13فروری1929ء کا دن ضلع جالندھر میں ایک عام سا دن تھا لیکن میاں اللہ بخش کے خانوادے کیلئے یہ پیامِ مسرت لیکر آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اولادِ نرینہ سے نواز دیا تھا۔ ضلع جالندھر کے زرخیز کھیت اور کھلیان چھوڑ کر سینکڑوں میل دور ڈیرہ غازیخان(موجودہ ضلع راجن پور) کے دور افتادہ علاقے فاضل پور کے جنگلوں میں آباد کاری کا چیلنج قبول کرنے والے اس کنبے کے سربراہ نے پہلوٹی کے بچے کا نام نذیر احمد تجویز کیا۔
صوم و صلوٰۃ کے پابند میاں اللہ بخش روایتی تعلیم سے نابلد ضرور تھے لیکن عنفوانِ شباب میں ہی وہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔ ولادتِ نذیر نے اولاد کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کے پدرانہ شوق کو مزید جِلا بخش دی۔ وسائل کی فراہمی کیلئے جستجو کی پگڈنڈیوں پر سفر اور بھی تیز کر دیا گیا۔ نصرتِ خداوندی سے بیاباں جنگل لہلہاتے کھلیانوں میں بدل گئے۔ حصولِ تعلیم کیلئے نذیر احمدکو پہلے فاضل پور اور پھر انو کھروال(ضلع جالندھر) میں والدین سے دور رہنا پڑا۔ جماعت ہفتم میں پہنچے تو جالندھر سے واپس لا کر راجن پور کے ہائی سکول میں داخل کرا دیا گیا، جلد ہی اُن کا شمار سکول کے ہونہار اور ہر دلعزیز طلباء میں ہونے لگا۔ نصابی سرگرمیوں کے علاوہ وہ کھیل کے میدانوں میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ نماز روزہ کی پابندی کے ساتھ ساتھ طلباء چاہے ہندو ہوں یا مسلم ہمیشہ اُن کے جائز حق کیلئے ایک توانا آواز بن کر ارباب اقتدار و اختیار کے سامنے ڈٹے رہے۔ 1943ء میں ایک معتصب ہندو استاد بطور ہیڈ ماسٹر سکول میں تعینات ہوا۔ موصوف کو اپنی مضمون ریاضی/جیومٹری پر گرفت کا بہت زعم تھا۔ اپنے دیرینہ تعصب کے سبب وہ مسلمان طلباء سے بہت خار کھاتا تھا۔مسلمان طلباء پر طرح طرح کے جرمانے اور پابندیاں اس کا طریق تھا۔ نذیر احمد جو اُس وقت صرف 14سال کے تھے مسلمان طلباء کے لیڈر بن کر اُبھرے۔ آپ کی بے باکانہ اور قائدانہ صلاحیتوں کے طُفیل سکول ہیڈ ماسٹر کی تمام مسلمان طلباء کو امتحان میں ناکام کرنے منصوبہ بندی نہ صرف چوپٹ ہو گئی بلکہ سکول کے اند ر ہونے والی تین سے چار کامیاب ہڑتالوں نے ہیڈ ماسٹر کو اپنی متعصابہ کوششوں میں ناکام کر دیا آپ کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں کسی فر د کا ہاتھ نہ تھا بلکہ فطرت خود ہی لالہ کی حنابندی کر تی رہی اور مشیتِ ایزدی کے مطابق آپ کو مواقع میسر آتے رہے آزادی کے عنوان کے تحت لکھا گیا مضمون اور بزمِ ادب کے موقع پر فرنگی تہذیب اور استعمار کے خلاف سکول میں کی گئی آپ کی تقریر سے ایوانِ اقتدار میں بیٹھے بہت سُوں کی جبینوں پر بَل پڑنے لگ گئے تھے۔ میڑک امتیازی حیثیت سے پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں داخلہ لے لیا۔ کالج کی آزاد فضا میں رہتے ہوئے بھی آپ ساتھی مسلمان طلباء کی سماجی اور اخلاقی تربیت پر توجہ دیتے رہے انہی دِنوں جماعت اسلامی کے اجتماعات میں شرکت کے باعث تحریک سے متاثر ہوئے اور1946ء میں ہونے والے کل ہند اجتماعِ عام میں شرکت کیلئے الٰہ آباد تشریف لے گئے مرشد کی ایک نگاہ پڑی تو آپ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فلسفہ کے اسیر ہوگئے۔ شعور حیات کے قندیلوں میں روشنی تو اب آئی تھی۔ اللہ اور رسول ؐ کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق معاشرے کی تشکیل کیلئے تحریک کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور والدِ گرامی کے نام 16صفحات پر مشتمل خط تحریر کرتے ہوئے موجودہ فرنگی تہذیب اور تعلیم کو انگریزی استعماری نظام کا حصہ قرار دیتے ہوئے تعلیمی سلسلے کو منقطع کرنے کی اطلاع دیتے ہیں۔ والد بزرگوار سخت پریشان ہو کر ملتان چلے آتے ہیں پِدرانہ محبت، سماجی مقاطعہ کی دھمکی، انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کیلئے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر جمع دس ہزار روپے پس انداز کرنے الغرض ہر حربہ آزماتے ہیں مگر۔۔۔۔۔۔اِدھر جو فیصلہ ہو چکا وہ اَٹل ہے۔
اسلامی نظام کے قیام کے لیے جان کی قربانی کا فیصلہ برقرار رہتا ہے چنانچہ سماجی بائیکاٹ شروع ہو جاتا ہے جیب خرچ اور گھر میں داخلہ بند ہونے کا اِذن ملتا ہے اگرچہ اُن کے والد اِسلام پسند اور حق کے شیدائی تھے لیکن بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دِلانے کے خواب دیکھنے والے باپ کے ارمانوں کا جب اس طرح خون ہوا تو روایتی سلوک ہوا۔ہومیو پیتھک طریقہ علاج کے متعرف تھے اس لیے طبی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لاہور تشریف لے جاتے ہیں۔ اکتوبر1946ء میں آپ ہومیو پیتھک کی طبی تعلیم سے فراغت پا کر لاہور میں ہی تحریک کے کاموں میں مزید منہمک ہو جاتے ہیں۔ امر تسر سے لاہور آتے ہیں تو والد صاحب اپنی ناراضگی کو ختم کر کے پدرانہ شفقت سے مجبور ہو کر لاہور تشریف لاتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر سے اپنے بیٹے کو اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کا واسطہ دیکر واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ”میں اپنی زندگی کا ایک واضح مقصد اور نصب العین طے کر چکا ہوں اور وہ ہے اسلامی نظام کا قیام۔۔۔۔۔ اس مقصد کیلئے جدوجہد میرا فرض ہے آپ اطمینان رکھیے میری راہ، راہِ مستقیم ہے آپ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے راہِ حق میں آنے والی مشکلات میں ثابت قدم رکھے“۔ والد صاحب جو خود دین کے شیدائی تھے نوجوان ڈاکٹر نذیر احمد کی باتوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
پٹنہ صوبہ بہار میں مسلم ہندو فسادات ہوتے ہیں تو ڈاکٹر نذیر احمد رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور مسلسل چھ ماہ تک امدادی کیمپوں کے اندر موجود اپنے لُٹے پَٹے مظلوم مسلمان بھائیوں کی طبی امداد بحالی میں مشغول رہتے ہیں۔ مئی1947ء میں حکم ملتا ہے کہ ڈیرہ غازیخان جا کر تحریک کا کام منظم کیا جائے چنانچہ ضلع ڈیرہ غازیخان چلے آتے ہیں اگست1947 ء میں پاکستان معرض وجود میں آتا ہے تو حکومتِ وقت کی جانب سے مہاجرین کیلئے امدادی کیمپ قائم کر دیئے جاتے ہیں۔ گرلز کالج میں امدادی کیمپ میں بڑھ چڑھ کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
پھر شہر ڈیرہ غازیخان نے دیکھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد نے دسمبر1947 ء میں تحریک کی دعوت کا باقاعدہ آغاز کیا آپ کا معمول یہ تھا کہ مہینے میں پندرہ روز صبح سے لیکر نماز ظہر تک کلینک پر مریضوں کا علاج کرتے اور پھر عصر سے عشاء تک شہر کے مختلف علاقوں میں دین کے ابلاغ کا کام انجام دیتے اور 15سے 30کلومیٹر تک سائیکل پر سفر کرتے ہوئے تحریکی سرگرمیاں انجام دیتے۔ مہینے کا بقیہ پندرہ دن کلینک بند رہتا اور آپ دور افتادہ مقامات کا رخ کرتے ہوئے ضلع بھر میں قریہ قریہ گھوم کر لوگوں کو دین کے راستے پر چلنے کی دعوت پیش کرتے۔اخلاص اور جہدِ مسلسل کے نتیجے میں ضلع بھر میں متعدد مقامات پر دارالمطالعہ /لائبریریاں، شعبہ ہائے خدمتِ خلق اور خیراتی شفا خانے قائم کئیے گئے جماعت اسلامی ڈیرہ غازیخان کا شعبہ خدمتِ خلق نادار اور مظلوم عوام کیلئے ایک سائبان بن گیا۔بے لوث خدمت کے طُفیل ڈاکٹر نذیر احمد کا نام ضلع بھر میں جانا اور پہچانا جانے لگا۔ دین اسلام کے نام پر بننے والے ملک خداداد میں دینِ اسلام کا پرچار ہو یہ کارخانہء فرنگ میں پنپنے والی استعماری قوتوں کو کب منظور تھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد جیسا کوئی راہِ حق کا راہرو مظلوم اور پسی ہوئی عوام کی آواز بن کر ایوانِ اقتدار سے ٹکر لے۔ چنانچہ حق گوئی اور بے باکی کی سزا دینے کیلئے زندانوں کے دروازے کھول دیئے گئے وقت بے وقت کے تعاقب، نظر بندیاں، جھوٹے سیاسی مقدمات کے نتیجے میں 22مرتبہ کی اسیری بھی اس مردِ درویش کی کھری اور دو ٹوک بات کہنے کے حوصلے کو نہ توڑ سکی۔ اُن کا اندازِ تقریر ”عوامی مارشل لاء“ کے خلاف شمشیر برہنہ کی طرح چمکا۔ بات کہنے کا ہنر ایسا تھا کہ ہر سننے والا یہ سمجھا کہ گویا یہ تو اسکے دل میں تھی۔ 1970ء میں عام انتخابات ہوئے تو ڈیرہ غازیخان کی عوام نے اپنے درمیان رہنے والے ڈاکٹر نذیر احمد کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر ممبر قومی اسمبلی بنا کر قومی اسمبلی میں بھیج دیا۔
پاکستان کے دولخت ہونے پر آپ بہت دلگرفتہ تھے۔ 27مئی1972 ء کو اپنی یادگار تقریر میں فرماتے ہیں ”عزیز نوجوانو! تمہاری بہنیں آج کلکتہ کے بازاروں میں تمہیں پکار رہی ہیں کیا اس قوم میں ایک بھی محمد بن قاسم نہیں ہے کیا میں یہ بات مان لوں کہ آج ہم مر گئے ہیں۔ کیا یہ قوم بانجھ ہو گئی ہے کہ ایک محمد بن قاسم بھی پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ کیا ہم اس لمیے کو برداشت کر لیں گے؟ میرے عزیز بھائیو سنو! اگر تم نے اس اندوہناک المیے کو برداشت کر لیا تو یہ تمہاری موت ہے۔ قومیں میدان جنگ میں نہیں مرتیں قومیں غیرت کی موت مرتی ہیں۔ میدانِ جنگ میں قوموں نے شکست کھائی لیکن پھر پلٹ کر اپنی غیرت اور حمیت کے زور پر شکست کو فتح میں بدل دیا۔ لیکن جن قوموں کی غیرت مر گئی و ہ قومیں ہمیشہ کیلئے مر گئیں۔
اہلیان ڈیرہ غازیخان کے دلوں میں رہنے والے مردِ صحرائی کا نام فسطائت کے ایوانوں میں ببانگ دہل حق بات کہنے کے طُفیل مطلعء سیاست پر چھاتا چلا گیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد کا جرأت مند لہجہ اقتدار کے کلیجے میں کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا اور وہ جنہیں تابِ سماعت نہیں، جو عدل کی دُہائی نہیں سُن سکتے، جن کے مزاج پر یہ لہجہ کوہِ گراں سے کم نہیں انہوں نے اس توانا آواز کو دبانے کی ناکام کوششوں کے بعد 8جون1972ء کو اس آواز کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ ان کی زبان خاموش ہوگئی لیکن خون کا ایک ایک قطرہ بولنے لگا اور بولتا رہے گا اسے کون خاموش کریگا خوشبو کو کب کوئی بیڑیاں پہنا سکا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہو کر جاوداں ہوگئے۔ وہ اُسی کے نام پر جیئے اور اُسی کے نظام کو ملکِ خداداد میں برپا کرنے کی کوششوں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر گئے۔ ان کا ہر نقش، نقشِ دوام بن گیا۔
تحریر: ڈاکٹر حسین میاں
0333-6473277