من میں تو تن میں تو
عفت
وہ جیل کے یخ بستہ فرش پہ اکڑوں بیٹھا گھٹنوں میں سر دئیے سسک رہا تھا ۔سود و زیاں کے حساب میں ساری رات کٹ گئی تھی اور اس حساب کتاب کے بعد اس نے خود کو گھاٹے میں پایا تھا گویا زندگی کے اس سفر میں اس نے خود اپنے لیے ہر قدم پہ ہر سودا گھا ٹے اور نقصان کا کیا تھا اور یہ احساس زیاں حقیقت کا ادراک ہوتے ہی رات سے اس کی آنکھوں سے سیلِ رواں کی طرح بہہ رہا تھا ۔خود کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا کر تے ہی اس کا سارا غرور اور مان سب زمیں بوس ہو گیا تھا ۔دور کہیں فجر کی اذان کی آواز آرہی تھی ،حی الصلوۃ ،حی ا لفلاح اس نے شاید برسوں بعد اذان کی
عفت
وہ جیل کے یخ بستہ فرش پہ اکڑوں بیٹھا گھٹنوں میں سر دئیے سسک رہا تھا ۔سود و زیاں کے حساب میں ساری رات کٹ گئی تھی اور اس حساب کتاب کے بعد اس نے خود کو گھاٹے میں پایا تھا گویا زندگی کے اس سفر میں اس نے خود اپنے لیے ہر قدم پہ ہر سودا گھا ٹے اور نقصان کا کیا تھا اور یہ احساس زیاں حقیقت کا ادراک ہوتے ہی رات سے اس کی آنکھوں سے سیلِ رواں کی طرح بہہ رہا تھا ۔خود کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا کر تے ہی اس کا سارا غرور اور مان سب زمیں بوس ہو گیا تھا ۔دور کہیں فجر کی اذان کی آواز آرہی تھی ،حی الصلوۃ ،حی ا لفلاح اس نے شاید برسوں بعد اذان کی
آواز غور سے سنی اور موذن کا بلاوا اس کے دل کے تاروں کو جھنجوڑنے لگا۔اس کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ بے اختیار گھٹنوں کے بل ہو کر سجدے میں گر گیا ہچکیوں میں روتا ہوا وہ ایک ہی لفظ دہرا رہا تھا اے اللہ مجھے معاف کر دے مجھے معاف کر دے ۔موذن بلاوا دے چکا تھا ۔وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے وہ کہیں سے بھی تو آریان خان نہیں لگ رہا تھا جسے خود پہ مان اور اپنی طاقت پہ ناز تھا۔ اذان کے اختتام تک اس کی کایا پلٹ چکی تھی اس نے رو رو کر اپنے رب سے معافی مانگی تھی رات بھر کی بے چینی اور اضطراب کو گویا قرار آگیا تھا اور یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اللہ اس کے دل کے بدل جانے پہ خوش تھا ۔ربِ عظیم نے اس کے دل ودماغ پہ لگے تالے کھول دئیے تھے بلاشبہ وہ معاف کیا جا چکا تھا ۔اس نے سپاہی کو آواز دی کہ وہ اسے وضو کے لیے پا نی فراہم کرے ۔
سپاہی نے تمسخرانہ انداز سے اسے دیکھا اور ایک میلے سے پرانے لوٹے میں پانی بھر کے پکڑا دیا ۔اس نے نہایت خضوع و خشوع سے وضو کیا اچانک اسے یاد آیا اس کا جسم بھی تو نجس ہے وہ کیسے نماز ادا کر سکتا ہے؟اس احساس نے پھر اس کی آنکھوں میں آنسو بھر دئیے مگر احساسِ کریمی نے آنسو پونچھ ڈالے وہ نماز کی نیت کر کے کھڑا ہو گیا ،اللہ اکبر کہہ کے اس نے آیات کی تلاوت شروع کی تو کہیں کہیں اٹکنے لگا اور رک رک کر یاد کرنے لگا اس طرح نماز کی ادائیگی کے بعد اس نے اللہ کے حضور دامن پھیلا دیا اے میرے مالک تو میرے ماضی حال سے واقف ہے بہت گناہ کار اور سیاہ کار ہوں مگر تو بہت رحمان ہے اور ستر ماؤں سے ذیادہ محبت رکھنے والا ہے مجھے بخش دے مجھے نہ دعا کا سلیقہ ہے نہ عاجزی کا بس اتنا پتہ ہے کہ تیری رحمت وسیع ہے معاف کر دے مجھے ،اس کی ہچکیاں بندھ گئیں ،سلام پھیر کے وہ خالی الذہنی حالت میں بیٹھا رہا ۔
تھوڑی دیر میں جیل میں چہل پہل شروع ہو گئی برتن کھڑکنے اور ناشتہ کی آواز کے ساتھ ایک سپاہی نے سلاخیں بجائیں اس کے ہاتھ میں ایک میلا سا کپ جس میں کالی سیاہ چائے تھی ساتھ دو سوکھے ہوئے پاپے تھے ۔آریان اٹھا اوردونوں چیزیں تھام لیں ۔عام حالات میں وہ کبھی ایسے ناشتے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا مگر اب اس کی جزیات بدل چکی تھیں شکر الحمداللہ کہتے ہوئے اس نے وہ پاپے چائے میں ڈبو کر کھائے پاپوں کی باسی پن کی مہک سے اس بمشکل اپنی ابکائی کو قابو کیا اور بدذائقہ چائے حلق میں انڈیل کر کپ ایک طرف رکھ دیا ساری رات کی گریہ زاری سے اس کی آنکھیں جل رہیں تھیں خالی پیٹ میں کچھ گیا تو نیند نے آ دبو چا ۔وہ اونگھنے لگا اور پھر گٹھڑی کی مانند زمیں پہ لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔
مجھے جا نے دو خدارا ایسا مت کرو وہ سفید یونیفارم میں ملبوس اس کے سامنے ہاتھ جوڑے گڑگڑا رہی تھی اس کا ڈھلکا آنچل زمین کو چھو رہاتھا ۔کیا بگاڑا ہے میں نے تمھارا؟میں تو تمھیں جانتی تک نہیں رحم کرو مجھ پہ میرے بابا مر جائیں گے پلیز جانے دو مجھے ۔وہ رو رو کے ہلکان ہو رہی تھی ۔مگر آریان کو اسکی منتیں اور رونا اچھا لگ رہا تھا پہلے تو کسی نے اس طرح اس کے آگے ہاتھ نہ جوڑے تھے ۔اس لڑکی کو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ آج ہی اغوا کیا تھا وہ بہت نازک اور خوبصورت تھی ۔آریان اور اس کے دوست کسی کی گاڑی چھین کر ایڈوانچر اور جیت کے نشے میں مست رش ڈرائیونگ کرتے کالج روڈ سے گذرے تو وہ سڑک پار کر رہی تھی۔آریان نے بر وقت بریک لگائی مگر وہ گاڑی سے ٹکرا کہ زمین بوس ہوگئی تھی،آریان جلدی سے گاڑی سے اترا اور اسے سہارا دے کے کھڑا کیا اسے چوٹ تو نہیں آئی تھی مگر آریان کا دل اس میں اٹک گیا اس کے دوست بھی گاڑی سے باہر آگئے لڑکی حواس باختہ تھی آریان نے اس کا بازو تھام کر اس کو گاڑی میں بٹھا دیا تب اس کے اوسان خطا ہوگئے اس نے چیخنے کی کوشش کی مگر اس کی چیخ آریان کے ہاتھ کی سختی میں دب گئی جو اس کے منہ پہ تھا ۔اپنے دوستوں کو اتارتے ہوئے وہ اسے اپنے فلیٹ میں لے آیا تیسری منزل تک آنے کے لئے اس نے بیرونی راستہ اختیار کیا دروازہ کھول کہ اسے بیڈ پہ دھکیل دیا ۔اب وہ اس پہ اپنی طاقت کا طرہ جما رہا تھا لڑکی کی آہ وبکا بے سود گئی اب وہ خاموش چت پڑی اپنی ویران آنکھوں سے چھت کو گھور رہی تھی آریان نے اس کو دیکھا اس کی خاموشی سے خوف زدہ ہو گیا لڑکی کی مزاحمت گوہر عصمت لٹنے کے ساتھ ہی دم توڑ چکی تھی ۔اے کیا ہو تمھیں ؟پانی دوں آریان نے لڑکی کا بازو ہلایا لڑکی کے ساکت وجود میں حرکت پیدا ہوئی وہ اٹھ گئی اور کھڑی ہو کے قہر بار نظروں سے اسے دیکھا ،خدا غارت کرے تمھیں تم نے مجھے برباد کر دیا میں اپنا حساب خدا پہ چھوڑتی ہوں ۔یہ کہہ کہ وہ تیزی سے کھلی کھڑکی کی طرف لپکی ،اس سے پہلے کہ آریان کچھ سمجھ پاتا اس نے نیچے چھلانگ لگا دی دھپ کی آواز کے ساتھ نیچے شور سنائی دیا ،آریان کھڑکی کی سمت بھاگا نیچے گراؤنڈ فلور پہ اس کا وجود بکھرا پڑا تھا ،اس کا سفید لباس اس کے خون سے سرخ ہو رہا تھا وہ مر چکی تھی ۔لوگ اس کے گرد جمع تھے سب نے اوپر کھڑکی سے جھانکتے آریان کو دیکھا اور شور مچا دیا بھاگو پکڑو قاتل جانے نہ پائے پولیس بلاؤ جب تک آریان پہ حقیقت کا ادراک ہوتا پولیس پہنچ چکی تھی اور اب وہ جیل میں تھا اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا تھا ۔مگر لڑکی کی آنکھیں اور بے بسی اس کے ذہن میں نقش ہوگئی تھی پولیس نے اس خاموشی کا فائدہ اٹھا کر اور کھوہ کھاتے والے چند کیس بھی اس پہ ڈال کر اپنا قومی فریضہ انجام دیا تھا ۔اسے اپنی زندگی کا ایک ایک پل یاد آرہا تھا ۔
فرقان حمیدی کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا تھا جو منہ میں سونے کا چمچ لے کرپیدا ہوتے ہیں ۔حمیدی انٹرپرائزز کا ایک نام تھا اور آریان اکلوتا وارث ۔مہہ جبین فِگر کانشس ہونے کی وجہ سے کوئی اور بچہ اس دنیا میں لانے کے حق میں نہ تھیں ،یوں آریان کی پرورش ایک گورنسس نے کی ۔ماں باپ کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ اسے دیتے ۔پہلے تو وہ بہت تنہائی محسوس کرتا پھر اسکول میں دوستوں کے ساتھ بہل گیا اور اس کے دوست ہی اس کا سب کچھ تھے وہ ان پہ بے دریغ پیسہ لٹاتا ۔سکول سے کالج پہنچنے تک وہ تھرل اور انجوئے منٹ کے نام پہ چھوٹے موٹے کئی جرم کر چکے تھے ۔چند سال قبل مہہ جبین ایک حادثے میں انتقال کر گئی تھی ،فرقان اکثر باہر ممالک رہتے جہاں وہ اپنا بزنس سیٹ کر رہے تھے ان کا ارادہ چند ماہ بعد انگلینڈ شفٹ ہونے کا تھا ۔آریان سے ان کی سرسری ملاقات ہوتی تھی جس میں وہ بہت مودب ہو کر سب ٹھیک کی رپورٹ دیتا ۔جانے کب دوستوں کے تھرل سے لطف اندوز ہوتے ہوتے وہ خاردار راہوں پہ چل نکلا اوراب جب احساس ہوا تو وقت گویا اس کے ہاتھ سے پھسل گیا تھا ۔۔
پچھتر سالہ امام دین ابھی ابھی اپنے جگر گوشے کو اپنے ہاتھ سے منوں مٹی کے سپرد کر کے آیا تھا بیٹی کیا مال متاع ہی لٹ گئی اور جس طرح لٹی اس نے اسے مار دیا تھا ۔مجبور باپ کے کندھے غریبی کے بوجھ سے جھکے ہی تھے کہ اس الم سے بھی گذرنا پڑا۔اور ابھی اس نے چوکھٹ بھی پار بھی نہ کی تھی کہ میڈیا والے اس کے گرد جمع ہوگئے سوالات کی بوچھاڑ ،کیا فاطمہ کی اس امیر زادے سے پہلے سے شناسائی تھی؟ وہ اس کے ساتھ اس کے فلیٹ میں کیوں تھی ؟کیا وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ؟امام دین کا کلیجہ ان سوالات سے چھلنی ہو رہا تھا یا اللہ کیسا اندھیر ہے تیری نگری میں وہ کانوں پہ ہاتھ رکھ کے چلا اٹھا میری بے قصور بیٹی ،وہ دہاڑیں مار مار کر رو دیا اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی ۔میڈیا والے کوئی جواب نہ پا کر کھسکنے لگے شاید کسی اسٹوری کوتوقع پوری نہ ہوئی جسے وہ مرچ مسالہ لگا کر اپنی کوریج بڑھاتے ۔
جیل کے باہر امام دین سلاخیں تھامے بکھرے بکھرے اس خوبرو نوجوان کودیکھا جو اس کی بیٹی کا قاتل تھا مجرم تھا جو رو رو کے اپنا جرم قبول کر کے سزا مانگ رہا تھا ۔انسپکٹر کے کمرے میں اس کا امیر باپ سر جھکائے بیٹھا تھا ۔اس کے چہرے کی تھکن گواہ تھی کہ اس کا سرمایہ حیات لٹنے کو تیار ہے ۔بیٹے نے باپ کی ہر سفارش کو مستردد کر دیا تھا اور اپنے جرم کی سزا بھگتنا چاہتا تھا ۔اس کا کہنا تھا وہ فاطمہ کا قاتل ہے اس نے اسے مارا ہے وہ بار بار سزائے موت کا مستحق ہے ۔فرقان حمیدی نے امام دین کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے ،امام دین جھکے کاندھوں سے باہر چلا آیا ۔عصر کی اذان ہو رہی تھی وہ مسجد میں داخل ہوا نمازی صفیں درست کر رہے تھے ۔غائب دماغی سے اس نے نماز ادا کی اس کے ذہن میں جھکڑ چل رہے تھے کبھی بیٹی کا دکھ اور کبھی وہ بلکتا نوجواں سامنے آجاتا جو اپنے کیے کی سزا بھگتنے کے لیے تیار تھا اس کو احساسِ جرم ہی مار رہا تھا ۔دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے اسے محلے کی مسجد کے مولانا صاحب کے خطبے میں کہے جملے یاد آگئے ،اللہ رحمان ہے معاف کرنا بدلے سے بہتر ہے ۔اور صفتِ رحمانی ہے ۔اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اس کے دل نے ایک فیصلہ کیا اور وہ مطمئن ہو گیا ۔
فرقان حمیدی کی خوشی کی انتہا نہ تھی وہ امام دین کا شکر گذار تھا اور ساتھ ہی وہ رب کا بڑا مشکور تھا ۔آریان حیرت سے گنگ تھا ۔امام دین نے اسے معاف کر دیا اور وہ رہا ہو چکا تھا ۔امام دین نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا بیٹا جب خدا تمھیں ہدایت دینا چاہتا ہے تو میں بھلا کون ہوتا ہوں جاؤ بیٹا اپنی نئی زندگی جیو، اللہ کی مرضی کی زندگی اور ثابت قدم رہنا ،یہ کہہ کروہ اپنی بستی کی طرف چل پڑا۔چند دنوں کے بعد دونوں باپ بیٹا اسلام آباد ائرپورٹ پہ انگلینڈ جانے والی پرواز کے منتظر تھے ۔
تھوڑی دیر میں جیل میں چہل پہل شروع ہو گئی برتن کھڑکنے اور ناشتہ کی آواز کے ساتھ ایک سپاہی نے سلاخیں بجائیں اس کے ہاتھ میں ایک میلا سا کپ جس میں کالی سیاہ چائے تھی ساتھ دو سوکھے ہوئے پاپے تھے ۔آریان اٹھا اوردونوں چیزیں تھام لیں ۔عام حالات میں وہ کبھی ایسے ناشتے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا مگر اب اس کی جزیات بدل چکی تھیں شکر الحمداللہ کہتے ہوئے اس نے وہ پاپے چائے میں ڈبو کر کھائے پاپوں کی باسی پن کی مہک سے اس بمشکل اپنی ابکائی کو قابو کیا اور بدذائقہ چائے حلق میں انڈیل کر کپ ایک طرف رکھ دیا ساری رات کی گریہ زاری سے اس کی آنکھیں جل رہیں تھیں خالی پیٹ میں کچھ گیا تو نیند نے آ دبو چا ۔وہ اونگھنے لگا اور پھر گٹھڑی کی مانند زمیں پہ لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔
مجھے جا نے دو خدارا ایسا مت کرو وہ سفید یونیفارم میں ملبوس اس کے سامنے ہاتھ جوڑے گڑگڑا رہی تھی اس کا ڈھلکا آنچل زمین کو چھو رہاتھا ۔کیا بگاڑا ہے میں نے تمھارا؟میں تو تمھیں جانتی تک نہیں رحم کرو مجھ پہ میرے بابا مر جائیں گے پلیز جانے دو مجھے ۔وہ رو رو کے ہلکان ہو رہی تھی ۔مگر آریان کو اسکی منتیں اور رونا اچھا لگ رہا تھا پہلے تو کسی نے اس طرح اس کے آگے ہاتھ نہ جوڑے تھے ۔اس لڑکی کو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ آج ہی اغوا کیا تھا وہ بہت نازک اور خوبصورت تھی ۔آریان اور اس کے دوست کسی کی گاڑی چھین کر ایڈوانچر اور جیت کے نشے میں مست رش ڈرائیونگ کرتے کالج روڈ سے گذرے تو وہ سڑک پار کر رہی تھی۔آریان نے بر وقت بریک لگائی مگر وہ گاڑی سے ٹکرا کہ زمین بوس ہوگئی تھی،آریان جلدی سے گاڑی سے اترا اور اسے سہارا دے کے کھڑا کیا اسے چوٹ تو نہیں آئی تھی مگر آریان کا دل اس میں اٹک گیا اس کے دوست بھی گاڑی سے باہر آگئے لڑکی حواس باختہ تھی آریان نے اس کا بازو تھام کر اس کو گاڑی میں بٹھا دیا تب اس کے اوسان خطا ہوگئے اس نے چیخنے کی کوشش کی مگر اس کی چیخ آریان کے ہاتھ کی سختی میں دب گئی جو اس کے منہ پہ تھا ۔اپنے دوستوں کو اتارتے ہوئے وہ اسے اپنے فلیٹ میں لے آیا تیسری منزل تک آنے کے لئے اس نے بیرونی راستہ اختیار کیا دروازہ کھول کہ اسے بیڈ پہ دھکیل دیا ۔اب وہ اس پہ اپنی طاقت کا طرہ جما رہا تھا لڑکی کی آہ وبکا بے سود گئی اب وہ خاموش چت پڑی اپنی ویران آنکھوں سے چھت کو گھور رہی تھی آریان نے اس کو دیکھا اس کی خاموشی سے خوف زدہ ہو گیا لڑکی کی مزاحمت گوہر عصمت لٹنے کے ساتھ ہی دم توڑ چکی تھی ۔اے کیا ہو تمھیں ؟پانی دوں آریان نے لڑکی کا بازو ہلایا لڑکی کے ساکت وجود میں حرکت پیدا ہوئی وہ اٹھ گئی اور کھڑی ہو کے قہر بار نظروں سے اسے دیکھا ،خدا غارت کرے تمھیں تم نے مجھے برباد کر دیا میں اپنا حساب خدا پہ چھوڑتی ہوں ۔یہ کہہ کہ وہ تیزی سے کھلی کھڑکی کی طرف لپکی ،اس سے پہلے کہ آریان کچھ سمجھ پاتا اس نے نیچے چھلانگ لگا دی دھپ کی آواز کے ساتھ نیچے شور سنائی دیا ،آریان کھڑکی کی سمت بھاگا نیچے گراؤنڈ فلور پہ اس کا وجود بکھرا پڑا تھا ،اس کا سفید لباس اس کے خون سے سرخ ہو رہا تھا وہ مر چکی تھی ۔لوگ اس کے گرد جمع تھے سب نے اوپر کھڑکی سے جھانکتے آریان کو دیکھا اور شور مچا دیا بھاگو پکڑو قاتل جانے نہ پائے پولیس بلاؤ جب تک آریان پہ حقیقت کا ادراک ہوتا پولیس پہنچ چکی تھی اور اب وہ جیل میں تھا اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا تھا ۔مگر لڑکی کی آنکھیں اور بے بسی اس کے ذہن میں نقش ہوگئی تھی پولیس نے اس خاموشی کا فائدہ اٹھا کر اور کھوہ کھاتے والے چند کیس بھی اس پہ ڈال کر اپنا قومی فریضہ انجام دیا تھا ۔اسے اپنی زندگی کا ایک ایک پل یاد آرہا تھا ۔
فرقان حمیدی کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا تھا جو منہ میں سونے کا چمچ لے کرپیدا ہوتے ہیں ۔حمیدی انٹرپرائزز کا ایک نام تھا اور آریان اکلوتا وارث ۔مہہ جبین فِگر کانشس ہونے کی وجہ سے کوئی اور بچہ اس دنیا میں لانے کے حق میں نہ تھیں ،یوں آریان کی پرورش ایک گورنسس نے کی ۔ماں باپ کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ اسے دیتے ۔پہلے تو وہ بہت تنہائی محسوس کرتا پھر اسکول میں دوستوں کے ساتھ بہل گیا اور اس کے دوست ہی اس کا سب کچھ تھے وہ ان پہ بے دریغ پیسہ لٹاتا ۔سکول سے کالج پہنچنے تک وہ تھرل اور انجوئے منٹ کے نام پہ چھوٹے موٹے کئی جرم کر چکے تھے ۔چند سال قبل مہہ جبین ایک حادثے میں انتقال کر گئی تھی ،فرقان اکثر باہر ممالک رہتے جہاں وہ اپنا بزنس سیٹ کر رہے تھے ان کا ارادہ چند ماہ بعد انگلینڈ شفٹ ہونے کا تھا ۔آریان سے ان کی سرسری ملاقات ہوتی تھی جس میں وہ بہت مودب ہو کر سب ٹھیک کی رپورٹ دیتا ۔جانے کب دوستوں کے تھرل سے لطف اندوز ہوتے ہوتے وہ خاردار راہوں پہ چل نکلا اوراب جب احساس ہوا تو وقت گویا اس کے ہاتھ سے پھسل گیا تھا ۔۔
پچھتر سالہ امام دین ابھی ابھی اپنے جگر گوشے کو اپنے ہاتھ سے منوں مٹی کے سپرد کر کے آیا تھا بیٹی کیا مال متاع ہی لٹ گئی اور جس طرح لٹی اس نے اسے مار دیا تھا ۔مجبور باپ کے کندھے غریبی کے بوجھ سے جھکے ہی تھے کہ اس الم سے بھی گذرنا پڑا۔اور ابھی اس نے چوکھٹ بھی پار بھی نہ کی تھی کہ میڈیا والے اس کے گرد جمع ہوگئے سوالات کی بوچھاڑ ،کیا فاطمہ کی اس امیر زادے سے پہلے سے شناسائی تھی؟ وہ اس کے ساتھ اس کے فلیٹ میں کیوں تھی ؟کیا وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ؟امام دین کا کلیجہ ان سوالات سے چھلنی ہو رہا تھا یا اللہ کیسا اندھیر ہے تیری نگری میں وہ کانوں پہ ہاتھ رکھ کے چلا اٹھا میری بے قصور بیٹی ،وہ دہاڑیں مار مار کر رو دیا اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی ۔میڈیا والے کوئی جواب نہ پا کر کھسکنے لگے شاید کسی اسٹوری کوتوقع پوری نہ ہوئی جسے وہ مرچ مسالہ لگا کر اپنی کوریج بڑھاتے ۔
جیل کے باہر امام دین سلاخیں تھامے بکھرے بکھرے اس خوبرو نوجوان کودیکھا جو اس کی بیٹی کا قاتل تھا مجرم تھا جو رو رو کے اپنا جرم قبول کر کے سزا مانگ رہا تھا ۔انسپکٹر کے کمرے میں اس کا امیر باپ سر جھکائے بیٹھا تھا ۔اس کے چہرے کی تھکن گواہ تھی کہ اس کا سرمایہ حیات لٹنے کو تیار ہے ۔بیٹے نے باپ کی ہر سفارش کو مستردد کر دیا تھا اور اپنے جرم کی سزا بھگتنا چاہتا تھا ۔اس کا کہنا تھا وہ فاطمہ کا قاتل ہے اس نے اسے مارا ہے وہ بار بار سزائے موت کا مستحق ہے ۔فرقان حمیدی نے امام دین کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے ،امام دین جھکے کاندھوں سے باہر چلا آیا ۔عصر کی اذان ہو رہی تھی وہ مسجد میں داخل ہوا نمازی صفیں درست کر رہے تھے ۔غائب دماغی سے اس نے نماز ادا کی اس کے ذہن میں جھکڑ چل رہے تھے کبھی بیٹی کا دکھ اور کبھی وہ بلکتا نوجواں سامنے آجاتا جو اپنے کیے کی سزا بھگتنے کے لیے تیار تھا اس کو احساسِ جرم ہی مار رہا تھا ۔دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے اسے محلے کی مسجد کے مولانا صاحب کے خطبے میں کہے جملے یاد آگئے ،اللہ رحمان ہے معاف کرنا بدلے سے بہتر ہے ۔اور صفتِ رحمانی ہے ۔اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اس کے دل نے ایک فیصلہ کیا اور وہ مطمئن ہو گیا ۔
فرقان حمیدی کی خوشی کی انتہا نہ تھی وہ امام دین کا شکر گذار تھا اور ساتھ ہی وہ رب کا بڑا مشکور تھا ۔آریان حیرت سے گنگ تھا ۔امام دین نے اسے معاف کر دیا اور وہ رہا ہو چکا تھا ۔امام دین نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا بیٹا جب خدا تمھیں ہدایت دینا چاہتا ہے تو میں بھلا کون ہوتا ہوں جاؤ بیٹا اپنی نئی زندگی جیو، اللہ کی مرضی کی زندگی اور ثابت قدم رہنا ،یہ کہہ کروہ اپنی بستی کی طرف چل پڑا۔چند دنوں کے بعد دونوں باپ بیٹا اسلام آباد ائرپورٹ پہ انگلینڈ جانے والی پرواز کے منتظر تھے ۔
عفت