زیناگینگ کی گرفتاری
جرائم ہر معاشرہ میں ہوتے رہتے ہیں ایک طرف تو ترقی یافتہ ممالک میں جیلیں بند کی جارہی ہیں کہ وہاں کرائم کی شرح ہی نہی ہے اور ان ممالک نے جیل ملازمین کو اور محکمہ جات میں ایڈجسٹ کرنے کے ساتھ ساتھ جیلوں میں بھی کئی سرکاری دفاتر قائم کر دیے ہیں جبکہ قیام پاکستان سے ہی جہاں اغیار کی شازشیں وہیں اقتدار کی بے معنی جنگ سے آئے غربت بیروز گاری اور عدم برداشت میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس بناء پر نوجوان نسل میں مثبت کی بجائے منفی سرگرمیاں عروج پکڑ رہی ہیں اور جہاں آئے روز ملک میں جیلوں تھانہ جات اور پولیس چوکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں پولیس فورسز بھی نت نئے ناموں سے سامنے آرہی ہیں ضلع لیہ جو کہ ماضی میں امن کا گہوارہ ہوتا تھا تھل کے باسی چوری ڈکیتی کے نام سے ہی ان واقف تھے اب یہاں بھی آئے روز مختلف سنگین وارداتیں ہو رہی ہیں ان وارداتوں کے پیچھے ہمیشہ ہی دوسرے علاقوں کے جرائم پیشہ عناصر کا ہی ہاتھ نظر آتا ہے ڈی ایس پی سرکل چوبارہ سعادت علی چوہان جو کہ قبل ازیں ڈسٹرکٹ پولیس لیہ میں بطور ڈی ایس پی سرکل چوبارہ 16جون 2014سے اکیس اپریل 2016تک بھی اپنے فرائض ادا کر چکے تھے محکمانہ تبادلہ جات کے بعد انہوں نے 19جون 2017کو دوبارہ ڈی ایس پی سرکل چوبارہ کا چارج سنبھالنے کے بعد 20جولائی 2017کو ڈی ایس پی سرکل چوبارہ آفس چوک اعظم میں پبلک ریلیشن آفیسر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عرفان فیض ایس ایچ او تھانہ چوبارہ ذکی ریحان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈکیتیوں کی متعدد وارداتوں میں ملوث بین الاضلاعی زینا ڈکیت کی گرفتاری بارے بریفنگ دی جس میں گینگ کے ارکان محمد زین عرف زینا ولد محمد بوٹاجٹ ساکن محلہ اشرف آباد سمندری ضلع فیصل آباد سید زمان رضا شاہ ولد حسن رضا سکنہ سمندری فیصل آباد محمد عاصم ولد برکت علی جٹ چک نمبر 479گ ب سمندری عامر شہزاد ولد محمد خوشحال سکنہ کرنال ضلع چکوال جن سے چار موٹر سائیک دو پسٹل اور نقدی پیسٹھ ہزار روپے برآمد ہوئے اور انکے خلاف تھانہ چوک اعظم میں مقدمہ نمبر 373/17تھانہ چوبارہ میں مقدمات نمبرز 220/17۔241/17سمیت متعدد مقدمات درج تھے ملزمان کے خلاف ڈکیتی کے ہی مقدمات درج تھے اور ملزمان منظم گروہ کی صورت میں وارداتیں کرتے تھے سوال یہ ہے کہ یہ ملزمان تو پولیس آفیسران نے پیشہ وارانہ مہارت کے تحت گرفتار کر لئے مقامی طور پر انکے سہولت کار کون تھے کہاں انکے ٹھکانے تھے جہاں وہ واردات سے پہلے یا بعد میں وقت گزارتے تھے یہ سوال تشریح طلب ہیں کوئی بھی شخص یا منظم گروہ اکیلا کہی واردات نہیں کر سکتا ماضی میں بھی تھانہ چوک اعظم اور چوبارہ سے کئی ایسے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان اور گروہ پکڑے گئے جنکا تعلق دوسرے اضلاع یا صوبہ جات سے ہوتا تھا باشبہ تھل کے باسیوں کے لئے یہ حوصلہ افزا خبر ہے جس طرح ماضی میں لیہ فتح چوک اعظم میں ہونے والی ڈکیتیوں کے ملزمان کے مختلف گروہ ڈسٹرکٹ پولیس لیہ نے گرفتار کر کے لوٹی ہوئی دولت واپس کرائی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لیہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد علی ضیاء کی تعیناتی سے قبل اس کی کوئی مثال نہی ملتی تحفظ عزت کیساتھ سلوگن کیساتھ تاجر جو کہ آئے روز ڈکیتیوں کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار تھے اب ریاستی اداروں پراعتماد کرتے نظر آتے ہیں زینا گینگ نہ صرف ضلع لیہ بلکہ فیصل ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ میں بھی مختلف وارداتیں کر چکے تھے جہاں وہ پولیس کو مطلوب تھے ڈسٹرکٹ پولیس لیہ کی یہ بھی ایک کاوش ہے کہ اس نے فیصل ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ میں ڈکیتیوں کے ملوث ملزمان کوچوبارہ کے ریگستان میں اسوقت پکڑ لیا جب وہ تھانہ چوبارہ کی حدود میں موٹر سائیکل ڈکیتی کی واردات کے بعد فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایس ایچ او چوبارہ ذکی ریحان نے اپنی ٹیم کے ہمراہ گرفتار کرلیا سرکل چوبارہ میں دوسرا تھانہ چوک اعظم ہے جہاں وسیم اکبر لغاری ایس ایچ او تعینات ہیں چوک اعظم میں بھی ماضی میں ڈکیتی کی متعدد سنگین وارداتیں ہوئی جس کے ملزمان کی گرفتاری اور لوٹی دولت کی برآمدگی بھی ہوئی وسیم اکبر لغاری کے دور میں جہاں جرائم میں کمی واقع ہوئی وہیں تھانہ چوک اعظم سے شفارش کلچر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے زینا گینگ کی گرفتاری کے علاوہ ایک مہینہ کے مختصر دورانہ میں چودہ اشتہاری ملزمان ڈی کیٹیگری گرفتار ہوئے پنجاب کرایہ داری ایکٹ کے چھ مقدمات درج ہوئے پنجاب ساونڈ سسٹم کا ایک مقدمہ درج جبکہ منشیات فروشی کے چار مقدمات درج کرنے کے بعد پچاس لیٹر دیسی شراب اور دو شراب نوش گرفتار ہوئے پریس کانفرنس میں ڈی ایس پی سرکل چوبارہ نے کہا کہ ملزمان کے خلاف مزید دیگر اضلاع سے ریکارڈ لینے کے ساتھ ساتھ تفتیش کا عمل بھی جاری ہے مقامی سہولت کاروں تک بھی پولیس رسائی حاصل کرنے میں کوشاں ہے بلاشبہ ڈکیتیوں کے پہہ در پہہ گروہوں کی گرفتاری ڈسٹرکٹ پولیس لیہ کا احسن قدم ہے مگر تھانہ چوک اعظم کی حدود میں 1998میں قتل ہونے والے معروف سماجی شخصیت ڈاکٹر اللہ بخش ڈونہ کے بیٹے اور دوسال قبل قتل ہونے والے تاجر چوہدری سلیم جٹ کے قاتلوں کی عدم گرفتاری ایک چیلنج بنی ہوئی ہے جرائم کا خاتمہ یقینی طور پر ممکن نہی مگر اگر با صلاحیت آفیسران تعینات ہوں تو ریاستی آفیسران اور عوام میں اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے جس سے کریمینل افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہیں اور معاشرہ پر امن معاشرہ کہلاتا ہے