رشتے ہمیشہ احساس سے جڑتے اور بے حسی سے ٹوٹتے ہیں ۔احساس اور بے حسی ہی ہے جو ان کو ایک زنجیر میں باندھتی ہے اور توڑتی ہے ۔قارئین میں اس کالم کے زریعے ان تمام پہلوؤں کو قلم بند کرنا چاہتی ہوں جن سے ہم جانے انجانے میں پہلو تہی کرتے ہیں اور بہت سی خود ساختہ ناقابل حل مشکلات کا شکار ہو کر اپنی زندگی کو خار زار بناتے چلے جاتے ہیں ۔ بہت سادہ اور عام فہم سے کلیات ہیں جن سے ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لا سکتے اور خار زار کو گلزار بنا سکتے ۔
انسان اشرف المخلوقات اور معاشرتی حیوان ہے جو معاشرے اور رشتوں کے بغیر نامکمل ہے ۔دکھ تکلیف خوشی غم ہی زندگی ہائے کا مجموعہ ہے۔اب سوال اٹھتا کہ ہم زندگی کو کس طرح خوشگوار بنا سکتے ؟ سب سے پہلے میں ازدواجی زندگی کی بات کرنا چاہوں گی جو بنیاد ہے ۔شادی کے بعد۔نئی زندگی کی ابتدا بہت خوبصورت ہوتی ہے ۔دو انجانے لوگ سفر زیست شروع کرتے ہیں ۔اس سفر کو تاحیات نبھانے کے وعدے وعید کرتے ہیں مگر بسا اوقات رفتہ رفتہ زندگی کے رنگ پھیکے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں اور ان میں تلخی گھلنے لگتی ہے اندر ہی اندر محبتیں رو بہ زوال ہونے لگتی ہیں مضبوط رشتے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹنے لگتے ہیں اکثر زندگی میں مشینی انداز آ جاتا اور احساسات ایک کونے میں سر جھکا کر بیٹھ جاتے ہیں۔تب وقت ہوتا ہے تبدیلی کا کہ اس جمود کو توڑا جائے ۔منجمند برف کو پگھلایا جائے ۔انا کو رشتوں سے دیس نکالا کیا جائے ۔کیسے؟؟؟
کمانا مرد کی ذمہ داری ہے وہ اپنے آفس یا جہاں بھی ملازمت کرتا وہاں خود کو بہت اعلی کردار اور خوش مزاج ظاہر کرتا مگر گھر آتے ہی یہ نقاب تڑخ جاتا بیوی چڑیل لگنے لگتی کیوں ؟ اس کا مہذبانہ لہجہ بدمزاجی میں بدل جاتا کیوں؟؟ تھوڑی سی خیالات میں ترمیم کریں اندر چھپا محبت کا جذبہ جگائیں کہ دنیا ‛کاروبار اور سٹیج ہے۔ اصل دنیا آپ کا گھر ہے جہاں آپ کی ہمسفر اور آپ کے بچوں اور نسل کی حفاظت کرنے والی بیوی نام کی ایک زندہ مخلوق موجود ہے ۔اب جب آپ دوسروں کو مسکراہٹ بانٹ چکے ہیں تو وہ بھی اسی مسکراہٹ اور خوش خلقی کی حقدار ہے تو جناب اسے بھی مسکراہٹ سے نوازیے اور آئی لو یو کہنے میں بھلا کیا قباحت ہے یہاں تو جوتے پڑنے کا اندیشہ بھی نہیں۔واپس گھر جاتے بیوی کے لیے کچھ لے جانا مت بھولیں خواہ ایک دس روپے کا پھول ہی کیوں نہ ہو ۔ویسے پھول تو آپ کسی باغ سے بھی لے سکتے مفت ۔مالی کو بتا کے کہ بیوی کو دینا ہے۔یقین کریں وہ بخوشی آپ کو دے دے گا کہ محبتیں خوشبو کی طرح ہوتیں۔خیر گھر پہنچ کر سوچ لیں اب آپ کا بقیہ وقت آپ کا اپنا اور آپ کی فیملی کا ہے یہ آپ کا فرض بھی اور حق بھی ۔بچوں سے گفتگو کریں ان کی پڑھائی دلچسپیاں پوچھیں ان کے ساتھ کھیلیں ہنسیں مسکرائیں کبھی بھی غصہ نہ کریں کیونکہ تمسخرانہ اور غصہ اولاد کو آپ سے دور کر دے گا۔ان کے دوست بنیں تاکہ وہ باہر دوستیاں تلاش کر کے آپ کا بھرم نہ توڑیں۔عمومی رویہ کہ ہم دوسروں کی بری بات یا بد تمیزی بھی برداشت کر جاتے مگر گھر والوں کی نہیں یہاں بھی برداشت اور تحمل اختیار کریں یاد رکھیں ہر فرد خواہ وہ ایک بچہ ہی کیوں نہ ہو ایک مکمل شخصیت ہے وہ نفرت محبت رکھنے کا اتنا ہی حقدار ہے جتنا آپ خود تو کیوں نفرتوں کی فصل بوئیں بچہ وہی کچھ سیکھے گا جو آپ اسے دیں گے اور وہی لوٹائے گا۔
بیوی سے بھی آپ کا رویہ عمدہ ہونا چاہیے آپ اگر باہر کام کر کے آتے تو وہ بھی سارا دن آپ کے گھر اور بچوں کو سنبھال رہی ہوتی ۔اسے بھی آپ کی توجہ کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی آپ کو ۔فراغت ملنے پر دو کپ اچھی سی چائے بنائیں اور بیگم کا ہاتھ تھام کر کسی پرسکون جگہ پر چائے پئیں اور گپ شپ کریں ۔کھانا اچھا بنا ہو تو تعریف کریں گھر صاف ہو تو سراہیں شکریہ ادا کرنا سیکھیں بہت خوبصورت لفظ ہے یہ دل میں قدر جگانے والا ۔اللہ کا شکر ادا کرنا واجب اور نا کرنا ناشکری اس طرح رشتوں کو بھی شکریہ کی دولت سے تکریم دیں۔ شکریہ کا لفظ احساس دلاتا ہے کہ کوئی آپ کے لیے اہم ہے اور آپ اس سے جڑے رہنا چاہتے وہ آپکی گڈ بک میں ہے۔
وقت کی تقسیم کرنا سیکھیں ۔کچھ وقت اپنے والدین کو بھی دیں اس وقت صرف ان کا بیٹا بن کر جائیں ان سے اظہار محبت کریں ۔انکی گود میں سر رکھ کر اپنے ہونے کا احساس دلائیں۔یہ آغوش آپ کی ساری الجھنیں رفع کر کے آپ کو سکون سے مالا مال کر دے گی۔ ان سے گفتگو کریں ان کی ضرورتیں سمجھیں۔انکی ضروریات بن کہے پوری کرنے کی کوشش کریں ۔ ۔ایک محلے میں رہتے ہوئے سب کی خیریت و عافیت سے باخبر رہیں فقط ایک مسکراہٹ خلوص سے کچھ خرچ نہیں ہوتا مگر ملتا بہت کچھ ہے ۔دوست بھی زندگی کی اہم ضرورت ہیں ان کے لیے بھی وقت نکالیے ان کے دکھ سکھ بانٹیے ۔ہر مسئلے کا مثبت حل نکالنا سیکھیے ۔
اب آتی ہوں خواتین کی طرف تو ازدواجی زندگی کا دوسرا پہیہ بیوی ہوتی ہے وہ اگر عقل وشعور سے گھر کو بنااور سنوار سکتی ہے تو تباہ و برباد بھی کر سکتی ہے ۔ہر وقت کی چخ چخ نہ صرف بچوں اور ماحول کو متاثر کرتی بلکہ شوہر کو بھی بے زار کرتی ۔سو بیوی کا کردار بھی مثبت ہونا چاہیے شوہر کو دروازے تک خدا حافظ کہیں مسکرائیں کہ آپ کے آرام وسکون کے لیے محنت کرتا ۔اس کے آنے سے پہلے کام نبٹا لیں تاکہ اسے وقت دیں سکیں ۔قیمتی نہ سہی صاف ستھرا لباس زیب تن کریں ہلکی سی لپ اسٹک آپ کے چہرے کو خوبصورتی عطا کر سکتی سو اس میں کنجوسی کیسی.بیوی کو علم ہونا چاہیے کہ اس کے شوہر کو کیا پسند ہے ۔ خوشدلی سے استقبال کریں ان سے دن کی بابت دریافت کریں کہ کیسا گزرا ۔
کھانا تو ہر گھر میں پکتا ہے بنیادی بات اس کو پیش کرنا ہے ۔دستر خوان کا ماحول خوشگوار بنانا ہے برتن آرام سے بھی رکھا جاسکتا اور پٹخ کر بھی انداز ہی سوچ کا آئینہ دار ہے ۔ مہینے میں ایک دو دفعہ باہر تفریح کے لیے جایا جاسکتا ہے ۔آپ گھر کا کھانا لے جاکر باہر کسی پارک میں کھا کر بھی لطف اندوز ہو سکتے ۔
حیران کرنا سیکھیے ۔بہت اہم بات میاں بیوی ایک دوسرے کو حیران کرنا سیکھیں ۔ارے آپ مسکرا رہے ۔مسکرائیے مت ۔سمجھیے مرد دریافت کا پرندہ ہے اسے ہر نئی چیز بھاتی تو بطور بیوی بھی خود میں چینچ لائیں اور اسے حیران کریں تاکہ وہ آپ میں دلچسپی لے ۔یہ تبدیلی لباس ۔ہئیر اسٹائل ۔گفتگو ۔نت نیا کھانا۔گھر کی آرائش کے زریعے آپ با آسانی لا سکتیں ۔خوشبو کا استعمال بہت مثبت اثرات مرتب کرتا ۔مہکا صاف ستھرا گھر ۔صاف ستھری بیوی اور بچے مرد کے لیے باعث طمانیت ہوتے ۔
حالات اچھے برے ہوتے یہی زندگی کا حسن ہے ۔برے حالات میں بھی قناعت کرنا اور اچھے کی امید رکھنا کوشش کرنا سب بدل سکتا ۔تبدیلی ہم خود اپنے اندر لاتے خواہ وہ اچھی ہو یا بری یہ نہ تو الہامی ہوتی نہ کوئی باہر سے آکر حالات کو درست کرسکتا کیونکہ خدا بھی اسکی مدد کرتا جو اپنی مدد آپ کرتا سو زندگی کو آپ گزاریں نہ کہ زندگی آپ کو گزار دے۔میاں بیوی بچوں کے بعد ایک قریبی رشتہ سسرال اور میکے کا ہوتا تو میاں اور بیوی سے متصل ہوتا ان سے اچھا سلوک زندگی میں کافی مشکلات حل کر دیتا کہ جب آپ سب سے اچھا سلوک کریں گے تو جوابا برا نہیں ہوگا ۔
مثبت عمل اور مثبت انداز فکر آپ کی زندگی کو بدل سکتا ۔اور خوشیاں آپ کے اردگرد آپ کی مٹھی میں ہی رقصاں ہیں ضرورت صرف چشم بینا کی ہے ۔مسکرائیے کہ دنیا آپ کے قدموں تلے ہے۔