حرف نور۔۔۔
پنجاب میں انفارمیشن ایکٹ (معلومات تک رسائی)
پنجاب میں انفارمیشن ایکٹ (معلومات تک رسائی)
تحریر: مہر کامران تھند
موجودہ دور میں جہاں ہر طرف ہر کوئی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے،ہر ملک کا ہر آزاد شہری اپنے حقوق کی بات کرتا ہے،کہیں کوئی آزادی اظہار رائے کا حق مانگتا ہے،کہیں ادارے تو کہیں قومیں،کہیں علاقے، قومیں آزادی مانگتے ہیں،جب ادارے، قومیں، وطن آزاد ہو جاتے ہیں تو ہر قوم، ملک،ریاست اپنے شہری کو مختلف حقوق دینے کی پابند ہوتی ہے اسی طرح ہر معاشرہ اپنے شہریوں کو اداروں کے امورومعاملات سے آگاہ رکھنے کا پابند ہوتا ہے،اور ہر آزاد معاشرہ اپنے شہریوں کو ریاست، ریاستی اداروں کے امور و
معاملات سے آگاہ رکھنے کے لئیے معلومات تک رسائی تک کا قانون بناتی ہے اور پابند رہتی ہے کہ وہ عام شہریوں کو ان اداروں کے متعلق معلومات حاصل رہے۔پاکستان میں بھی1973 کے آئین میں سیکشن 19 کے تحت شہریوں کو معلومات تک رسائی دینے کاقانون موجود ہے، لیکن جیسا کہ پاکستان مین 1973 کے آئین کا حشر ہو رہا ہے اسی طرح دوسرے قوانین پر عملدرآمد ہوتا رہا ہے۔جس کی وجہ سے ملکی سطح پر معلومات تک رسائی کے قانون پر توجہ نہ دی گئی، 2002 میں پرویز مشرف کی حکومت کے دوران حکومت پاکستان نے فریڈم آف انفارمیشن آرڈینینس نافذ کیا،یہ قانون آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ایک شرط کی وجہ سے پاس کرنا پڑا۔اسی طرح 2001 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت شق نمبر137 کے تحت تمام ضلعی حکومتوں کو پابند بنایا گیا تھاکہ وہ دفتری ریکارڈ کی معلومات کے متعلق معلومات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہوئے پبلک ڈسکلوژرزاینڈ ایکسیس ٹو انفارمیشن میکنیزم تیار کریں۔حکومت بلوچستان نے 2005 اور حکومت سندھ نے2006 میں یہ قانون نافذ کئیے جبکہ حکومت پنجاب اور خیبر پختونخواہ نے 2001 میں نافذ کر دئیے تھے لیکن عوام تک اس قوانین کی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ اثر انداز نہ ہو سکے اور ملک میں بیٹھی ہماری بیورو کریسی بھی ایسے قوانین کے حق میں کب ہے کہ ایسے قوانین کے متعلق عوام تک خبر ہونے دے۔بہرحال 2010 میں میڈیا، وکلاء سول سوسائیٹی و دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے دباو میں آ کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے 1973 کے آئین کے سیکشن 7 اٹھارویں ترمیم ایکٹ 2010 کے دسویں نمبر میں نئی شق 19 اے شامل کر کے پاکستان کے شہریوں کو معلومات تک رسائی کے قانون کو یقینی بنایا گیا۔جس کے مطابق قانون کے لاگو کیئے گئے ضابطوں میں رہ کر عوامی اہمیت کی ہر معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اگست 2013 میں معلومات تک رسائی کا قانون پاس کر کے نافذ العمل کر دیا۔16 دسمبر2013 کو حکومت پنجاب نے Punjab Transperancy and Right to Inforamtion act 2013 (معلومات تک رسائی) پاس کرکے نافذ العمل کر دیا۔اس معلومات تک رسائی قانون کے تحت پنجاب کا ہر شہری گورنمنٹ کے اداروں، ذیلی اداروں،سیمی گورنمنٹ،کمپنی،سپیشل ادارے،پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے ادارے،سیکرٹریٹ گورنر آف پنجاب،کورٹ،ٹربیونل،دفتر،بورڈ، کمیشن،کونسل،یا ایسا کوئی بھی ادارہ جس کو گورنمنٹ آف پنجاب فنڈز دیتی ہو،اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی،صوبائی قانون کے ماتحت کوئی بھی باڈی،غیر سرکاری آرگنائزیشن کے متعلق معلومات، جس میں میمو ،کتاب، ڈیزائن، نقشہ، کنٹریکٹ، پمفلٹ، بروشر، آرڈر، نوٹیفیکیشن، ڈاکومینٹس، پلان، خط، لیٹر، رپورٹ، اکاونٹ سٹیٹمنٹ، پراجیکٹ پرپوزل، ٖفوٹو گراف، آڈیو، ویڈیو، ڈرائینگ، فلم،انسٹرومنٹ، مشین ریڈایبل ڈاکومنٹس، اور کسی بھی قسم کا ڈاکومینٹری میٹرئیل( جو فزیکل حیثیت رکھتا ہو) کی معلومات اس ایکٹ کے سیکشن 2J کے تحت کوئی بھی ورک، نوٹس، سرٹیفائیڈ کاپی آف ڈاکومینٹس، سرٹیفائیڈ سیمپل آف میٹرئیل کے علاوہ الیکٹرانک ڈیٹاکے ذریعے تمام معلومات لے سکتا ہے۔اس قانون کی عوام تک معلومات کے لئیے چند سیکشن کی تفصیلی معلومات کا ذکر کر رہا ہوں۔اس قانون کے شق نمبر 3 کے تحت درخواست دہندہ کسی بھی ادارے سے معلومات لینا چاہتا ہے تو وہ اپنی درخواست میں اس قانون یعنی معلومات تک رسائی کا حوالہ دے سکتا ہے۔پنجاب ٹرانسپرینسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کی شق نمبر 4 میں ہر اس ادارہ کومعلومات دینے کا پابند بنایا گیا ہے جس میں ادارے کی ساخت،اسکے افعال ا ور فرائض،اسکے ملازمین کے اختیارات و فرائض، ان فرائض کی انجام دہی کا طریقہ کاراور معیار،ادارے یا دفتر کے فرائض کے متعلق قوائد وضوابط،نوٹیفیکشن،آئین،سرکلرز، اور دیگر قانونی دستاویزات،ادارے کی طرف سے عوام کو مہیا کی جانے والی سہولیات و معلومات کی اقسام،ادارے کی فیصلہ ساذی کے عمل اور اس میں عوام کی شرکت کے مواقع کی تفصیل،ادارے کے افسران،اہلکاروں کی تنخوائیں و دیگر معلومات و مراعات،ادارے کا بجٹ،بمعہ اخراجات کی تفصیل،اس کے علاوہ اگر کسی ادارے کی طرف سے کسی قسم کی سبسڈی دی جا رہی ہے اس کی رقم،مستفید ہونے والے افراد کی تفصیل،جاری شدہ رعایت،پرمٹ،اجازت ناموں کی تفصیل شامل ہیں کا ہر شہری مطالبہ کر سکتا ہے۔اور ادارے پابند ہیں کہ یہ تمام معلومات مہیا کی جائیں۔شق نمبر 5 میں انفارمیشن کمشنرز اور کمیشن کا طریقہ کار بتایا گیا ہے۔جس میں چیف انفارمیشن کمشنر ہائیکورٹ کا جج، اور دو کمشنرز ہوں گے اس کے علاوہ ہر ضلع میں ہر ادارہ اپنا پبلک انفارمیشن مقرر کرتا ہے جس کا کام عوام کو درکار معلومات ہے، اگر یہ پبلک انفارمیشن آفیسر معلومات دینے میں ناکام رہتا ہے تو چیف انفارمیشن کمشنر کو اختیار ہے کہ وہ اس ادارہ کے انفارمیشن آفیسر یا سربراہ ادارہ کے خلاف اس قانون کے مطابق کاروائی کرے۔اس قانون کے تحت پبلک انفارمیشن آفیسر 14 دن کے اندر درخواست گزار کو اسکی معلومات دینے کا پابند ہے۔اگر کسی وجہ سے مزید وقت درکار ہو تو دخواست گزار کو تحریری اطلاع کے بعدزیادہ سے زیادہ 28 دن کے اندر معلومات دینی ہونگی۔شق نمبر6 کے تحت اگر پبلک انفارمیشن آفیسر یا سربراہ ادارہ مقررہ وقت میں معلومات نہیں دیتا تو کمیشن کو اختیارات رکھے گئے ہیں ، کمیشن انکوائری مقرر کر سکتا ہے،کمیشن 30 اور زیادہ سے زیادہ 60 دن کے اندر متعلقہ محکمہ کے خلاف کاروائی کر سکتی ہے۔جس ادارہ نے شہری کو معلومات نہ دی ہوں تو کمیشن سول کورٹ کے ذریعے متعلقہ ادارہ یا فرد کے سمن، طاقت کے ذور پر کمیشن کے سامنے حاضر ہونے کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔شق نمبر10 میں درخواست دینے کا طریقہ کار مقرر کیا گیا ہے۔اگر کسی شہری کو کسی بھی ادارہ یا اسکے ملازمین کے متعلق معلومات لینی ہیں تو شہری سادہ کاغذ پر ایک تحریری درخواست متعلقہ محکمہ کے سربراہ یا انفارمیشن آفیسر کو دے سکتا ہے۔اور باقائدہ رسید وصول کرے گا۔شہری اس درخواست میں مطلوبہ معلومات،محکمہ کا نام اور دیگر تفصیلات لکھ کر جمع کروا دے۔متعلقہ ادارہ یا آفیسراندر 14 دن شہری کو معلومات دے گا۔اگر شہری کو معلومات نہیں ملتی تو شہری اس قانون کے تحت اس ادارہ کے خلاف چیف انفارمیشن کمشنر ،پنجاب انفارمیشن کمیشن لاہور کے نام درخواست دے سکتا ہے اور پنجاب انفارمیشن کمشن اند ر 30 دن متعلقہ محکمہ کے خلاف کاروائی کر سکتا ہے۔اس قانون کی شق نمبر 15 کے تحت کمیشن متعلقہ انفارمیشن آفیسر،ادارہ کو بغیر کسی قانونی وجہ کے درخواست وصول نہ کرنے،مقررہ وقت کے اندر معلومات نہ دینے،معلومات نہ دینے میں تخریبی حربے کرنے، جان بوجھ کر غلط، نامکمل،مبہم معلومات دینے کی پاداش میں دو د ن کی تنخواہ فی دن تاخیر جواب یا زیادہ سے زیادہ 50 ہزارروپے جرمانہ کر سکتا ہے۔ اسکے علاوہ شق نمبر 16 کے تحت کمشن متعلقہ آفیسر کے خلاف دو یا دو سال سے زائدکی قید کی سزا بھی تجویز کر سکتا ہے۔ یہ ایک پاکستان میں ایک ایسا قانون ہے جس کے ذریعے اداروں کی معلومات حاصل کرنا اب شہریوں کے لئے انتہائی آسان ہو گیا ہے۔لیکن ہمارے ملک میں تعلیم کی کمی، ان قوانین تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے شہری افسران، کلرکوں ، اور بیوروکریسی کے سامنے کوئی بھی معلومات لینے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے اداروں کے سربرہان اپنے اداروں کی معلومات نہیں دیتے اور معلومات تک رسائی کے قوانین پر پھن پھلائے سانپ کی طرح ڈٹے بیٹھے ہیں اور معلومات نہ دے کر اس قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان ایک متنازعہ ہے کہ حکومت ہر وہ معلومات چھپانا چاہتی ہے جو عوام جاننا چاہتی ہے۔ لیکن کب تک ۔۔۔۔۔۔ہمارا میڈیا یہ معلومات عوام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔۔۔ہمارے شہریوں میں اتنی آگاہی نہیں ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی معلومات کے لئیے اس قانون کا سہارہ لیں۔ہمیں اور اس ملک کے باشعور افراد،سول سوسائٹی،وکلاء،ذرائع ابلاغ، این جی اوز اور ہمارے صحافی برادری ایسے قوانین کو عوام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہو سکتا ہے آپکے اور ہمارے اس عمل سے پاکستان میں رشوت خوری،لوٹ مار کے علاوہ غیر معیاری ترقیاتی سکیموں کی روک تھام ہو سکے۔۔۔۔