صاحب طرز ادیب شاعر نوجوان پولیس آفیسر شاہد رضوان مہوٹہ کے حالات وخیالات
ملاقات ۔ محمد صابر عطاء تھہیم
ہمارا معاشرہ ابھی ’’پَڑھا ‘‘ہے ’’لِکھا‘‘ نہیں بنا۔’’پَڑھے لِکھے‘‘ معاشرے ترقی کیا کرتے ہیں ۔
جدید علوم کو ہمارا نصاب اپنے اندر جگہ دینے کے لیے تیار نہیں بہتر قوم کیسے بن سکتے ہیں؟
ترقی یافتہ اقوام فیس بک،واٹس ایپ،گوگل و دیگر ایپلی کیشنز کو اقتصادی ،سیاسی ،ترقی کے لیے استعمال جبکہ ہم وقت گزاری کے لیے ۔
کتابوں کی اشاعت بڑھی ہے مگر معیار کم ہوا ہے ۔دولت مند ’’ادیبوں ‘‘ کا ادب فروغ پا رہا ہے ۔
والد کی خواہش پر پولیس کی نوکری کر لی ۔فراغت کے راستے ڈھونڈتا ہوں اور شاعری کو ترجیح دیتا ہوں
عصرِ حاضر کے شعراء محمد محمود احمد اور احمد رضوان کی شاعری نے بے حد متاثر کیا۔افسانے لکھنے شروع کیے ہیں ۔
چاند تخلص رکھنے والے شاہد رضوان 13مارچ 1981ء کو ضلع لیہ کے قصبہ فتح پور میں سابق بنک آفیسر چوہدری بشیر کے گھر پیدا ہوئے ۔سات بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر پیدا ہونے والے شاہد رضوان نے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول فتح پور سے میٹرک کیا تو انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایف سی کالج لاہور بھیج دیا گیا ۔جہاں پر انہوں نے 2001ء میں گریجو ایشن کی ڈگری لی اور پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے 2003ء میں پنجاب پولیس میں بھرتی ہو گئے ۔ٹریننگ میں گئے تو انسٹرکٹر کی کڑی نگاہ نے انہیں پٹرولنگ پولیس جوائن کرنے کا مشورہ دیا ۔واپس آئے تو دھوری اڈہ پٹرولنگ چیک پوسٹ کے انچارج تعینات ہو گئے ۔مختلف چیک پوسٹوں پر تعینات رہنے کے بعد دوبارہ پنجاب پولیس میں آگئے ۔بے پناہ محکمانہ صلاحیتوں نے آفیسرزکو اپنی طرف متوجہ کیا تو انہیں سی آئی اے اسٹاف ضلع لیہ کے انچارج کے فرائض دیے گئے ۔مختلف ادوار میں تھانہ چوبارہ،تھانہ چوک اعظم،تھانہ صدر لیہ ،تھانہ سٹی لیہ ،تھانہ پیرجگی ،میں ایس ایچ او تعینات رہنے کے بعد آج کل تھانہ کوٹ سلطان لیہ کے ایس ایچ او ہیں ۔ضلع لیہ میں ہونے والے اندھے قتلوں ،اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کے الجھے ہوئے کیسز کی تفتیش انہیں دی گئی تو مختصر عرصے میں ان اندھے قتلوں کے سراغ لگا کر بلوچستان سے علاقہ غیر جیسے خطرناک علاقوں سے مجرم گرفتار کرکے لے آئے ۔
شاہد رضوان نے تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا ہو اہے بتاتے ہیں کہ’’ پولیس میں پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی اور خطرناک مجرموں سے نمٹنے کا معاملہ اکثر درپیش رہتا ہے ،پولیس کی تحریر ( ایف آئی آر یا ضمنی رپورٹ ) کے نقائص کی وجہ سے مجرموں کو فائدہ ملتا ہے ۔میں اس لیے بہاؤلدین زکریا ملتان سے پرائیویٹ طور پر ایل ایل بی اور ایم اے پولیٹیکل سائنس کیاہے اور آج کل ایم ایس سی سائیکالوجی کا آکری سمسٹر چل رہا ہے ۔‘‘
ان کا خیال ہے کہ ’’ہماری معاشرتی ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہمارا نصاب ہے ہمارا نصاب اپنے اندر جدید علوم کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے ۔اگر ہمارا نصاب جدید علوم کو جگہ دیتا توآج ہمارے سماج میں درجنوں تعلیمی نظام نہ ہوتے ،انہوں نے کہا کہ جو معاشرے پڑھے لکھے ہوتے ہیں وہی ترقی کیا کرتے ہیں ،لیکن ہمارا معاشرہ ابھی صرف پڑھا بن سکا ہے لکھا نہیں ،حالت یہ ہے کہ آج ایم اے پاس طالب علم کو بھی اپنی نوکری کی درخواست کے لیے منشی فاضل عرضی نویس کی ضرورت درکا ہے ‘‘۔پریکٹیکل میں ابھی تک درختوں کے پتے اور بجلی کے بلب ہی شامل ہیں ۔نئی ایجادات کیا ہیں ،ان کا کوئی علم ہمارے پریکٹیکل نصاب میں شامل نہیں ہے ۔
بات جدید علوم کی چل نکلی تو سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگے ’’آپ دیکھ لیں دنیانئی ایجادات کے ذریعہ سے نہ صرف اقتصادی طور پر ترقی کر رہی ہے بلکہ سیاسی حوالے سے بھی ان سے ایستفادہ کر رہے ہیں ،ترقی یافتہ یا ترقی پذیر اقوام انفارمیشن ٹیکنالوجی سے اقتصادی فائدے لے رہے ،فیس بک ،واٹس ایپ،سکائیپ،یا دیگر ایپلی کشنز سے ان اقوام نے دوسری اقوام کو زیر کیا ہے ۔ان کے ملکوں کے حکمرانوں اور ان کی حکمرانی کو الٹ کر رکھ دیا ہے ۔لیکن ہمارے ہاں یہ سب چیزیں وقت گزاری کے لیے کی جاتی ہیں ۔انہوںںے بتایا کہ میں ایک پولیس آفیسر ہوں میں درجنوں سنگین جرائم کی تفتیش کر چکا ہوں جو ان کی بدولت کیے گئے ہیں ۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ہماری کتابوں کو بھی ای بکس میں کنورٹ کیا جانا ضروری ہے ۔ہمار ے ہاں لکھے گئے ادب کا وہ ذخیرہ موجود ہے جو عالمی ادب کا حصہ بن سکتاہے لیکن وہ ابھی تک لکھاریوں کی ڈائریوں کا حصہ بنا ہواہے ۔انہیں کتاب جیسی شناخت نہیں مل سکی ۔انہیں اگر ای بکس یا ادبی ویب سائیٹس کا حصہ بنا یا جائے تو یہ بڑا اہم کامہو گا ۔ اس کے لیے اکادمی ادبیات اور دیگر سرکاری اداروں کا کردار اہم ہے اگر وہ ادا کر سکیں تو ۔انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات کے ملتانمیں دفتر کے قیام کا فیصلہ خوش آئند قدم ہے لیکن اسے ہر ضلع میں ہونا چاہیے ۔ہر ضلع میں اکادمی ادبیات کا دفتر قائم کر کے ہر ضلعی حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بجٹ میں ادبی فنڈز مختص کریں ‘‘۔
وہ بھی ادب کے فروغ اور ادیب کی بہبود کے لیے بنائے گئے سرکاری اداروں کی کارکردگی سے غیر مطمئن نظر آئے ۔ان کا کہنا ہے کہ ’’ان اداروں نے اپنے فنڈز کا استعمال درست نہیں کیا ۔منظورنظر افراد کو نوازتے مگر ساتھ ساتھ حق داران کو بھی ان کا حق دیتے ۔سینکڑوں ادیب ایسے مرے ہیں جن کے پاس دوائی کے لیے رقم نہیں تھی ۔ہزاروں اہی ایسے ادیب ہیں جو اپنی لکھت کو لیے پھر رہے ہیں ۔مگر وہ شائع نہیں کر واسکتے ہیں ،’’دولت مند‘‘ ادیبوں کو ہی تمام وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں ۔ان کی تجویز تھی کہ اگر ہر ضلع میں اکادمی کا دفتر ہو گا تو وہاں کے ادیبوں کو اس دفتر تک رسائی حاصل ہو گی اور فنڈز کا ھصول ان کے لیے آسان ہو جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ اکادمی کو اپنی پالیسیوں میں بھی تبدیلی کرنی چاہیے انہیں چاہیے کہ وہ ادیبوں کے بچوں کی سکالر شپ لاگئیں اور ان کے بچوں کے شادی کے اخراجات کے لیے فنڈز قائم کریں جس میں ملک بھر کے مخیر حضرات ،صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو شامل کرکے اجتماعی شادیوں کے سلسلے شروع کروانے چاہئیں ۔‘‘
انہوں نے کتاب کی اشاعت اور اہمیت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کتاب کی اہمیت آج بھی ہے ۔لیکن کتابوں کی اشاعت میں پبلشرز معیار پر سمجھوتہ کر رچکے ہیں ۔اس لیے کتابوں کی اشاعت بڑھی ہے ساتھ ہی معیار کم ہوا ہے ‘‘۔کہتے ہیں والد کی خواہش پر پولیس کی نوکری کر لی ورنہ یہ نوکری نہ کرتا ،اب بھی فرات کے بہانے ڈھونڈتا ہوں اور اس فراغت میں شاعری کو ترجیح دیتا ہوں ،اکثرکہا جاتا ہے کہ شاعر سست ہوتے ہیں ۔میں نے اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کیلیے محکمانہ فرائض کی ادائیگی کیلیے دوہری محنت کی ہے ۔اعلیٰ آفیسران کے دیے گئے ٹاسک کو دیے گئے وقت سے پہلے پورا کیا ہے اس کے لیے میری والدہ کی دعاؤں نے بڑا اہم کردار ہے ‘‘۔کہتے ہیں تنہائی پسند ہوں ۔نوکری نہ ہوتی تو تمام عمر کتابوں کے ساتھ ایک کمرے میں گزرا دیتا۔ریٹائرمنٹ کے بعد وکالت اور کتابیں لکھنے کی پلاننگ ہے ‘‘۔
سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ادب برائے زندگی کا قائل ہوں ،جو لوگوں کو زندگی کا شعور دے ۔بہتر اور انسان دوست معاشرے کی تشکیل میں راہ نماء ثابت ہو ۔ان کی نظر میں ’’خبر ‘‘ اور ’’شعر‘‘ میں فرق ہونا چاہیے ۔شاعر بہتر نثر لکھ سکتا ہے اس لیے ان کے خیال میں شعراء کو نثر کی طرف بھی آنا چاہیے ۔وہ احمد ندیم قاسمی ،امجد اسلام امجد ،فیض احمد فیض اور دیگر ایسے ادیبوں کی مثال دیتے ہیں جنہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ اعلیٰ نثر لکھی ۔وہ کہتے ہیں جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب جو گیت اور دوہڑے کا خطہ ہے وہاں پر غزل کی صنف کا عروج غزل کے بہتر مستقبل کی علامت ہے ۔مغرب کے ادب بارے منفی رائے رکھنے والے ادیبوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور کہتیہیں کہ آج جب مغرب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عروج کا ایستفادہ کر رہا ہے وہاں کتاب کی اشاعت اور اس کا معیار بڑھا ہے ۔کتاب بینی ان کے معمولات زندگی کا حصہ ہے ۔وہاں کے لوگ سفر میں ابھی کتاب یا اخبار ساتھ رکھتے ہیں ۔ان کے مطابق عالمی ادب کے تراجم اردو میں ہونے چاہیءں ،اور اردو سمیت علاقائی ادب کے کے عالمی زبانوں میں تراجم کی بھی ضرورت ہے ۔اردو شاعری میں فیض ،اقبال ،سمیت تمام ادیبوں کی تصانیف کو اپنے مطالعہ میں شامل کر چکے ہیں عصرِ حاضر کے شعراء محمد محمود احمد کے شعرء مجموعے ’[عورت ،خوشبو اور نماز ‘‘ اور احمد رضوان کے مجموعہ کلام ’’طلوعِ شام ‘‘ سے متاثر ہیں اور کہتے ہیں کہ میں درجنوں مرتبہ پڑھ چکاہوں ہر بار ایک نیا لطف ہوتا ہے ۔
2009ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے شاہد رضوان کو اللہ پاک نے دو بیٹیا ں اور ایک بیٹا ہمدوش خان مجدد عطاء کیا ہے ۔دیسی کھانے پسند کرتے ہیں ۔سفید رنگ پسند ہے ۔حج پہ جانے کی خواہش دل میں پروان چڑھتی رہتی ہے ۔کالج دور میں لکھی گئی شاعری کا مجموعہ ’’ابھی تم لوٹ سکتے ہو‘‘ 2004ء میں شائع ہوا ۔جبکہ دوسرا اردو شعری مجموعہ ’’زندگی اِک اداس شام‘‘2011ء میں سامنے آیا ۔کہتے ہیں جرائم کی داستانوں کو افسانوی رنگ دیکر تحریر کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔کالج دور میں ڈرامے بھی تحریر کیے ۔اداکاری بھی کی ۔اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی رونما ہوا بتاتے ہیں دھوری اڈہ پٹرولنگ چیک پوسٹ پر ’’میس نائیٹ ‘‘ میں ایک ڈرامہ پیش کیا جس میں پولیس آفیسران کا اہل کاروں کے ساتھ رویے کو شامل کیا گیا تھا ۔اس وقت کے ڈی آئی جی پنجاب منیر مسعود مارتھ نے انہیں اور ان کی ٹیم کو انعام دیا ۔اس پر حوصلہ افزائی بڑھی تو اگلے پروگرام جو کہ ڈیرہ غازی خان میں ہو رہا تھا میں اسی خاکے کو ہم نے پیش کیا تو اس وقت کے ایس ایس پی مشتاق گوہر نے سارٰ ٹیم کو سزا دی اور کہا کہ آپ سب لوگ ہر تین دن کے بعد لیہ سے ڈیرہ غازی آیا کرو گے اور اسی طرح ہم سب ایک ویگن بھر کر وہاں جاتے اور سارا دن وہیں ان کے آفس کلے باہر کھڑے رہتے ۔شام کو وہ ہمیں واپس بھیج دیتے ۔کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔تو ایک دن انہوں نے ہمیں اندر بلا کر کہا کہ کیسا رہا میرا خاکہ ۔۔۔اس خاکے کو بھی آئندہ اپنے ڈرامے کاحصہ بنانا ۔وہ اور انکی ٹیم کے سب ممبر اس واقعے کو کبھی نہیں بھول سکتے ۔ان کا پیغام ہے کہ ہمسب کو معاشرے میں امن اور محبت کے فروغ کے لیے اپنا پنا کردار ادا کرنا چاہیے،موسیقی میں پٹھانے خان ،عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کو بے حد پسند کرتے ہیں ۔اپنی تنخواہ کا ایک حصہ غریب طلباء کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔بہترین پیشہ وارانہ کارکردگی پر آئی جی پنجاب سے ایوارڈ اور کیش پرائزاور لیہ میں پریس کلب کے ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ شاعری پر سانول ایوارڈ سمیٹ متعدد ایوارڈوصول کیے ۔
محمد صابر عطاء تھہیم