تھل کے لوگ سرائیکی صوبہ کیلئے بڑی دیر سے متحرک چلے آرہے ہیں ، ان کی سرائیکی صوبہ کیلئے جدوجہد اور محبت ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن ملتان کی طرف سے وہ محبت نہیں ملی ہے، جس کے تھل کے لوگ حقدار تھے، تھل کے لوگ تو اب تک اپنے آپ کو سرائیکی صوبہ کیساتھ نتھی کرکے کھڑے ہیں ، اور انتظار کررہے ہیں کہ ملتانی اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر اپنے فیصلہ کا دوبارہ جائز لینگے،اس بات کا شکوہ تھل کے اہم ضلع میانوالی کے معروف شاعر سلیم شہزاد نے کیا ۔ سلیم نے کہا کہ جعفرافیائی طورپر بھی تھل سرائیکی صوبہ کیساتھ چلا آرہاہے ۔ لوگ تاریخی اور ثقافتی طورپر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ناقابل یقین صورتحال یہ ہے کہ ملتان کے قریشی شاہ محمود نے پنجاب کی جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کیلئے تقسیم یوں کی ہے کہ بہاولپور ڈویثرن ، ملتان ڈویثرن اور ڈیرہ غازی خان ڈویثرن کو اس میں شامل کرلیا ۔ اس طرح تھل کے دو اضلاع مظفرگڑھ اور لیہ تو شاہ محمود قریشی کے جنوبی پنجاب صوبہ میں شامل کرلیے ہیں جبکہ تھل کے پانچ اضلاع خوشاب، میانوالی،بھکر، جھنگ ،چینوٹ کوتخت لہور کی جھولی میں ڈال دیاہے ،اس بات کی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ لوگ تو اپنے صوبہ کے علاقہ کو بڑھانے کیلئے مشکل فیصلے کرجاتے ہیں ہیں جبکہ ملتان کے سیاستدان تو تھل جسے سنسکرت کی زبان میں سونے کے پہاڑ کہا گیاہے، اس کو لوگوں کی منشا اور مرضی کے برخلاف تخت لہور کے حوالے کرنے جارہے ہیں ۔ ملتان کے سیاستدانوں نے پہلی کاریگری سرائیکی صوبہ کیساتھ یہ کی ہے کہ سرائیکی صوبہ کو جنوبی پنجاب کا نام دیدیا اور یہاں کی عوام کو اعتماد میں نہیں لیا، اب دوسری ہوشیاری یہ دکھائی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کو 3 ڈویثرنوں مطلب بہاولپور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان تک محدود کردیاہے ۔ اس صورتحال میں لوگوں میں یہ احساس شدت سے بڑھا ہے کہ ملتانی اپنے مفاد سے نہیں نکل رہے ہیں ۔ تھل کے عوام کا بڑا دل ہے کہ وہ ابھی تک ملتان کی طرف دیکھ رہے ہیں وگرنہ تھل کوئی چھوٹا علاقہ نہیں ہے اور نہ ہی وسائل کے حوالے سے بہاولپوراور ملتان سے کوئی کم ہیں ۔ کالاباغ ڈیم کی ساءٹ اسی تھل میں آتی ہے، اسی طرح شیر دل دریا، دریائے سندھ اسی میں سے گزرتاہے ،ادھر دوسر ی طرف دریائے چناب موجود ہے ۔ تھل کے اوپر دریائے جہلم بہہ رہاہے ۔ قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی میں تھل کی نشتیں ملتان اور بہاولپور ڈویثرن سے زیادہ ہیں ۔ اور بہت کچھ ہے جوکہ تھل کے پاس ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر پسماندگی اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کے باوجود بڑے دل کے لوگ ہیں ۔ اور ملتان کو ابھی تک متوجہ کررہے ہیں لیکن کب تک ;238; ملتان کا یہی رویہ رہاکہ تھل کے پانچ اضلاع جھنگ ، خوشاب ، چینوٹ ، میانوالی ،بھکر لہور میں شامل ہوں تو سخت ردعمل آئیگا ۔ تھل کے عوام میں ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی کی پنجاب کی تقسیم کے فارمولے کے بعد ڈسٹرب تو ہیں لیکن اس بات پر تیارنہیں ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ بیٹھ جائیں اور اسوقت کا انتظار کریں جب ان کی مرضی کیخلاف کوئی فیصلہ مسلط کردیاجائے ۔ یوں تھل میں نئے اضلاع خاص طورپر ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر بنانے کی تحریک مختلف اضلاع میں چل رہی ہیں ۔ جیسے لیہ میں ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر کیلئے وکلاء ، صحافی اور شہری بڑے پیمانے پر احتجاج اور مطالبہ کررہے ہیں ۔ ادھر جھنگ کی معروف سیاستدان اور رکن قومی اسمبلی غلام بی بی بھروانہ نے بھی جھنگ کو ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر بنانے کا مطالبہ قومی اسمبلی کے فلور پر شدت کیساتھ کیاہے ۔ ہمارے خیال میں تھل میں نئے ڈویثرن اور اضلاع کے قیام کیلئے تحریک انصاف کی حکومت فوری اقدامات کرے ۔ تھل کو یوں پسماندگی کی دلدل میں رکھنے سے اس کے اثرات ملک پر مثبت مرتب نہیں ہونگے ۔ تھل کے مرکزی ضلع بھکر کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ اور ثنا اللہ مستی خیل نے بھی قومی اسملبی کے فلور پر تھل کے ایشوز پر اظہار خیال کیاہے لیکن اس سے پہلے جھنگ کی رکن قومی اسمبلی غلام بی بی بھروانہ نے فلور آف دی ہاوس پر جوکچھ کہاہے، وہ پڑھ لیں ۔ بی بی بھروانہ کا کہناتھا کہ میرا تعلق اس دھرتی سے ہے جوکہ ولیوں کی دھرتی ہے ۔ یہ جھنگ وہ ضلع ہے جس میں حضرت شاہ جیونہ اور سلطان عارفین جیسے ولی اللہ موجود ہیں ۔ ضلع جھنگ اور چینوٹ نہ صرف اللہ کے ولیوں کا مسکن ہے بلکہ یہاں پر بسنے والے بھی اللہ کے ولیوں سے محبت اور عقیدت کا رشتہ رکھتے ہیں ۔ جھنگ کا یہ بھی مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ پاکستان کا قدیم ترین ضلع ہے،اور جھنگ کو 1462ء میں سیال قبیلہ نے آباد کیاتھا ۔ جس کو بابا فرید مسعود گنج شکر نے اس قبیلہ کو مسلمان کیاتھا ۔ میں ناچیز کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے ہے ۔ جھنگ ایک قدیمی ضلع ہے ، اور یہ وہ ضلع ہے جس کی تحصلیں ڈویثرن بن چکی ہیں ۔ کیا ضلع جھنگ کا یہ حق نہیں ہے کہ اس کو ڈویثرن کا درجہ دیاجائے ;238; آج بھی جھنگ مرکز کی پوزیشن رکھتاہے ۔ اور یہ نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کا مرکزی مقام ہے ۔ آج بھی جھنگ کی نواضلاع سے حدودملتی ہے ۔ دریائے جہلم اور چناب ،دودریا جھنگ ضلع سے گزرتے ہیں ۔ 1952سے 1970تک میرے نانا غلام حیدر بھروانہ نے اس دھرتی کی عوام کی خدمت کی ۔ 2018 میں پہلی دفعہ جھنگ کا ضلع جھنگ کا شہر کا حصہ پہلی دفعہ میرے حلقہ کا حصہ بنا ۔ جھنگ شہر میں تیس سال تک ایسی حالت رہی کہ اس کو مذہبی انتہاء پسندی ، دہشت گردی ، فرعونیت اور ذاتی سیاست کا نشانہ بنایاجاتارہا ۔ جھنگ شہر تیس سال بعد مجھے ایسی حالت میں ملا جیسے وزیراعظم عمران خان کو پاکستان ملاہے ۔ مجھے بالکل اندازہ ہے کہ ہم مشکلات حالات سے گزرہے ہیں مگر جھنگ کے باسیوں نے انتہاء پسندی اور فرعونیت اور دہشت گردی کیخلاف جہاد کیاہے اور تحریک انصا اف پر اعتماد کا اظہارکیاہے ، یہ شہر مجھے کھنڈرات میں بدلاہواملاہے ۔ ضلع جھنگ کی محرومیوں کو مدنظررکھتے ہوئے وزیراعظم سے استدعاکرتی ہوں کہ اس کی خوشحالی کیلئے اقدامات کیے جائیں ۔ میرے شہر کے ہسپتال کو میڈیکل کالج کا درجہ دیاجائے ۔ اس میں کارڈیالوجی سنیٹر اور چلڈرن ہسپتال کا قیام کیاجائے ۔ تعلیم کے شعبہ میں بھی جھنگ میں آج تک ایک یونیورسٹی بھی نہیں ہے ۔ اور جو ایک یونیورسٹی اب بنی ہے وہ بھی التوا کا شکار ہے ۔ کیا جھنگ ایک یونیورسٹی کا حق بھی نہیں رکھتاہے ;238; اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایاجائے ۔ یہ غریب عوام کی بات ہورہی ہے ۔ کسی کے خلاف بات نہیں ہورہی ہے ۔ جھنگ کو موٹروے سے بھی محروم رکھاگیاہے ۔ میں خصوصی استدعاکرتی ہوں کہ جھنگ کے اسوقت انفرسٹرکچر کیلئے ضروری ہے کہ اس کو موٹروے فیصل آباد ،سرگودھا، ٹوبہ اور چینوٹ کے جتنے لنک روڈ ہیں ان کو کارپٹ اور ڈبل کیاجائے اور جھنگ کا سیوریج کا نظام بہت بوسید ہ ہے، اس کی بہتری اور پینے کے صاف پانی کیلئے استدعا کرتی ہوں کہ خصوصی اقدامات کیے جائیں ،جھنگ زرعی اور لائیو سٹاک کی پیدوار کاضلع ہے ۔ جھنگ کی 70 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے، زراعت سے منسلک لوگوں کیلئے میری استدعا پر مزید بہتر اقدامات کئے جائیں تاکہ کسان خوشحال ہوسکے ۔ جھنگ ضلع کے عوام کو شوگرملز مافیاسے بچایاجائے ۔ ابھی اور بھی غلام بی بی بھروانہ بات کرنا چاہتی تھیں لیکن اسپیکر کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں خاموش ہوناپڑا ۔ مختصر وقت کے باوجود بھی بی بی بھروانہ نے جھنگ کی نمائندگی کا حق اداکیاہے لیکن ایک بات جوکہ ان کی تقریر میں محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے جھنگ کے تعارف میں سارے حوالے دئیے لیکن ہیر کا حوالہ نہیں دیا، ہمارے خیال میں جھنگ کی دھرتی کے دیگر بڑے حوالوں کیساتھ ساتھ ہیر بھی ایک بڑا حوالہ ہیں ۔ غلام بی بی بھروانہ کا شمار اب سنیئر سیاستدانوں میں یوں ہوتا ہے کہ موصوفہ چوتھی بار جھنگ کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد اسمبلی میں پہنچ رہی ہیں ۔ پہلی بار انہوں نے 2002 ء میں جھنگ کی عوام کا اعتماد مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر حاصل کیا، 2008ء کے الیکشن میں بھی انہوں نے ایک بارپھر مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر ہی الیکشن لڑا اور سیٹ اپنے نام کرگئیں ۔ پھر یوں ہوا کہ مسلم لیگ ق کی چراغوں میں روشنی نہ رہی اور غٖلام بی بی بھروانہ نے بھی مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر 2013کا الیکشن میں حصہ لیا اور جیت اپنے نام کرگئیں ۔ اور 2018کے الیکشن میں انہوں نے تحریک انصاٖ ف کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور جھنگ کے بڑے برجوں جن میں محمد احمد لدھیانوی، شیخ وقاص اکرم اور صغری امام کو ہرا کر اسمبلی میں پہنچیں ۔ انکی تقریر میں سارے مطالبے اہمیت کے حامل تھے لیکن جو سب سے بڑا اور اہم مطالبہ تھا وہ جھنگ کو ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر بنانے کا تھا، پنجاب نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر کے عوام کو ہی جینے کا حق ملتا ہے وگرنہ جو حالت تھل کی ہے، اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے ڈویثرنل ہیڈکوارٹر کے بغیر کس طرح پسماندگی کی دلدل گھیر لیتی ہے ۔ تھل میں جاری ڈویثرنل ہیڈکوارٹر کی تحریکوں کے جواب میں تحریک انصاف کی حکومت کو عوام کی ہمدردیوں سے محروم ہوناپڑے گا ۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹرافضل ڈھانڈلہ نے قومی اسمبلی کے فلور پر بھکر کو سرائیکی صوبہ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا لیکن تھل میں نئے ڈویثرن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، جس کا مطلب ہے وہ اسی طرح پسماندگی میں گھرے بھکر ضلع کو مستقبل میں بھی ضلع ہی دیکھناچاہتے ہیں ، ادھر ڈھانڈلہ نے ایم ایم روڈ المعروف قاتل روڈ کو دورویہ کرنے اور تھل یونیورسٹی کیلئے بجٹ میں فنڈز رکھنے پر حکومت کا شکریہ اداکیا ۔ اور ساتھ ایک بات یہ بھی کہہ گئے کہ شہبازشریف بھکر کی صوبائی اسمبلی کی نشت سے بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے اور بھکر کیلئے تھل میڈیکل کالج کا اعلان کیاتھا لیکن اس کیلئے فنڈز مختص کرنے کی غلطی کبھی نہیں کی تھی، یوں تھل میڈیکل کالج آج تک وجود میں نہیں آسکاہے ۔ اب تھل یونیورسٹی کیلئے موجودہ حکومت کیا کرے گی;238; اس بارے میں فی الحال تو کچھ نہیں کہاجاسکتاہے ۔ لیکن اپنے بھکر کے استاد، شاعر انتخاب احمد بشر کا بات ضرور یاد آتی ہے جوکہ وہ تھل میڈیکل کالج کے بھکر میں قیام کے سوال پر کہتے تھے کہ کونسا تھل میڈیکل کالج جوکہ قیامت کے دن بننا ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تھل میں بدقسمتی سے اکا دکا منصوبوں کا اعلان ہوبھی جائے تو حکومتوں کی طرف سے فنڈز نہیں ملتے ہیں اور منصوبے کاغذوں میں ہی دم توڑ جاتے ہیں ۔ ادھر بھکر کے رکن قومی اسمبلی ثنا اللہ مستی خیل نے بھی ایم ایم روڈ اور دیگر منصوبوں پر بات کی، جوکہ تھل کی اکہتر سال کی محرومیوں کیلئے ناکافی ہیں ، بہرحال انہوں نے تھل کے حوالے سے بات اور عوام کو احساس دلایاکہ وہ اسمبلی میں ان کی نمائندگی کیلئے موجود ہیں ۔ ہمارے خیال میں ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ ، ثنا اللہ مستی خیل اور دیگر کو اسمبلی کے فلور پر تھل کیساتھ رواء رکھے گئے حکومتوں کے سلوک پر بات کرنی چاہیے ۔ خاص طورپر تھل میں ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔ اسی طرح تھل کے عوام کی زندگیوں میں تبدیلیوں کیلئے ان منصوبوں کا مطالبہ کریں جوکہ لہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں مکمل کیے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ اور ثنا اللہ مستی خیل کی طرف سے فلور آف دی ہاوس شعر سنا کر خوب داد وصولی کی گئی لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ اکہتر سال سے تھل کیساتھ جاری تخت لہور اور اسلام آباد کے سلوک پر بات کی جاتی تو زیادہ بہتر تھا ۔ اسی طرح غلام بی بی بھروانہ جنہوں نے جیسے راقم الحروف نے پہلے بتایاہے کہ جھنگ کی خوب نمائندگی کی ہے ، بھی دوبارہ اسمبلی کے فلور پر کھڑی ہوں اور تھل میں جنگل جیسی صورتحال کے بارے میں حکمرانوں کا ضمیر جھنجھوڑیں تاکہ کے لوگوں کو بنیادی سہولتیں مل سکیں ۔