تعصب کی گَرد اور امام الہند رحمۃ اللہ علیہ
محمد عمار احمد
مسلم اُمہ نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بہت سی عظیم المرتبت شخصیات کو کھویا ہے ۔ چند ایک اختلافی معاملات کو لے کر مخالف کی تمام خوبیوں کو نظر انداز کر کے ان کی عظیم زندگیوں سے استفادہ کرنے کی ہر راہ معطل کرنے کی سعی کی۔مؤرخین نے ان شخصیات کے کردار کو مجروح کرنے کے لئے طرح طرح کےالزامات عائد کئے اور ان کو’’غدار ‘‘ اور’’ الحاد ‘‘ کے پیرہن میں ڈھال کر طعن و تشنیع کے دروازے وا کئے ۔
انہی عظیم شخصیات میں ایک نام امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے جو اپنوں کی مہربانیوں کے سبب پاکستانی عوام میں ایک پاکستان مخالف راہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں اس کے سوا عوام کی اکثریت کے یہاں ان کا اور کوئی تعارف نہیں ہے۔ مولانا کانگریس کے ایک راہنما کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے ،خطیب ،ادیب سیاستدان اور مفسر تھے ۔بچپن میں ہی مختلف کتب شوق سے پڑھتے ،مختلف عنوانات کی کتب خریدتے اور اس حوالے سے شاہ خرچ تھے مہنگی مہنگی کتب خریدتے ،مولانا تلقین کرتے کہ اپنے پاس کتابیں رکھا کرو ،ان سے خود بھی استفادہ
کرو اور لوگوں کو بھی مستفید کرو۔15سال کی عمر میں ہی ’لسان الصدق‘ کی ادارت سنبھالی ۔اس کے بعدالہلال نکالا جو اردو ادب کا ایک شاہکار تھا مولانا ظفر علی خان کہتے ہیں کہ’’اردو ادب الہلال کی اداؤں سےبالا بلند ہو گیا ،دینِ قیم کے چہرے پر اس کی صداؤں سے رونق آگئی اور سیاست کا بازار اس کے ولولوں سے معمور ہو گیا ،الہلال قرنِ اول کی آوز تھا‘‘۔مفتی کفایت اللہ جیسے عالم دین الہلال کے بارے میں کہتے کہ ’’یہ اس زمانے کے مسلمانوں کی دینی خواہشوں اور سیاسی آرزوؤں کا آئینہ تھا‘‘۔جمہوریہ ہند کے پہلے صدر بابورا جندر پرشاد کہتے ہیں کہ’’ بیسویں صدی کا مسلمان الہلال کا ذہنی قرض اتارنا چاہے تو عمر بھر نہیں اتار سکتا‘‘۔البلاغ ،غبارِ خاطر،قولِ فیصل جیسی عظیم ادبی تصنیفات بھی انہی کے قلم سے لکھی گئیں ۔مگر ان کی یہ سب خدمات سیاسی تعصب کی نذر ہوئیں اور ہمارے یہاں ادب کی دنیا میں بھی ان کا نام لینا ممنوع ٹھہرا ہے ۔ مولانا اپنے سیاسی،مذہبی مخالفین کے بارے میں بھی طعن و تشنیع کے قطعی روادار نہ تھے ،مسلمان راہنماؤں نے ان کی ذات ،کام اور حسب نسب پر رقیق حملے کئے مگر مولانا نے کبھی اُف تک نہ کی بس اتنا کہتے کہ’’آندھیوں میں گرد اڑتی ہے اور طوفانوں میں پانی اچھلتا ہے‘‘۔اگر مولانا کے عقیدت مند مولانا پر دشنام طرازی کرنے والوں کو کوئی جواب دیتے تو مولانا سختی سے منع کرتے۔علی گڑھ کے طلباء نے مولانا سے بد تمیزی کی تو احرار کارکنوں نےطلباء کو پیٹا مولانا کو علم ہوا تو نا راض ہوئے کہ اپنے بچوں کو کیوں مارتے ہو۔؟لیگی راہنماؤں کے مخالفانہ بیانات کے جواب میں ’ترجمان احرا اور ’ماہنامہ آزاد ‘ نے تحریریں شائع کیں تو مولانا نے شورش مرحوم کو بلایا اور کہا کہ’’ ایسی زبان استعمال نہ کیا کرو ،وہ جو کہتے ہیں ان کا حق ہے ۔اس طرح سخت اور سنگلاخ الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے ۔احرار کے ایک اجلاس میں مولانا مظہر علی اظہر نے قائدِ اعظم رحمہ اللہ کو کافرِ اعظم کہا ،مولانا پریشان ہوئے اور 3مرتبہ اِناَ لِللہ پڑھا اور فرمایا’’جو لوگ قومی اخلاق کے مبادیات کو نہیں جانتے وہی اس قسم کی ذاتیات کو زباں دیتے ہیں ‘‘۔قائدِ اعظم کے بارے میں کہتے کہ یہ سچے اور کھرے سیاستدان ہیں ۔سیاست میں ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنا جمہوریت کا’حسن‘ کہلاتا ہے مگر آپ اس قسم کے حسن کے قائل نہ تھے اور کبھی بھی
ذاتیات پر بات نہ کی ۔ پاکستان بننے کے بعد شورش مرحوم اور چند اور لوگ وفد کی صورت میں ملاقات کو آئے ،پاکستان کے حوالے سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ اب پاکستان بن چکا ہے اس کی حفاظت کرو اگر اب یہ نہ رہا تو مسلمانوں کی مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔پنڈت نہرو راوی ہیں کہ 15اگست کی شب دہلی میں آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا ،کانگریس کے سب لوگ شریک تھے مگر مولانا نہیں تھے وہ اس شب سوئے بھی نہ تھے ،انہیں سب سے زیادہ خوش ہونا چاہئے تھا مگر وہ بہت ملال میں تھے اور تقریب میں شریک نہ ہوئے ۔تقسیم کے بعد ریاست حیدر آباد میں فسادت کے بعد مولانا احوال جاننے تشریف لے گئے نظام نے کھانے پر مدعو کیا ،آپ نے دعوت نامے کی پشت پر لکھ بھیجا ’’میں ایسے شخص کے دستر خوان پر نہیں بیٹھ سکتا جس کے سبب لاکھوں انسانوں کا قتل ہوا ہو‘‘۔مولانا کہتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کو جگانے کی جد و جہد کی تو مسلمان خوابِ غفلت سے جاگ گئے مگر پھر ناراض ہوئے کہ ہمیں جگایا کیوں ۔ فقر و استغناء کے پیکر تھے ۔وراثتی جائداد بہنوں کے حوالے کی اور خود عمر بھر کرائے کے مکان میں مکین رہے۔ قرض لے کر اور قیمتی اشیاء بیچ کر گزر بسر کرتے ۔زندگی سادہ مگر باوقار تھی ۔عمدہ لباس زیب تن کرتے مگر وفات کے بعد علم ہوا کہ شیروانیوں میں ہی نہیں پائجاموں میں بھی پیوند لگے تھے۔ 2فروری 1958کو جب مولانا کا انتقال ہوا تو عوام کا جمِ غفیر امڈ آیا
،شورش مرحوم رقمطراز ہیں ’مولانا عوام سے کھِچے رہتے ہم سمجھے کہ جنازے میں خواص ہی شریک ہو نگے مگر جب بنگلے سے باہر آئے تو عوام کا سمندر تھا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا کئی ایسے لوگ بھی تھے جنہیں ہر ماہ مولانا رقم بھیجتے تھے ‘۔پنڈت نہرو جنازے کے بعد مولانا کے بنگلے میں ٹہل رہے تھے ،پھولوں کے پاس گئے اور انہیں چھو کر گویا ہوئے ’’تم اب بھی مُسکرا رہے ہو؟ مولانا کی وفات کے بعد بھی؟‘‘۔جس شخص کو اپنوں اور بیگانوں سب نے تسلیم کیا ،مسلمانانِ پاکستان کو بھی ان کی زندگی سے استفادہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے پاکستان کی مخالفت کچھ اصولوں کی بنیاد پر ضرور کی مگر اس سے ہٹ کر وہ ایک عظیم مسلمان راہنماء تھے جنہوں نے جُدو جہدِ آزادی کے لئے اٹھنے والے ہر قدم سے قدم ملایا ۔مذہبی و سیاسی تعصب کی گرد میں چھپی یہ عظیم شخصیت مسلمانانِ برصغیر کے لئے قیمتی متاع ہے،امید ہے کہ یہ گرد ہٹے گی تو مولانا کی طلسماتی شخصیت نسلِ نو کے سامنے آئے گی ،مگر اس گرد کو ہٹانے کی ذمہ داری ہماری ہے جسے نبھانے کی ضرورت ہے۔
محمد عمار احمد
ahmadmomin676@yahoo.com