• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

{مہمان کالم } کشمیر کی جنگ ناگزیر ہے؟ سلیم صافی

webmaster by webmaster
اگست 18, 2019
in کالم
1
{مہمان کالم } کشمیر کی جنگ ناگزیر ہے؟ سلیم صافی

کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کئی حوالوں سے منفرد اور اپنی مثال آپ ہے۔

آزادی کی جدوجہد کئی اور اقوام نے بھی کی ہیں لیکن اتنی طویل اور صبر آزما جدوجہد کشمیریوں کے حصے میں آئی۔ لوگ سیاسی جدوجہد کرتے ہیں یا مسلح لیکن کشمیریوں نے ہر طریقہ آزمایا۔ ہم نے یٰسین ملک جیسے لوگ بھی دیکھے جو ایک عرصے تک مسلح جدوجہد کرتے رہے لیکن جب محسوس کیا کہ یہ راستہ نتیجہ خیز نہیں تو اسے ترک کرکے سیاسی جدوجہد کی طرف آئے اور صلاح الدین جیسے لوگ بھی دیکھے جو سیاسی جدوجہد سے مایوس ہوکر مسلح جدوجہد کی طرف آئے لیکن حق خودارادیت کے نعرے سے دستبردار ہوئے اور نہ منزل تبدیل کی۔ سید علی گیلانی جیسے لوگوں کی صبر آزما اور طویل جدوجہد پر تو بس رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اس میں ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔ جوان ہوں کہ بوڑھے، امیر ہوں کہ غریب، سیاستدان ہوں کہ طالبعلم، غرض زندگی کے ہر شعبے کے لوگ یکساں شریک ہیں۔ دنیا کی کسی تحریک میں خواتین کی اتنی بھرپور شرکت نہیں جتنی کہ کشمیر کی جدوجہد میں ہے۔ وہ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتی ہیں، لاٹھی گولی کا سامنا کرتی ہیں، جیلوں میں جاتی ہیں لیکن آزادی کا نعرہ لگانے سے باز نہیں آتیں۔ کوئی بیوہ بن گئی تو کوئی یتیم، کوئی باپ کے سائے سے محروم ہوئی تو کوئی بھائی کی محبت سے لیکن وہ ایک ہی نعرہ لگا رہی ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ اسی طرح یہ جدوجہدِ آزادی اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اسے ختم کرانے کے لئے بھارت کی حکومت نے صرف ظلم و بربریت کے ریکارڈ نہیں توڑے بلکہ ہر طریقے سے ان کو خریدنے اور رام کرنے کی بھی کوشش کی۔ وہاں گورنر راج بھی لگائے گئے اور انتخابات کے ڈھونگ رچا کر ایلیکٹڈ کے نام پر سلیکٹڈ حکومتیں بھی بنائی اور چلائی گئیں۔ کانگریس کی حکومتوں نے اپنی چالاکیاں بھی دکھائیں اور بی جے پی کی حکومتوں نے اپنی عیاریاں بھی لیکن پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی یاری کو ختم تو کیا کم بھی نہ کراسکیں۔

اگر کشمیری یہ سب کچھ پاکستان کی خاطر کررہے ہیں اور یہ درست ہے کہ وہ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں تو پھر قومی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستانی بھی اس وقت تک سکون سے نہ بیٹھیں جب تک کشمیریوں کو اس ظلم سے نجات نہیں دلاتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان ان کی خاطر کیا کرے ؟ پاکستان کے پاس چار راستے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان عالمی فورمز پر جائے اور عالمی برادری کو آمادہ کرے کہ وہ بھارت کو کشمیریوں کو آزادی دینے کیلئے مجبور کرے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ عالمی برادری کوئی بھی اقدام‘ عدل نہیں بلکہ قومی مفادات اور گروپنگ کی بنیاد پرکرتی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی لابنگ سرد جنگ کے دنوں میں تب بہت مضبوط تھی جب پاکستان امریکہ کا خاص اتحادی تھا یا پھر جب نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ اگر مغربی دنیا نے اس دور میں پاکستان کی خاطر بھارت کو ناراض نہیں کیا تو پھر اب کبھی نہیں کرے گی۔ دوسرا آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان وہاں حریت پسندوں کی مدد کرے اور یہاں سے بھی مسلح جہادی بھیجے۔ اب یہ راستہ بھی الٹا نتائج کا باعث بنتا ہے ایک تو اس سے کشمیریوں کی خالص داخلی جدوجہد داغدار ہوگی اور دوسرے نائن الیون کے بعد عالمی برادری اس طرح کی حرکتوں، خواہ وہ کتنی جائز کیوں نہ ہوں، کو برداشت نہیں کرتی۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ پاکستان اسٹیٹس کو تسلیم کرلے اور کشمیریوں کو بھی اسٹیٹس کو پر قانع کرانے کی کوشش کرے۔ یہ راستہ بھی قابلِ عمل نہیں۔ ایک تو یہ آر پار کشمیریوں کو کسی صورت قابل قبول نہیں اور دوسرا پاکستان میں کوئی حکمراں اگر ایسا کرے گا تو اس کو جینا حرام کردیا جائے گا۔ چوتھا آپشن جنگ کا ہے اور میرے نزدیک اس وقت ہمیں اس آپشن ہی کی تیاری کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت آخری دو آپشنز میں سے کسی ایک کو لینا ہوگا۔ کچھ لوگ اسے پاگل پن کہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ جب کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تو پھر کیا ہم کشمیریوں کو مزید ستر سال تک اسی طرح تباہی و بربادی کے سپرد کئے رکھیں؟ میں جنگ کو مذاق نہیں سمجھتا اور پختون پٹی کا پاکستانی ہونے کے ناتے جنگ کی تباہ کاریوں کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بندوقوں اور سنگینوں کے سائے تلے زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے۔ آخر قومی غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور جب کشمیری ہم پاکستانیوں کی خاطر اپنی معیشت کو تباہ کرکے عزتوں اور جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں تو پھر ہم ان کی خاطر اگر مگر سے کیوں نہ نکلیں۔ پاکستانیوں کو چاہئے کہ ان کو بھی زندگی دلوادیں یا پھر اپنی زندگیاں بھی ان پر قربان کردیں ۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں فوج اورحکومت مکمل طور پر ایک پیج پر ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کے باسی بھی پہلی مرتبہ ایک صفحہ پر آگئے ہیں آج فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی بھارت کے بارے میں اسی صفحے پر آگئے جس پر حریت کانفرنس کے رہنما پہلےسے تھے۔ اس وقت بھارت کی قیادت کشمیر کے معاملے پر اختلافات کی شکار ہے جبکہ پاکستانی قوم کو جو واحد نکتہ جمع کرسکتا ہے وہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ جنگ ہے۔پاکستان میں اس وقت کسی غدار یا مودی کے یار کی نہیں بلکہ ریاست مدینہ کے نام لیوا عمران خان کی حکومت ہے جن کی کابینہ میں فواد چوہددی، علی محمد خان اور شہریار آفریدی جیسے لوگ شامل ہیں جو دن رات قوم کو جنگ اور جہاد کی تلقین کرتے ہیں بلکہ جو لوگ امن یا مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو ان کو غدار اور انڈیا کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ جنگ تباہی ہے اور جب تک مجبوری نہ ہو جنگ سے گریز کرنا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیری بھی تو ہم جیسے انسان ہیں جو ستر سال سے بالعموم اور تیس سال سے بالخصوص حالتِ جنگ میں ہیں۔ جنگ ہمارے لئے تباہ کن ہے تو ان کے لئے بھی تو ہے۔ یا تو ہمیں ان کو بھی حالتِ جنگ سے نکال دینا چاہئے، نہیں تو جنگ کرکے ہمیں بھی ان جیسا بن جانا چاہئے۔ آج اگر بھارت نہیں مان رہا تو دس سال بعد بھی نہیں مانے گا۔ آج اگر ہماری معیشت جنگ کو سہہ نہیں سک

Source: جنگ
Tags: mehman column
Previous Post

راجن پور ۔ حکومت عوام کو دہلیز پر انصاف دلانے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے ، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری

Next Post

پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لئے مفت تشخیصی ٹیسٹوں کی سہولت ختم

Next Post
پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لئے مفت تشخیصی ٹیسٹوں کی سہولت ختم

پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لئے مفت تشخیصی ٹیسٹوں کی سہولت ختم

Comments 1

  1. محمد سعد مقبول says:
    6 سال ago

    کشمیر مسئلے کا واحد اور قابل قبول حل کشمیر کے تمام علاقوں سے پاک-انڈو-چائنہ کی فوجوں کا انخلاء اور بعدازاں اقوام متحدہ کی تولیتی کونسل اور امن افواج کے ذریعے کشمیر کو خود مختاری دلانا ہے_
    باقی صافی صاحب زاہد حامد کی زبان بول رہے ہیں خیر تو ہے ناں!

    جواب دیں

محمد سعد مقبول کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کئی حوالوں سے منفرد اور اپنی مثال آپ ہے۔ آزادی کی جدوجہد کئی اور اقوام نے بھی کی ہیں لیکن اتنی طویل اور صبر آزما جدوجہد کشمیریوں کے حصے میں آئی۔ لوگ سیاسی جدوجہد کرتے ہیں یا مسلح لیکن کشمیریوں نے ہر طریقہ آزمایا۔ ہم نے یٰسین ملک جیسے لوگ بھی دیکھے جو ایک عرصے تک مسلح جدوجہد کرتے رہے لیکن جب محسوس کیا کہ یہ راستہ نتیجہ خیز نہیں تو اسے ترک کرکے سیاسی جدوجہد کی طرف آئے اور صلاح الدین جیسے لوگ بھی دیکھے جو سیاسی جدوجہد سے مایوس ہوکر مسلح جدوجہد کی طرف آئے لیکن حق خودارادیت کے نعرے سے دستبردار ہوئے اور نہ منزل تبدیل کی۔ سید علی گیلانی جیسے لوگوں کی صبر آزما اور طویل جدوجہد پر تو بس رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اس میں ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔ جوان ہوں کہ بوڑھے، امیر ہوں کہ غریب، سیاستدان ہوں کہ طالبعلم، غرض زندگی کے ہر شعبے کے لوگ یکساں شریک ہیں۔ دنیا کی کسی تحریک میں خواتین کی اتنی بھرپور شرکت نہیں جتنی کہ کشمیر کی جدوجہد میں ہے۔ وہ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتی ہیں، لاٹھی گولی کا سامنا کرتی ہیں، جیلوں میں جاتی ہیں لیکن آزادی کا نعرہ لگانے سے باز نہیں آتیں۔ کوئی بیوہ بن گئی تو کوئی یتیم، کوئی باپ کے سائے سے محروم ہوئی تو کوئی بھائی کی محبت سے لیکن وہ ایک ہی نعرہ لگا رہی ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ اسی طرح یہ جدوجہدِ آزادی اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اسے ختم کرانے کے لئے بھارت کی حکومت نے صرف ظلم و بربریت کے ریکارڈ نہیں توڑے بلکہ ہر طریقے سے ان کو خریدنے اور رام کرنے کی بھی کوشش کی۔ وہاں گورنر راج بھی لگائے گئے اور انتخابات کے ڈھونگ رچا کر ایلیکٹڈ کے نام پر سلیکٹڈ حکومتیں بھی بنائی اور چلائی گئیں۔ کانگریس کی حکومتوں نے اپنی چالاکیاں بھی دکھائیں اور بی جے پی کی حکومتوں نے اپنی عیاریاں بھی لیکن پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی یاری کو ختم تو کیا کم بھی نہ کراسکیں۔ اگر کشمیری یہ سب کچھ پاکستان کی خاطر کررہے ہیں اور یہ درست ہے کہ وہ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں تو پھر قومی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستانی بھی اس وقت تک سکون سے نہ بیٹھیں جب تک کشمیریوں کو اس ظلم سے نجات نہیں دلاتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان ان کی خاطر کیا کرے ؟ پاکستان کے پاس چار راستے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان عالمی فورمز پر جائے اور عالمی برادری کو آمادہ کرے کہ وہ بھارت کو کشمیریوں کو آزادی دینے کیلئے مجبور کرے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ عالمی برادری کوئی بھی اقدام‘ عدل نہیں بلکہ قومی مفادات اور گروپنگ کی بنیاد پرکرتی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی لابنگ سرد جنگ کے دنوں میں تب بہت مضبوط تھی جب پاکستان امریکہ کا خاص اتحادی تھا یا پھر جب نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ اگر مغربی دنیا نے اس دور میں پاکستان کی خاطر بھارت کو ناراض نہیں کیا تو پھر اب کبھی نہیں کرے گی۔ دوسرا آپشن یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان وہاں حریت پسندوں کی مدد کرے اور یہاں سے بھی مسلح جہادی بھیجے۔ اب یہ راستہ بھی الٹا نتائج کا باعث بنتا ہے ایک تو اس سے کشمیریوں کی خالص داخلی جدوجہد داغدار ہوگی اور دوسرے نائن الیون کے بعد عالمی برادری اس طرح کی حرکتوں، خواہ وہ کتنی جائز کیوں نہ ہوں، کو برداشت نہیں کرتی۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ پاکستان اسٹیٹس کو تسلیم کرلے اور کشمیریوں کو بھی اسٹیٹس کو پر قانع کرانے کی کوشش کرے۔ یہ راستہ بھی قابلِ عمل نہیں۔ ایک تو یہ آر پار کشمیریوں کو کسی صورت قابل قبول نہیں اور دوسرا پاکستان میں کوئی حکمراں اگر ایسا کرے گا تو اس کو جینا حرام کردیا جائے گا۔ چوتھا آپشن جنگ کا ہے اور میرے نزدیک اس وقت ہمیں اس آپشن ہی کی تیاری کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت آخری دو آپشنز میں سے کسی ایک کو لینا ہوگا۔ کچھ لوگ اسے پاگل پن کہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ جب کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تو پھر کیا ہم کشمیریوں کو مزید ستر سال تک اسی طرح تباہی و بربادی کے سپرد کئے رکھیں؟ میں جنگ کو مذاق نہیں سمجھتا اور پختون پٹی کا پاکستانی ہونے کے ناتے جنگ کی تباہ کاریوں کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بندوقوں اور سنگینوں کے سائے تلے زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے۔ آخر قومی غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور جب کشمیری ہم پاکستانیوں کی خاطر اپنی معیشت کو تباہ کرکے عزتوں اور جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں تو پھر ہم ان کی خاطر اگر مگر سے کیوں نہ نکلیں۔ پاکستانیوں کو چاہئے کہ ان کو بھی زندگی دلوادیں یا پھر اپنی زندگیاں بھی ان پر قربان کردیں ۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں فوج اورحکومت مکمل طور پر ایک پیج پر ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کے باسی بھی پہلی مرتبہ ایک صفحہ پر آگئے ہیں آج فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی بھارت کے بارے میں اسی صفحے پر آگئے جس پر حریت کانفرنس کے رہنما پہلےسے تھے۔ اس وقت بھارت کی قیادت کشمیر کے معاملے پر اختلافات کی شکار ہے جبکہ پاکستانی قوم کو جو واحد نکتہ جمع کرسکتا ہے وہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ جنگ ہے۔پاکستان میں اس وقت کسی غدار یا مودی کے یار کی نہیں بلکہ ریاست مدینہ کے نام لیوا عمران خان کی حکومت ہے جن کی کابینہ میں فواد چوہددی، علی محمد خان اور شہریار آفریدی جیسے لوگ شامل ہیں جو دن رات قوم کو جنگ اور جہاد کی تلقین کرتے ہیں بلکہ جو لوگ امن یا مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو ان کو غدار اور انڈیا کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ جنگ تباہی ہے اور جب تک مجبوری نہ ہو جنگ سے گریز کرنا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ کشمیری بھی تو ہم جیسے انسان ہیں جو ستر سال سے بالعموم اور تیس سال سے بالخصوص حالتِ جنگ میں ہیں۔ جنگ ہمارے لئے تباہ کن ہے تو ان کے لئے بھی تو ہے۔ یا تو ہمیں ان کو بھی حالتِ جنگ سے نکال دینا چاہئے، نہیں تو جنگ کرکے ہمیں بھی ان جیسا بن جانا چاہئے۔ آج اگر بھارت نہیں مان رہا تو دس سال بعد بھی نہیں مانے گا۔ آج اگر ہماری معیشت جنگ کو سہہ نہیں سک
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.