لاڈلے ڈکیٹ ذمینی حقائق
تحریر ۔ ملک ابوذر منجوٹھہ
کل ایک دوست نے مجھے ٹیکسٹ میسج بھیجا کہ پھر سے ڈکیٹ ہمارے چھ پولیس اہلکاروں کو اغواء کر کے لے گئے ہیں اور میرے پنجاب پولیس اور مولاجٹ والے کالم کے متعلق کہا کہ 100پرسنٹ ٹھیک کہا ہے میں نے ۔میرا ضلع راجن پور میں ایسی جگہ پر جانے کا موقع ملا ہے جہاں شاید راجن کے لوگوں کو کم ہی موقع ملا ہوان میں سے ایک کھلچاس کا علاقہ ہے جو ماڑی سے ہوتے ہوئے کوئی دو سے تین گھنٹے آگے کا راستہ ہے جہاں بی ایم پی کے محرر افضل پتافی جیسے مہمان نواز دوست ملے اور دوسرا روجھان تحصیل کے یہ علاقے جہاں ہمیشہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ ڈکیٹ پولیس کو اغواء کر کے لے گئے یا چوکی پر قبضہ کر لیا یا اتنے اشتہاری مارے گئے ۔اللہ پاک نے ہر انسان کا رزق اپنے ہی طریقے سے لکھا ہوتا ہے میرا رزق بھی شاید اسی طرح ملک کے مختلف حصوں میں لکھا ہوتا ہے چھوٹوگینگ کے خلاف پولیس آپریشن کے بعد پھر سے مجھے میرے کام کے سلسلے میں بنگلہ اچھا ، سون میانی اور چک کپڑا کے علاقہ میں جانا پڑا اس سے پہلے جس علاقے نے غلام رسول کو چھوٹو بنایا ماچھکہ وہاں بھی ہو کے آیا ہوں ۔ ضلع راجن پور کے ڈی پی او آفس میں اگر آپ جائیں تو شہدا کی تصاویر دیکھ کر ویسے بھی آپ سمجھ جائیں گے کہ آپ کو آگے کیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے خیر میں نے اجازت چاہی کہ میں چک کُپڑا جانا چاہتا ہوں پھر جتنے منہ اتنی باتیں کسی نے کہا کہ جاؤ گے پورے واپسی پر کون واپس آیا وہ قسمت ہو گی ۔کسی نے کہا شہید ہونے کا ارادہ ہے ۔کسی نے کہا سوہنڑیا نواں آیاں ہیں؟ ۔ لیکن بالاخر اس وقت کے ڈی پی او صاحب نے مجھے پولیس پروٹیکشن دے دی اور میں ان علاقوں میں اپنا کام مکمل کرکے خیر سے واپس پہنچ گیا ۔چک کُپڑا پولیس آپریشن کے بعد خالی ہوچکا ہے تو اس کی آبادی شفٹ ہو کر کچھ شاہ والی اور کچھ بنگلہ اچھا میں ہے ۔ لوگوں سے پھر چھوٹو گینگ کے متعلق بھی باتیں ہوئیں جہاں چھوٹو کے استاد مشہور زمانہ بابا لونگ کا بھی پتہ چلا کہ وہ کسی زمانہ میں جیل میں قید تھا اس کے ساتھ جیل میں جام پور سے کچھ لوگ بھی کسی کیس کے سلسلہ میں قید تھے خیر دونوں میں دوستی ہو گئی بابا لونگ اور ان کے دوست رہا ہوئے انہوں نے بابا لونگ کو دعوت دی کہ آپ ہمارے پاس کھانہ کھائیں بابا لونگ ان کے ڈیرہ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ ان کا ٹرانسپورٹ کا بزنس ہے اور اچھے کھاتے پیتے لوگ ہیں پھر بابا لونگ نے اپنے دوستوں کو دعوت دی وہ آئے دو سے تین دن کھانے کی دعوتیں چلتی رہیں بکرے اُڑائے گئے چوتھے دن بابا لونگ سے انہوں نے اجازت چاہی تو بابا لونگ نے کہا نہ بابا آپ اب اغواء ہو چکے ہو آپ کہیں نہیں جا سکتے اور ان سب کو زنجیر سے باندھ دیا گیا اور اچھی خاصی رقم ان کے بدلے میں لی گئی ۔ کتنی حقیقت کتنا افسانہ یہ خدا جانے تصدیق کا موقع مجھے بھی نہیں ملا تھا۔ایک مزے کی بات یہ تھی کہ مجھے پروٹیکشن دینے والی پولیس وین میں ایک اشتہاری کے ابے کو بھی ساتھ میں لے کر ہم سب پھر رہے تھے ۔ پولیس کے مطابق کچے کے علاقے میں کسی مخالف اشتہاری کے سلسلے میں لوگ پولیس والوں کو مخبر بن کر لے جاتے ہیں اور اشتہاری جب گھر سے بھاگتا ہے تو وہ ہوائی فائر کر دیتا ہے اور جو لوگ ساتھ لے جاتے ہیں وہ پولیس والوں پر فائر کرکے ان کو شہید کرکے اس مخالف اشتہاری کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے ۔اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو پھر وقت کے ساتھ ساتھ بتاتا رہوں گا۔ خیر اصل کی طرف واپس آتے ہیں یہ ڈکیٹ اتنے انوکھے لاڈلے کیسے بن گئے ہیں کہ کھیلنے کو پولیس کو ہی اغواء کر لیتے ہیں ۔چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک بڑا راستہ ان ہی علاقوں سے گزرتا ہے ۔جہاں سے پہلے بھی چائنہ کے انجینئر اغوا ء ہوئے تھے جن کو بعد میں کچھ معاوضہ لے کر رہا کر دیا گیا تھا ضرب آہن کے بعد بھی چھ اہلکاروں کا اغواء یہ ہمارے اداروں کی کارکردگی اور ہمارے لیڈران کی نااہلی کی طرف واضع اشارہ کرتا ہے ۔آئی جی پنجاب جناب کیپٹن (ر) عارف نواز صاحب گزارش صرف اتنی ہے کہ آپ اپنے جوانوں کو جدید اسلحہ دے دیں بلٹ پروف جیکٹس ہیلمٹ دیے کر بھیجیں ۔ اب کی بارکسی چھوٹو کی بجائے ان کے سہولت کاروں کو پکڑیں جو ایسے سیکڑوں چھوٹو بنا رہے ہیں اور ان کی پشت پنہائی کر رہے ہیں۔ یہ کسی نہ کسی کے لاڈلے ڈکیٹ ہوتے ہیں میری بات پر یقین نہ ہوتو مقامی سطح پر سے سروے کروا لیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کون کس گروہ کو پال رہا ہے ۔ اور میاں شہباز شریف صاحب آپ سے صرف اتنی گزارش ہے کہ آپ ان علاقوں کو راجن پور سے ختم کروا کر رحیم یار خان کی تحویل میں دے دیں اس نے نہ صرف دہشت گردی ختم ہو گی بلکہ لوگوں کو بھی ریلیف ملے گا۔لوگوں کو اپنے چھوٹے سے کام کے لیے بہت لمبا سفر کر کے راجن پور جانا پڑتا ہے راجن پور سے براستہ کشمور گڈو بنگلہ اِچھا تھانہ تک تقریبا 193 کلو میٹر بنتا ہے جبکہ رحیم یار خان ان کو نزدیک پڑتا ہے مقامی سردار یہ نہیں ہونے دیتے کیونکہ ان کے ووٹ بنک کا نقصان ہوتاہے لوگوں کے نقصان کی کسی کو پروا نہیں ہے ۔دوسرا علاقہ ماچھکہ ہے جس کو ہر سائیڈ سے سندھ لگتا ہے ایک درمیان میں یونین کونسل ہے جو کہ پنجاب کی ملکیت ہے لوگوں کو اپنے کام کے لیے صادق آباد تک کے دھکے کھانے پڑتے ہیں کونسا ان علاقوں میں سونے کی کانیں ہیں ۔بنگلہ اچھا سون میانی ، بنگلہ اِچھا نمبر ۲ والے علاقے رحیم یار خان کو دے دیں اس سے پولیس کا نظام بھی بہتر طریقے سے چل سکے گا ۔لوگوں کو ریلیف بھی ملے گا اور ہماری انڈس ہائے وے کی حفاظت بھی آسانی سے ہوگی ۔ مقامی سطح پر تعلیم کو عام کریں چھوٹے روزگار کی سہولتیں دیں لوگ تو خود تبدیلی چاہتے ہیں اب ان لاڈلوں کا خاتمہ کرنا ہی ہوگا۔
ملک ابوذر منجوٹھہ