• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

تعصب کی گَرد اور امام الہند رحمۃ اللہ علیہ …. محمد عمار احمد

webmaster by webmaster
فروری 22, 2016
in First Page, کالم
0
تعصب کی گَرد اور امام الہند رحمۃ اللہ علیہ ….  محمد عمار احمد

تعصب کی گَرد اور امام الہند رحمۃ اللہ علیہ
محمد عمار احمد
maulana-abul-kalam-azadمسلم اُمہ نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بہت سی عظیم المرتبت شخصیات کو کھویا ہے ۔ چند ایک اختلافی معاملات کو لے کر مخالف کی تمام خوبیوں کو نظر انداز کر کے ان کی عظیم زندگیوں سے استفادہ کرنے کی ہر راہ معطل کرنے کی سعی کی۔مؤرخین نے ان شخصیات کے کردار کو مجروح کرنے کے لئے طرح طرح کےالزامات عائد کئے اور ان کو’’غدار ‘‘ اور’’ الحاد ‘‘ کے پیرہن میں ڈھال کر طعن و تشنیع کے دروازے وا کئے ۔
انہی عظیم شخصیات میں ایک نام امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے جو اپنوں کی مہربانیوں کے سبب پاکستانی عوام میں ایک پاکستان مخالف راہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں اس کے سوا عوام کی اکثریت کے یہاں ان کا اور کوئی تعارف نہیں ہے۔ مولانا کانگریس کے ایک راہنما کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے ،خطیب ،ادیب سیاستدان اور مفسر تھے ۔بچپن میں ہی مختلف کتب شوق سے پڑھتے ،مختلف عنوانات کی کتب خریدتے اور اس حوالے سے شاہ خرچ تھے مہنگی مہنگی کتب خریدتے ،مولانا تلقین کرتے کہ اپنے پاس کتابیں رکھا کرو ،ان سے خود بھی استفادہ

کرو اور لوگوں کو بھی مستفید کرو۔15سال کی عمر میں ہی ’لسان الصدق‘ کی ادارت سنبھالی ۔اس کے بعدالہلال نکالا جو اردو ادب کا ایک شاہکار تھا مولانا ظفر علی خان کہتے ہیں کہ’’اردو ادب الہلال کی اداؤں سےبالا بلند ہو گیا ،دینِ قیم کے چہرے پر اس کی صداؤں سے رونق آگئی اور سیاست کا بازار اس کے ولولوں سے معمور ہو گیا ،الہلال قرنِ اول کی آوز تھا‘‘۔مفتی کفایت اللہ جیسے عالم دین الہلال کے بارے میں کہتے کہ ’’یہ اس زمانے کے مسلمانوں کی دینی خواہشوں اور سیاسی آرزوؤں کا آئینہ تھا‘‘۔جمہوریہ ہند کے پہلے صدر بابورا جندر پرشاد کہتے ہیں کہ’’ بیسویں صدی کا مسلمان الہلال کا ذہنی قرض اتارنا چاہے تو عمر بھر نہیں اتار سکتا‘‘۔البلاغ ،غبارِ خاطر،قولِ فیصل جیسی عظیم ادبی تصنیفات بھی انہی کے قلم سے لکھی گئیں ۔مگر ان کی یہ سب خدمات سیاسی تعصب کی نذر ہوئیں اور ہمارے یہاں ادب کی دنیا میں بھی ان کا نام لینا ممنوع ٹھہرا ہے ۔ مولانا اپنے سیاسی،مذہبی مخالفین کے بارے میں بھی طعن و تشنیع کے قطعی روادار نہ تھے ،مسلمان راہنماؤں نے ان کی ذات ،کام اور حسب نسب پر رقیق حملے کئے مگر مولانا نے کبھی اُف تک نہ کی بس اتنا کہتے کہ’’آندھیوں میں گرد اڑتی ہے اور طوفانوں میں پانی اچھلتا ہے‘‘۔اگر مولانا کے عقیدت مند مولانا پر دشنام طرازی کرنے والوں کو کوئی جواب دیتے تو مولانا سختی سے منع کرتے۔علی گڑھ کے طلباء نے مولانا سے بد تمیزی کی تو احرار کارکنوں نےطلباء کو پیٹا مولانا کو علم ہوا تو نا راض ہوئے کہ اپنے بچوں کو کیوں مارتے ہو۔؟لیگی راہنماؤں کے مخالفانہ بیانات کے جواب میں ’ترجمان احرا اور ’ماہنامہ آزاد ‘ نے تحریریں شائع کیں تو مولانا نے شورش مرحوم کو بلایا اور کہا کہ’’ ایسی زبان استعمال نہ کیا کرو ،وہ جو کہتے ہیں ان کا حق ہے ۔اس طرح سخت اور سنگلاخ الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے ۔احرار کے ایک اجلاس میں مولانا مظہر علی اظہر نے قائدِ اعظم رحمہ اللہ کو کافرِ اعظم کہا ،مولانا پریشان ہوئے اور 3مرتبہ اِناَ لِللہ پڑھا اور فرمایا’’جو لوگ قومی اخلاق کے مبادیات کو نہیں جانتے وہی اس قسم کی ذاتیات کو زباں دیتے ہیں ‘‘۔قائدِ اعظم کے بارے میں کہتے کہ یہ سچے اور کھرے سیاستدان ہیں ۔سیاست میں ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنا جمہوریت  کا’حسن‘ کہلاتا ہے مگر آپ اس قسم کے حسن کے قائل نہ تھے اور کبھی بھی
ذاتیات پر بات نہ کی ۔ پاکستان بننے کے بعد شورش مرحوم اور چند اور لوگ وفد کی صورت میں ملاقات کو آئے ،پاکستان کے حوالے سےdownload (1) بات ہوئی تو کہنے لگے کہ اب پاکستان بن چکا ہے اس کی حفاظت کرو اگر اب یہ نہ رہا تو مسلمانوں کی مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔پنڈت نہرو راوی ہیں کہ 15اگست کی شب دہلی میں آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا ،کانگریس کے سب لوگ شریک تھے مگر مولانا نہیں تھے وہ اس شب سوئے بھی نہ تھے ،انہیں سب سے زیادہ خوش ہونا چاہئے تھا مگر وہ بہت ملال میں تھے اور تقریب میں شریک نہ ہوئے ۔تقسیم کے بعد ریاست حیدر آباد میں فسادت کے بعد مولانا احوال جاننے تشریف لے گئے نظام نے کھانے پر مدعو کیا ،آپ نے دعوت نامے کی پشت پر لکھ بھیجا ’’میں ایسے شخص کے دستر خوان پر نہیں بیٹھ سکتا جس کے سبب لاکھوں انسانوں کا قتل ہوا ہو‘‘۔مولانا کہتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کو جگانے کی جد و جہد کی تو مسلمان خوابِ غفلت سے جاگ گئے مگر پھر ناراض ہوئے کہ ہمیں جگایا کیوں ۔ فقر و استغناء کے پیکر تھے ۔وراثتی جائداد بہنوں کے حوالے کی اور خود عمر بھر کرائے کے مکان میں مکین رہے۔ قرض لے کر اور قیمتی اشیاء بیچ کر گزر بسر کرتے ۔زندگی سادہ مگر باوقار تھی ۔عمدہ لباس زیب تن کرتے مگر وفات کے بعد علم ہوا کہ شیروانیوں میں ہی نہیں پائجاموں میں بھی پیوند لگے تھے۔ 2فروری 1958کو جب مولانا کا انتقال ہوا تو عوام کا جمِ غفیر امڈ آیا
،شورش مرحوم رقمطراز ہیں ’مولانا عوام سے کھِچے رہتے ہم سمجھے کہ جنازے میں خواص ہی شریک ہو نگے مگر جب بنگلے سے باہر آئے تو عوام کا سمندر تھا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا کئی ایسے لوگ بھی تھے جنہیں ہر ماہ مولانا رقم بھیجتے تھے ‘۔پنڈت نہرو جنازے کے بعد مولانا کے بنگلے میں ٹہل رہے تھے ،پھولوں کے پاس گئے اور انہیں چھو کر گویا ہوئے ’’تم اب بھی مُسکرا رہے ہو؟ مولانا کی وفات کے بعد بھی؟‘‘۔جس شخص کو اپنوں اور بیگانوں سب نے تسلیم کیا ،مسلمانانِ پاکستان کو بھی ان کی زندگی سے استفادہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے پاکستان کی مخالفت کچھ اصولوں کی بنیاد پر ضرور کی مگر اس سے ہٹ کر وہ ایک عظیم مسلمان راہنماء تھے جنہوں نے جُدو جہدِ آزادی کے لئے اٹھنے والے ہر قدم سے قدم ملایا ۔مذہبی و سیاسی تعصب کی گرد میں چھپی یہ عظیم شخصیت مسلمانانِ برصغیر کے لئے قیمتی متاع ہے،امید ہے کہ یہ گرد ہٹے گی تو مولانا کی طلسماتی شخصیت نسلِ نو کے سامنے آئے گی ،مگر اس گرد کو ہٹانے کی ذمہ داری ہماری ہے جسے نبھانے کی ضرورت ہے۔

Ammar Ahmad

محمد عمار احمد
ahmadmomin676@yahoo.com

Tags: urdu column by ammar
Previous Post

من میں تو تن میں تو ……. عفت

Next Post

Appeal

Next Post
Appeal

Appeal

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025

تعصب کی گَرد اور امام الہند رحمۃ اللہ علیہ محمد عمار احمد maulana-abul-kalam-azadمسلم اُمہ نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بہت سی عظیم المرتبت شخصیات کو کھویا ہے ۔ چند ایک اختلافی معاملات کو لے کر مخالف کی تمام خوبیوں کو نظر انداز کر کے ان کی عظیم زندگیوں سے استفادہ کرنے کی ہر راہ معطل کرنے کی سعی کی۔مؤرخین نے ان شخصیات کے کردار کو مجروح کرنے کے لئے طرح طرح کےالزامات عائد کئے اور ان کو’’غدار ‘‘ اور’’ الحاد ‘‘ کے پیرہن میں ڈھال کر طعن و تشنیع کے دروازے وا کئے ۔ انہی عظیم شخصیات میں ایک نام امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے جو اپنوں کی مہربانیوں کے سبب پاکستانی عوام میں ایک پاکستان مخالف راہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں اس کے سوا عوام کی اکثریت کے یہاں ان کا اور کوئی تعارف نہیں ہے۔ مولانا کانگریس کے ایک راہنما کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے ،خطیب ،ادیب سیاستدان اور مفسر تھے ۔بچپن میں ہی مختلف کتب شوق سے پڑھتے ،مختلف عنوانات کی کتب خریدتے اور اس حوالے سے شاہ خرچ تھے مہنگی مہنگی کتب خریدتے ،مولانا تلقین کرتے کہ اپنے پاس کتابیں رکھا کرو ،ان سے خود بھی استفادہ

کرو اور لوگوں کو بھی مستفید کرو۔15سال کی عمر میں ہی ’لسان الصدق‘ کی ادارت سنبھالی ۔اس کے بعدالہلال نکالا جو اردو ادب کا ایک شاہکار تھا مولانا ظفر علی خان کہتے ہیں کہ’’اردو ادب الہلال کی اداؤں سےبالا بلند ہو گیا ،دینِ قیم کے چہرے پر اس کی صداؤں سے رونق آگئی اور سیاست کا بازار اس کے ولولوں سے معمور ہو گیا ،الہلال قرنِ اول کی آوز تھا‘‘۔مفتی کفایت اللہ جیسے عالم دین الہلال کے بارے میں کہتے کہ ’’یہ اس زمانے کے مسلمانوں کی دینی خواہشوں اور سیاسی آرزوؤں کا آئینہ تھا‘‘۔جمہوریہ ہند کے پہلے صدر بابورا جندر پرشاد کہتے ہیں کہ’’ بیسویں صدی کا مسلمان الہلال کا ذہنی قرض اتارنا چاہے تو عمر بھر نہیں اتار سکتا‘‘۔البلاغ ،غبارِ خاطر،قولِ فیصل جیسی عظیم ادبی تصنیفات بھی انہی کے قلم سے لکھی گئیں ۔مگر ان کی یہ سب خدمات سیاسی تعصب کی نذر ہوئیں اور ہمارے یہاں ادب کی دنیا میں بھی ان کا نام لینا ممنوع ٹھہرا ہے ۔ مولانا اپنے سیاسی،مذہبی مخالفین کے بارے میں بھی طعن و تشنیع کے قطعی روادار نہ تھے ،مسلمان راہنماؤں نے ان کی ذات ،کام اور حسب نسب پر رقیق حملے کئے مگر مولانا نے کبھی اُف تک نہ کی بس اتنا کہتے کہ’’آندھیوں میں گرد اڑتی ہے اور طوفانوں میں پانی اچھلتا ہے‘‘۔اگر مولانا کے عقیدت مند مولانا پر دشنام طرازی کرنے والوں کو کوئی جواب دیتے تو مولانا سختی سے منع کرتے۔علی گڑھ کے طلباء نے مولانا سے بد تمیزی کی تو احرار کارکنوں نےطلباء کو پیٹا مولانا کو علم ہوا تو نا راض ہوئے کہ اپنے بچوں کو کیوں مارتے ہو۔؟لیگی راہنماؤں کے مخالفانہ بیانات کے جواب میں ’ترجمان احرا اور ’ماہنامہ آزاد ‘ نے تحریریں شائع کیں تو مولانا نے شورش مرحوم کو بلایا اور کہا کہ’’ ایسی زبان استعمال نہ کیا کرو ،وہ جو کہتے ہیں ان کا حق ہے ۔اس طرح سخت اور سنگلاخ الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے ۔احرار کے ایک اجلاس میں مولانا مظہر علی اظہر نے قائدِ اعظم رحمہ اللہ کو کافرِ اعظم کہا ،مولانا پریشان ہوئے اور 3مرتبہ اِناَ لِللہ پڑھا اور فرمایا’’جو لوگ قومی اخلاق کے مبادیات کو نہیں جانتے وہی اس قسم کی ذاتیات کو زباں دیتے ہیں ‘‘۔قائدِ اعظم کے بارے میں کہتے کہ یہ سچے اور کھرے سیاستدان ہیں ۔سیاست میں ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنا جمہوریت  کا’حسن‘ کہلاتا ہے مگر آپ اس قسم کے حسن کے قائل نہ تھے اور کبھی بھی ذاتیات پر بات نہ کی ۔ پاکستان بننے کے بعد شورش مرحوم اور چند اور لوگ وفد کی صورت میں ملاقات کو آئے ،پاکستان کے حوالے سےdownload (1) بات ہوئی تو کہنے لگے کہ اب پاکستان بن چکا ہے اس کی حفاظت کرو اگر اب یہ نہ رہا تو مسلمانوں کی مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔پنڈت نہرو راوی ہیں کہ 15اگست کی شب دہلی میں آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا ،کانگریس کے سب لوگ شریک تھے مگر مولانا نہیں تھے وہ اس شب سوئے بھی نہ تھے ،انہیں سب سے زیادہ خوش ہونا چاہئے تھا مگر وہ بہت ملال میں تھے اور تقریب میں شریک نہ ہوئے ۔تقسیم کے بعد ریاست حیدر آباد میں فسادت کے بعد مولانا احوال جاننے تشریف لے گئے نظام نے کھانے پر مدعو کیا ،آپ نے دعوت نامے کی پشت پر لکھ بھیجا ’’میں ایسے شخص کے دستر خوان پر نہیں بیٹھ سکتا جس کے سبب لاکھوں انسانوں کا قتل ہوا ہو‘‘۔مولانا کہتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کو جگانے کی جد و جہد کی تو مسلمان خوابِ غفلت سے جاگ گئے مگر پھر ناراض ہوئے کہ ہمیں جگایا کیوں ۔ فقر و استغناء کے پیکر تھے ۔وراثتی جائداد بہنوں کے حوالے کی اور خود عمر بھر کرائے کے مکان میں مکین رہے۔ قرض لے کر اور قیمتی اشیاء بیچ کر گزر بسر کرتے ۔زندگی سادہ مگر باوقار تھی ۔عمدہ لباس زیب تن کرتے مگر وفات کے بعد علم ہوا کہ شیروانیوں میں ہی نہیں پائجاموں میں بھی پیوند لگے تھے۔ 2فروری 1958کو جب مولانا کا انتقال ہوا تو عوام کا جمِ غفیر امڈ آیا ،شورش مرحوم رقمطراز ہیں ’مولانا عوام سے کھِچے رہتے ہم سمجھے کہ جنازے میں خواص ہی شریک ہو نگے مگر جب بنگلے سے باہر آئے تو عوام کا سمندر تھا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا کئی ایسے لوگ بھی تھے جنہیں ہر ماہ مولانا رقم بھیجتے تھے ‘۔پنڈت نہرو جنازے کے بعد مولانا کے بنگلے میں ٹہل رہے تھے ،پھولوں کے پاس گئے اور انہیں چھو کر گویا ہوئے ’’تم اب بھی مُسکرا رہے ہو؟ مولانا کی وفات کے بعد بھی؟‘‘۔جس شخص کو اپنوں اور بیگانوں سب نے تسلیم کیا ،مسلمانانِ پاکستان کو بھی ان کی زندگی سے استفادہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے پاکستان کی مخالفت کچھ اصولوں کی بنیاد پر ضرور کی مگر اس سے ہٹ کر وہ ایک عظیم مسلمان راہنماء تھے جنہوں نے جُدو جہدِ آزادی کے لئے اٹھنے والے ہر قدم سے قدم ملایا ۔مذہبی و سیاسی تعصب کی گرد میں چھپی یہ عظیم شخصیت مسلمانانِ برصغیر کے لئے قیمتی متاع ہے،امید ہے کہ یہ گرد ہٹے گی تو مولانا کی طلسماتی شخصیت نسلِ نو کے سامنے آئے گی ،مگر اس گرد کو ہٹانے کی ذمہ داری ہماری ہے جسے نبھانے کی ضرورت ہے۔

Ammar Ahmad

محمد عمار احمد ahmadmomin676@yahoo.com

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.