شوگر سکینڈل کی رپورٹ پبلش ہونے کے بعد اصل انصاف کی متلاشی مایوس ورکرز کی ڈھارس بندھی کہ اب عمران خان جاگ گیا ہے۔
اب شاید مخالفین کی ساتھ ساتھ ہر وہ شخص جو کرپشن میں ملوث ہے انجام بھگتے گا۔ عمران خان کے مایوس دوستوں کی امید تب مزید مضبوط ہوئی جب گزشتہ دنوں ایک رپورٹ پر نوٹس لیتے ہوئے عمران خان نے مختلف وزارتوں میں خلاف ضابطہ تعیناتیوں پر کابینہ ڈویژنوں سے رپورٹ طلب کی اور غلط رپورٹس جمع ہوئیں۔ جس پر عمران خان نے غصے سے سیخ پاء ہو کر انضباطی کاروائی کی وارننگ جاری کر دی۔ اب تمام وفاقی و صوبائی سیکرٹریز ورطہ حیرت میں گم ہیں کہ بیوروکریٹس کو للکارنے والا کہاں سے آگیا انکشاف ہوا ہے کہ اہم عہدوں پر خلاف ضابطہ تعینات ہونیوالے افسران کی تعداد 75سے زائد ہے ۔ جونیئر افسران کو سینئر عہدوں پر ایکٹنگ چارج دے کر من پسند فیصلے کروائے جاتے تھے جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ جس کو واضع مثال قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو اجلاس میں وزارت خارجہ کے افسران کے خلاف ریفرینس دائر کرنے کی منظوری ہے ملزمان پر جکارتہ میں پاکستان ایمبیسی کی عمارت خلاف ضابطہ فروخت کرنے کا الزام ہے۔ یہ صرف ایک نہیں عمران خان کو بیوروکریٹس کی غلط کاریوں نے بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے
میڈیا رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں پنجاب ریونیو اتھارٹی کے چیئرمین جاوید احمد کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب تھے تاہم دیگر سرکاری ملازمین کی طرح وہ بھی ریٹائر نہیں ہونا چاہتے تھے۔ ان کے پاس ایک منصوبہ تھا جس پر عملدرآمد کیلئے انہوں نے اپنے اسٹاف کو چند تجاویز تیار کرنے کی ہدایت کی۔ ان میں سے ایک تجویز ٹیکس پالیسی اور ایڈمنسٹریشن کے مشیر کی آسامی پیدا کرنا تھی۔ خبر کے مطابق اس اسامی کیلئے اہلیت کا معیار ہی کچھ ایسا بنایا گیا کہ وہ اس عہدے کے اہل ثابت ہوتے۔ اس میں کسی بھی شعبے میں ماسٹرز ڈگری کا ہونا (جو ان کے پاس تھی)، عمر کا 55 سے 62 برس کا ہونا (وہ 62 سے کم عمر کے تھے) اور ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں کم از کم 20 سال کا تجربہ ہونا اور ساتھ میں سروس میٹرز میں سیلز ٹیکس کے امور کا پانچ سال کا تجربہ ہونا (جو ان کے پاس تھا) شامل تھا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوائزر (مشیر) کا یہ عہدہ ان دو آپشنز میں سے ایک تھا جو انہوں نے خود کو ملازمت کا ممکنہ متلاشی سمجھ کر تیار کیے تھے۔ دوسرا آپشن ٹیکس اکانومسٹ کا عہدہ تخلیق کرنا تھا۔ اگرچہ یہ عہدہ پہلے سے موجود تھا لیکن وہ اس کیلئے اہل نہیں تھے کیونکہ اس کیلئے اہلیت کا معیار مختلف تھا۔ اس عہدے کیلئے ضروری تھا کہ متعلقہ شعبے میں ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کی ڈگری ہو۔ جاوید کے پاس دونوں نہیں تھیں۔ عمر کی حد بھی 25 سے 55 سال کے درمیان درکار تھی لیکن جاوید 60 کے قریب پہنچ چکے تھے۔ لہذا تبدیلی اب ممکن نہیں تھی۔ اس لئے دوسری تجویز رکھی گئی کہ اس اسامی پر اہلیت کے معیار میں تبدیلی کی جائے۔
رپورٹ کے مطابق اس طرح مجوزہ نظرثانی میں اس اسامی کیلئے متعلقہ شعبے میں ڈگری کی شرط ختم کر دی گئی، عمر کی حد بھی تبدیل کی گئی۔ اب معاملہ یہ طے پایا کہ کوئی بھی ایسا شخص اس عہدے کیلئے درخواست دے سکتا ہے جو 55 سے 62 سال کے درمیان ہو اور اس کے پاس کسی بھی شعبے میں ماسٹرز ڈگری ہو۔ گزشتہ سال 17 ستمبر کو جاوید نے پی آر اے کی اعلی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں ایڈوائزری عہدے کی تخلیق اور ٹیکس اکانومسٹ کے عہدے کیلئے اہلیت کے معیار کی تبدیلی کی متفقہ منظوری دی گئی۔
جاوید احمد اکتوبر 2019 میں ریٹائر ہوئے اور دو ماہ بعد پی آر اے نے ٹیکس اکانومسٹ کے عہدے کا اشتہار جاری کیا۔ 6 امیدواروں نے اس عہدے کیلئے درخواست دی لیکن کامیاب صرف جاوید احمد ہوئے۔بظاہر وہ ٹیکس اکانومسٹ ہیں ( لیکن ان کے پاس متعلقہ اہلیت نہیں)، کہا جاتا ہے کہ وہ بر بنائے چیئرمین ہیں اور تمام فیصلے کرتے ہیں۔ جو سہولتیں انہیں بحیثیت چیئرمین پہلے ملتی تھیں اب بھی وہی مل رہی ہیں۔ان کے علاوہ ایک معاملہ ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی کا بھی ہے جو وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے سیکریٹری تھے۔ انہوں نے بھی اپنا مستقبل بچانے کیلئے قواعد و ضوابط میں ہیرا پھیری کی۔ انہوں نے 2015 سے لیکر اب تک کئی مرتبہ قائم مقام کے عہدے پر کام کیا ہے۔
2012 میں قائم ہونے والا ادارہ پنجاب ریونیو اتھارٹی (پی آر اے) ان بدقسمت اداروں میں شامل ہے جنہیں طویل عرصہ تک ایڈہاک قیادت کے ذریعے چلایا جاتا رہا ہے۔جاوید بھی قائم مقام چیئرمین تھے۔ راحیل نے ان سے پہلے قائم مقام چیئرمین کا عہدہ سنبھال رکھا تھا۔ ان کے بعد زین العابدین کا نمبر آیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد راحیل بھی پی آر اے میں واپس قائم مقام چیئرمین بن کر آئے اور اسی وقت وہ وزیراعلی کے سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کام کر رہے تھے۔راحیل نے جو کچھ بھی کیا وہ جاوید احمد کے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بھی بدتر تھا۔
جاوید احمد نے ضابطوں میں ہیرا پھیری کی اگرچہ یہ انتہائی غیر اخلاقی حرکت تھی کہ وہ پی آر اے میں تبدیلیاں کریں لیکن راحیل نے تو وہ قواعد ہی تبدیل کر ڈالے جن میں تبدیلی یا ترمیم صوبائی کابینہ کی سطح کا کام تھا۔چیئرمین کے اختیارات اور اہلیت کا تعین کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے۔ پی آر اے ریگولیشنز میں تبدیلی کرکے ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے ہی راحیل ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچے، انہوں نے اجلاس طلب کرکے تجاویز پیش کیں کہ پی آر اے کو نجی شعبے سے اپنے چیئرمین کا اختیار حاصل ہو جائے اور اہل امیدوار کی عمر 55 سے 62 سال کے درمیان ہو۔ تجویز کو وزارت قانون کی توثیق سے مشروط کیا گیا۔تاہم، بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ اجلاس کے نکات میں توثیق کی بات شامل نہیں کی گئی اور اس طرح تبدیل شدہ اہلیت کا معیار راحیل کی ریٹائرمنٹ کے 9 دن بعد گزیٹ کی صورت میں منظور ہوگیا۔وہ اب بھی پی آر اے میں ہیں لیکن ادارے کو خدشہ ہے کہ چیئرمین کے عہدے کی اہلیت کا معیار تبدیل کرنے کیلئے اس طرح اختیارات کے ناجائز استعمال کا معاملہ کہیں کھل کر سامنے نہ آجائے۔
موجودہ قائم مقام چیئرمین زین العابدین ساہی نے رابطہ کرنے پر دونوں کیسز کی تصدیق کی۔جاوید احمد کے معاملے میں انہوں نے کہا کہ وہ اہل شخص ہیں اور عہدے پر ٹھیک ہیں تاہم زین العابدین کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ جاوید احمد کو عہدے پر رکھنے کیلئے اہلیت کا معیار کیسے تبدیل کیا گیا۔ انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ پی آر اے میں جاوید احمد ہی فیصلے کرتے ہیں۔راحیل کے معاملے میں زین العابدین نے تفصیلات میں جائے بغیر کہا کہ پراسیس میں کچھ چیزیں رہ گئیں اور پی آر اے انہیں درست کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ راحیل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ دستیاب نہیں تھے۔ ان کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ مذکورہ تبدیلی ان کے ذاتی مفاد کیلئے نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے ایسا اسلئے کیا تھا تاکہ باصلاحیت افراد آئیں اور پی آر اے میں خدمات انجام دیں۔
ماہر قانون مرزا عرفان بیگ ایڈووکیٹ نے کہاکہ سرکاری افسر کے ریٹائر ہونے سے پہلے ان اعلی عہدوں کیلئے افسران کی تیاری کو کوئی لائحہ عمل نہیں ہے جس کی وجہ سے مجبورا ریٹائرڈ افسران کی خدمات لی جاتی ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے ملک کا بڑا ٹیلنٹ ضائع ہوتا ہے، حکومت کو اس ضمن میں واضح پالیسی تشکیل دینی چاہیئے تاکہ نئے ٹیلنٹ کو ملکی بہتری کیلئے استعمال کیا جاسکے۔
پاکستانی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں یہ غداریاں اہمیت کی حامل ہیں جو ملک و قوم کے مفادات کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے مفاد کی خاطر بہت سارے پڑھے لکھے افراد کا حق کھاتے ہیں اور رزق حلال کے ساتھ ساتھ دین پر بھی بہترین لیکچر دینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر عمران خان ان بیورو کریٹس اور ٹیکنوکریٹس کا سدباب کرنے میں ناکام رہاتو حکومت کی مدت مکمل ہونا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ احکامات جاری ہونے کے بعد تیر کمان سے نکل چکا ہے اور یہ عناصر ضرور حکومتی کارکردگی میں رخنہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اگر میر جعفر صادق، کردوغکو، سعدتین کوپیک وغیرہ زندہ ہوتے تو ان آفیسران کی اعلی درجے کی منافقت دیکھ کر ضرور شرمندہ ہوتے.