا ہے پرانے پاکستان کو چھوڑیے نئے پاکستان میں مہنگائی کاطوفان بوتل والے جن کی طرح آب و تاب سے نکل چکا ہے عمران خان نے سیاسی مخالفوں کو رلانے کا کہا مگر اب تو غریب اور متوسط طبقہ دھاڑے مار رہا ہے وزیراعظم عمران خان نے بھوک پیاس اور علاج کے نام پر جو اس ملک کے غریبوں کو صبر کا انجیکشن دیا ہے اس کا اثر اب زائل ہوتا جارہاہے ،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مہنگائی کی شرح پانچ سال کی بلندترین سطح پرپہنچ چکی ہے ،اس وقت مڈل کلاس کے لیے مہنگائی کی اوسط شرح 13.5سے بھی زیادہ ہے جبکہ گزشتہ حکومت میں مہنگائی کی اوسط شرح 1.6تھی گزشتہ دور میں مجھے اچھی طرح یادہے کہ جب ڈالر کی قیمت 105روپے پر پہنچی تھی تو اس وقت عوام کاکم اور موجودہ حکومت جو اس دور میں اپوزیشن میں تھی ان کا شور زیادہ سنائی دیا گیا تھا ،عوام کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ آلو پانچ روپے کلو کے بیان پر نوازشریف صاحب کو کس طرح سے رگڑا لگایاگیا تھااور پٹرول کی قیمت 65روپے کرنے پر کس انداز میں اس وقت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف استعفٰی دینے کی ایک مہم چلائی گئی تھی اور یہ کہاجاتاتھا کہ ہماری حکومت آئی تو پیٹرول 40روپے لیٹر تک کردینگے ، ،ایک وقت تھا کہ پیٹرول کی قیمت 65روپے پہچنے پر جناب عمران خان صاحب نے میاں نوازشریف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاتھامگر آج پیٹرول کی قیمت 100روپے ہوچکی ہے اس وقت یہ ہی موجودہ حکومت ایک ہی سانس میں حکومت کا جینے حرام کردینے میں مشہور تھی یعنی حکومت جانے کے بعد بھی اسحاق ڈار کا لندن تک پیچھا کیا گیا اور میاں نوازشریف کے بچوں کو بھی مارکیٹوں میں زلیل کیا گیا ،اور یہ کہاگیا کہ یہ خاندان کرپٹ ہے فی الحال جو الزامات لگائے گئے شریف خاندان پر بے شک اس کا ٹھیک طرح سے دفاع نہیں کیا گیا مگر موجودہ تحریک انصاف کی حکومت بھی تو ٹھیک طرح سے اس کو عدالتوں میں پیش نہ کرسکی ماسوائے مفروضوں کے جن کی ضمانتوں میں کبھی خوشی کبھی غم کی صورت میں ہی ماحول بنتارہاجس سے وقت گزرنے کے ساتھ میاں نوازشریف کی مظلومیت میں اضافہ ہوااور وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے موجودہ حکومت کے لیے عوام میں غم غصہ بھی بڑھتا جا رہا ہے یہ یقین نہیں تھا کہ وقت اس قدربے رحم ہے اوراس قدر جلدی لوگوں کے چہرے دکھادیتاہے مگر ایسا ہوچکاہے اور اب نیند سے جاگنے کی ضرورت ہے جس نواشریف کو آلو پانچ روپے کلو کا بیان دینے پر دن رات تنقید کانشانہ بنایاگیا آج ان ہی تنقید کرنے والوں سے ایک بار آلو اور ٹماٹر کی قیمت کو پوچھ کردیکھے تو عوام کو صبر کرنے کا مشورہ دیدیاجاتاہے ۔اور یہ ہی صبر اگرگزشتہ دور میں پی ٹی آئی والے بھی کرلیتے تو کیا بگڑ جاتا،اور دوسری جانب نوازشریف کی 2013کی حکومت کے چند ماہ بعد ہی پاکستان کے شہروں کو لاک ڈاؤن اور 126دن کے دھرنوں سے انہیں کام ہی نہیں کرنے دیاگیا ،چلووزیراعظم عمران خان سے یہ پوچھتے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق کے وزیرریلوئے کے وقت میں پنجاب کے ایک نواحی گاؤں میں ایک ٹرین حادثے میں کچھ اسکول جانے والے بچے حادثے کا شکار ہوئے تھے اس پر ہمارے زیراعظم عمران خان نے فرمایا تھا کہ مہذب ممالک میں اگر اس طرح کا کوئی واقعہ ہوجائے تو وہاں کے منسٹر اخلاقی طورپر خود ہی استعفیٰ دے ڈالتے ہیں ؟ ہم نے دیکھا کہ شیخ رشیدکے چند ماہ میں بھی اس قسم کے حادثے مقدربنے اور سب سے بڑھ کر جو لگژری ٹرینیں چلائی جارہی ہیں اس میں ایک بچے کا کا کرایہ 48سو اور بدقسمتی سے بڑے کا کرایہ تقریبا7ہزار تک بتایا جاتاہے عمران خان صاحب شیخ رشید کے دور میں ٹرین حادثوں پر کیااخلاقی انداز بھول چکے ہیں ۔اس پر ان کی جانب سے لگائی گئی تقریبات میں تعریفیں کی جارہی ہیں اور کہاجاتاہے کہ ٹرین کا سفر غریبوں کے لیے ہے بھائی کہاں عام ٹرینوں میں لاہور سے کراچی کا کرایہ1300روپے تھا اور کہاں اب 18 سو تک کہانی جاپہنچی ہے ،میاں نوازشریف کی حکومت میں یہ چھترول لگانے والی جہاں موجودہ حکومت تھی وہاں اس ملک کی عوام کا بھی بہت بڑاہاتھ تھاآج وقت نے جس انداز میں کروٹ بدلی ہے اس میں ظالم مظلوم اور مظلوم ظالم بن چکاہے کیونکہ آج ڈالر 105نہیں بلکہ 142اورپیٹرول کی فی لیٹر65سے 100روپے لیٹر تک پہنچ گئی ہے اس کے علاوہ سالانہ گیس میں 85فیصد اضافہ ہوا اور اس پر50اضافے کے ساتھ بسوں کے کرایوں میں بھی دوگناہ اضافہ دیکھنے کو ملاہے یعنی گزشتہ حکومت جو4فیصد تک مہنگائی کو چھوڑ کرگئی اس کی شرح اب 8فیصد تک جاپہنچی ہے اور وہ بھی صرف8 ماہ میں یعنی اس 8 ماہ میں چار مرتبہ پٹرول کی قیمتوں اور دیگر اشیاء خوردونوش کی قیمتیں اب آسمان سے بھی اوپر کی جانب جاچکی ہیں ، اور جب غربت کے باعث لوگ مرنے لگے تو ان کے علاج کے لیے نہ تو ان کے پاس ڈاکٹروں کی فیسیں موجود ہیں اور نہ ہی خریدنے کے لیے ادویات ہیں کیونکہ گزشتہ حکومت میں تو دوائیوں کی قیمتیں صرف ایک فیصد یا دوفیصد ہی بڑھاکرتی تھی یہاں تو اکھٹے ہی پندرہ فیصد بڑھادی گئی اور اس پر ادویہ ساز کمپنیاں اسے 20اضافے کے ساتھ فروخت کررہی ہے ،یعنی آپ کہاکرتے تھے کہ میاں نوازشریف کے دور میں جینا مشکل ہوچکاہے مگر آپ نے تو اپنے دورمیں مرنا بھی مشکل بنادیاہے لگژری گاڑیوں میں سفر کرنے والے اس غریب سے ایک وقت میں دالیں اور سبزیاں خرید کر گھر میں پکائی نہیں جاتی وہ آگے کیازندگی کو گزارے گاوزیراعظم صاحب آپ تو کہاکرتے تھے کہ جس ملک میں مہنگائی بڑھے اور عوام کا جینا دشوار ہوجائے تو سمجھ لوکہ اس ملک کا وزیراعظم کرپٹ ہے ؟ میں آپ کو یاد دلارہاہوں کوئی الزام نہیں لگارہاکیونکہ ڈر لگتاہے کہ کہیں مجھ پر بے بنیادکیسوں کا انبارلگاکررات کے اندھیرے میں ادھر ادھر نہ کردیاجائے وزیراعظم صاحب نہ تو ابھی تک پولیس کا کلچر بدلاہے اور نہ ہی غریبوں کا حال اور اگر بدلاہے تویہ پراناپاکستان نئے پاکستان کے نام سے بدلاہے۔آپ نے تو اپنی حکومت کی شروعات میں ہی وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں بیچ دی تھی اچھا بھاشن تھا اور بیچاری چند بھینسیں بھی نیلامی پر لگادی تھی کتنا اچھا لگتاتھا جب آپ معززمہمانوں کو چائے اور بسکٹ پر ہی رخصت کردیاکرتے تھے کیونکہ یہ پیسہ عوام کا تھا نا۔۔۔۔ اور عوام کے لیے ہی تھا۔۔۔۔ کیاہوا اس کشکول کو توڑنے کی باتیں کہاں ہیں آئی ایف کے پاس جانے سے بہتر خودکشیوں کی باتیں ۔۔۔۔بس کردیں کپتان اب اور کتنا رلائیں گے اب تو سر دردکی گولیاں بھی ہماری قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔موجودہ حکومت ابھی تک عوام میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہوچکی ہے حکومت کے اپنے کارکنان بھی اب نالاں دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ آپ نے کہاتھا کہ میں رلاؤنگا مگر ہم یہ پوچھنا بھول گئے تھے کہ کسے رلائینگے کیونکہ چیخیں آج جھونپڑیوں میں سے آرہی ہیں محلوں میں سے نہیں ۔ایک بات اور میں بھی ان پچاس لاکھ مکانوں میں سے ایک مکان کا امیدوار بنابیٹھاتھا اور اس کے ساتھ ایک کروڑ نوکریوں میں بھی خوشی کااظہارکیاکرتاتھا مگر بس کپتان اب مجھے کچھ نہیں چاہیے نہ ہی نوکری اور نہ ہی مکان بس ایک کرم کردیں ہم غریبوں پر یہ جو پیٹرول ہے وہ چالیس روپے لیٹر نہ کریں بلکہ جو نوازشریف کے دور میں 65تھا وہ ہی کردیں اور جوادویات کی قیمتیں گزشتہ کرپٹ حکومت چھوڑ کر گئی تھی اس پر ہی واپس آجائیں تو بڑہ مہربانی ہوگی کیونکہ عام آدمی بلڈ پریشر کی گولی اور کولیسٹرول لیول کی گولیاں خریدنے کی سکت نہیں رکھتا کیونکہ گزارہ اب ٹوٹکوں پر ہورہاہے جو کسی بھی بیمار کا مکمل علاج نہیں ہوسکتاتعلیم یافتہ نوجوان بیروز گاری کے سبب خود کشیاں کر رہے غربت کے مارے خاندان جنس فروشی کی طرف بڑھ رہے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے وزیرا عظم عمران خان کو ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔