• ہوم پیج
  • ہمارے بارے
  • رابطہ کریں
  • پرائیوسی پالیسی
  • لاگ ان کریں
Subh.e.Pakistan Layyah
ad
WhatsApp Image 2025-07-28 at 02.25.18_94170d07
WhatsApp Image 2024-12-20 at 4.47.55 PM
WhatsApp Image 2024-12-20 at 11.08.33 PM
previous arrow
next arrow
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز
No Result
View All Result
Subh.e.Pakistan Layyah
No Result
View All Result

امان اللہ کاظم کا ادبی رنگ تحریر : شیخ اقبال حسین لیہ

webmaster by webmaster
دسمبر 31, 2016
in کالم
0
امان اللہ کاظم کا ادبی رنگ تحریر :  شیخ اقبال حسین لیہ
امان اللہ کاظم کا ادبی رنگ

iqbal-nama

ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے وقتوں میں کوئی میر بھی تھا

بلا شبہ امان اللہ کاظم کے اکثر شعری مضامین میر تقی میر کی شاعری سے مطابقت رکھتے ہیں اور زندگی کی کشمکش میں بھی دونوں سعی کرتے نظر آتے ہیں ۔میر صاحب والد کی

وفات کے بعد ہی گیارہ سال کے سن میں دلی میں آگئے تھے اور نواب صمصام الد ولہ امیر الا مرا نے جوان کے والد سے ارادت رکھتے تھے ۔میر صاحب کا اپنی سرکار سے ایک روپیہ روزانہ مقرر کر دیا ۔نواب صاحب نادر شاہ کی جنگ 1151ھ میں مارے گئے تھے اور میر صاحب کا روزینہ بند ہو گیا تھا اس وجہ سے انہیں دلی آنا پڑا تھا جہاں اپنے بڑے بھائی کے ماموں سراج الدین علی خان کے ہاں ٹھہرے تھے ۔لکھتے ہیں کہ ’’کچھ دن ان کے پاس رہا تھا جب کبھی ملاقات ہوتی بلا وجہ بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے اور طرح طرح سے تکلیفیں پہنچانے کی کوشش کرتے ۔میرے ساتھ ان کا سلوک ایسا تھا جیسا کسی دشمن سے ہوتا ہے ۔‘‘
امان اللہ کاظم ’’وہوا‘‘کے مضافاتی گاؤں میں روشن مستقبل کے خوبصورت خواب لئے اسکولوں کی پگڈنڈیوں پر بھاگے دوڑے اُچھل کو د پر زندگی سے لطف اٹھاتے رہے کہ والد محترم کی موت جیسے عظیم حادثہ نے اس معصوم کے ہونٹوں سے حقیقی مسکراہٹیں چھیں لیں ۔اس صدمہ ء جانکاہ کے باوجود پرائمری سے میٹرک تک ہمیشہ انہوں نے اعلیٰ نمبروں میں کامیابی حاصل کی ۔آپ زندگی کی پتنگ کو اونچی اُڑان دینا چاہتے تھے مگر معاش کی دوڑ کی چرخی خالی تھی ۔لہذا خواہشات کی پتنگ نہ اُڑ سکی ۔بڑے بھائی رحمت اللہ خان نے اپنی قلیل تنخواہ کا آدھا حصہ بھی بھیجا مگر وہ دو ماہ بعد ہی زرعی یونیورسٹی لائل پور ( آج کے فیصل آباد)یونیورسٹی کی زندگی کو خیر باد کہنا پڑا اور پھر بہاول پور میں ٹیچرز ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے وہ سند حاصل کی جس کے بعد روزگار کا دروازہ تو کھل جاتا ہے مگر اس دروازے سے محض اس قدر آکسیجن ملتی ہے کہ زندگی اور سانس کا سلسلہ برقرار رہتا ہے ۔ایجوکیشن کی سند لینے کے بعد امان اللہ کاظم سکول ٹیچر بن گئے ۔مختلف سکولوں میں ملازمت کی ۔عمر بھر لوگوں کے بچوں کو پڑھا کر اعلیٰ منازل تک پہنچانے والا یہ خو دار تخلیق کار آج بھی کرایہ مکان میں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ایسا ہی زندگی کے دُکھوں بھر ادرد میر تقی میر کی شاعری میں بجا طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

امان اللہ کاظم بھی اپنے جذبات کا بہر طوریوں اظہار کرتے ہیں ۔
صورت اشک رواں خون جگر کے ساتھ ساتھ
حسرتیں پلکوں کے زینوں سے پھیل کے رہ گئیں
کیسی ،کیسی ،پیاری ،پیاری ،مسکراتی صورتیں
گردش ایام کی چسکی میں پس کر رہ گئیں
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں یا جن کو استاد ماننا چاہیے ان میں ایک بھی ایسا نہ نکلے گا ۔جس کا تمام کلام اول سے آخر تک حسن و لطافت کے اعلیٰ درجے پر واقع ہوا ہو کیونکہ یہ خاصیت صرف خدا کے کلام میں ہوسکتی ہے ۔شاعر کی معراج کمال یہ ہے کہ اس کا عام کلام ہموار اور اصول کے موافق ہو اور کہیں کہیں اس میں ایسا حیرت انگیز جلوہ نظر آئے جس سے شاعر کا کمال خا ص وعام کے دلوں پر نقش ہوجائے یہ بات اسی شاعر کے کلام میں پائی جاسکتی ہے ۔جس کا کلام سادہ اور نیچرل ہے میر صاحب کے کلام میں ایسے حیرت انگیز جلوے اکثر نظر آتے ہیں
ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
۔۔۔۔۔
یاد اُس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
۔۔۔۔
اُلٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
اسی طرح اگرچہ امان اللہ کاظم کے اشعار ملائم ،دھیمے،سلیس اور سادہ ہوتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں غضب کا جوش یا درد چھپا ہوتا ہے الفاظ کی سلاست اور ترتیب کی سادگی لوگوں کو اکثر دھوکہ دیتی ہے وہ ان پر سے بے خبر گزر جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ شاعر نے ان سلیس الفاظ اور معمولی ترتیب میں کیا کیا کمال بھر رکھا ہے ۔
میکدے میں شیخ جی آئے نئے بہروپ میں
لیکن اپنی حرکتوں سے صاف پہچانے گئے
عمر بھر یہ ہاتھ پتھر جس پہ برساتے رہے
آج اس کی قبر پر وہ پھول برسانے لگے
اخلاص مرا کشتہ تضحیک رہا ہے
اور عشق بھی آرزدہ تشکیک رہا ہے
ڈستا ہے میرے دل کو وہی بُعد کا اساس
ہر چند رگِ جاں سے وہ نزدیک رہا ہے

میر صاحب کی رُعابیت بھی کچھ کم پر لطف نہیں اور بعض تو بہت اچھی ہیں ۔ان کے علاوہ متفرق مخمس اور مثنویاں بھی کہی ہیں لیکن میران کا اصل رنگ غزل میں پایا جاتا ہے اور س میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔وہ غزل کے بادشاہ ہیں ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔

جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آوے
اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آوے

امان اللہ کاظم نے بھی غزل میں بہت سے نئے تجربات کئے ہیں انہوں نے اپنی غزلوں میں جدیدیت کا رنگ شامل کر کے اُن کو ایک نئے رنگ اور آہنگ سے ہمکنار کر دیا ہے۔انہوں نے اپنی غزلوں کے قافیوں اور ردیفوں پر بھی نئے تجربے کئے ہیں

ساقی اُٹھالے جام،طبیعت اُداس ہے
رہنے تشنہ کام ،طبیعت اُداس ہے
ناصح! اِک اور شب مری بے کیف کٹ گئی
جا! وقت کے غلام ،طبیعت اُدا س ہے
چھلکے چھاگل آنکھ کی ،چھم چھم برسیں بوندیں
دُکھڑے جیون پررات میں ،پریم پجاری گوندھیں
جوں ہی آنکھیں موندیں ،ساجن پائیں سامنے

میرصاحب کے کلام میں اخلاقی اور حکیمانہ اشعار کی کچھ کمی نہیں ،لیکن اخلاق ہو یا حکمت،اندرونی کیفیت ہو یا بیرونی کیفیت ،انداز بیان وہی ہے نہایت معمولی اور سادہ الفاظ میں بڑے بڑے نکات اور بلند مضامین اس بے تکلفی سے بیان کرجاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شادرہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

امان اللہ کاظم نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے میں ہونے والے بگاڑ کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے ۔جابرزرداروں اور بے رحم مقتدر لوگوں کو کھری کھری سنائی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام جس طرح ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے ۔وہ اس کی نشان دہی کچھ یوں کرتے ہیں ۔

زردی چوکھٹ تے پئے انسانیں دے جھکدے ہِن ضمیر
آدمیت دے اکھیں وچوں وگدن رت دے نیر
نانگ تہذیب فرنگ دا ڈنگ کے وہندا وہہ گئے
ماندریں کوں مندربھُل گئے ،پئے کٹیندے ہن لکیر

امان اللہ کاظم کے متعلق اپنی ایک نظم میں نادر قیصرانی کچھ یوں رقم طراز ہیں

ادب دا مسافر امان اللہ کاظم
حقیقت دا شاعر امان اللہ کاظم
ایندے درتے مضمون ہتھ بدھ کے آندن
ہے لوظیں تے جابر امان اللہ کاظم

بلا شبہ ’’امان اللہ کاظم‘‘بھی میر تقی میر کی طرح اپنے عہد کابڑانام ہے اور یقیناًآنیوالی نسلیں بھی امان اللہ کاظم کو اپنے دلوں میں یاد رکھیں گی اور کہیں گی کہ
کہتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں کوئی ’’کاظم‘‘بھی تھا

Tags: column by shak iqbal ly
Previous Post

ڈیرہ غازیخان ۔ طبی سہولیات کی فراہمی میں کوتاہی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی ، محمد یثرب کمشنر

Next Post

لیہ ۔ وزیر داخلہ ملک کا منسٹر ہے سب کو ان سے ملنے کا حق حاصل ہے ۔ مولانا عبدالغفور حیدری

Next Post
لیہ ۔ وزیر داخلہ ملک کا منسٹر ہے سب کو ان سے ملنے کا حق حاصل ہے ۔ مولانا عبدالغفور حیدری

لیہ ۔ وزیر داخلہ ملک کا منسٹر ہے سب کو ان سے ملنے کا حق حاصل ہے ۔ مولانا عبدالغفور حیدری

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


قومی/ بین الاقوامی خبریں

file foto
قومی/ بین الاقوامی خبریں

ہ پنجاب میں تاریخ کا بڑا سیلاب آیا ۔اگر ہم بروقت انتظامات نہ کرتے تو جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتے۔مخالفین ہماری کار کردگی سے خائف ہیں ۔ مریم نواز

by webmaster
ستمبر 15, 2025
0

لاہور ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہے، سیلاب متاثرین کوتین...

Read moreDetails
پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں: جلال پور پیر والا کے قریب موٹروے کا حصہ پانی میں بہہ گیا، ٹریفک کے لیے بند

ستمبر 15, 2025
سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

سینئر وزیر مریم اورنگ زیب کا علی پور اور سیت پور کے سیلابی متاثرہ علاقوں کا دورہ

ستمبر 15, 2025
 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

 یوم دفاع: دن کے آغاز پر توپوں کی سلامی، ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں

ستمبر 6, 2025
آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

آٹے کی قلت: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر پابندی عائد

ستمبر 5, 2025
امان اللہ کاظم کا ادبی رنگ
iqbal-nama
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں اگلے وقتوں میں کوئی میر بھی تھا
بلا شبہ امان اللہ کاظم کے اکثر شعری مضامین میر تقی میر کی شاعری سے مطابقت رکھتے ہیں اور زندگی کی کشمکش میں بھی دونوں سعی کرتے نظر آتے ہیں ۔میر صاحب والد کی
وفات کے بعد ہی گیارہ سال کے سن میں دلی میں آگئے تھے اور نواب صمصام الد ولہ امیر الا مرا نے جوان کے والد سے ارادت رکھتے تھے ۔میر صاحب کا اپنی سرکار سے ایک روپیہ روزانہ مقرر کر دیا ۔نواب صاحب نادر شاہ کی جنگ 1151ھ میں مارے گئے تھے اور میر صاحب کا روزینہ بند ہو گیا تھا اس وجہ سے انہیں دلی آنا پڑا تھا جہاں اپنے بڑے بھائی کے ماموں سراج الدین علی خان کے ہاں ٹھہرے تھے ۔لکھتے ہیں کہ ’’کچھ دن ان کے پاس رہا تھا جب کبھی ملاقات ہوتی بلا وجہ بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے اور طرح طرح سے تکلیفیں پہنچانے کی کوشش کرتے ۔میرے ساتھ ان کا سلوک ایسا تھا جیسا کسی دشمن سے ہوتا ہے ۔‘‘ امان اللہ کاظم ’’وہوا‘‘کے مضافاتی گاؤں میں روشن مستقبل کے خوبصورت خواب لئے اسکولوں کی پگڈنڈیوں پر بھاگے دوڑے اُچھل کو د پر زندگی سے لطف اٹھاتے رہے کہ والد محترم کی موت جیسے عظیم حادثہ نے اس معصوم کے ہونٹوں سے حقیقی مسکراہٹیں چھیں لیں ۔اس صدمہ ء جانکاہ کے باوجود پرائمری سے میٹرک تک ہمیشہ انہوں نے اعلیٰ نمبروں میں کامیابی حاصل کی ۔آپ زندگی کی پتنگ کو اونچی اُڑان دینا چاہتے تھے مگر معاش کی دوڑ کی چرخی خالی تھی ۔لہذا خواہشات کی پتنگ نہ اُڑ سکی ۔بڑے بھائی رحمت اللہ خان نے اپنی قلیل تنخواہ کا آدھا حصہ بھی بھیجا مگر وہ دو ماہ بعد ہی زرعی یونیورسٹی لائل پور ( آج کے فیصل آباد)یونیورسٹی کی زندگی کو خیر باد کہنا پڑا اور پھر بہاول پور میں ٹیچرز ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے وہ سند حاصل کی جس کے بعد روزگار کا دروازہ تو کھل جاتا ہے مگر اس دروازے سے محض اس قدر آکسیجن ملتی ہے کہ زندگی اور سانس کا سلسلہ برقرار رہتا ہے ۔ایجوکیشن کی سند لینے کے بعد امان اللہ کاظم سکول ٹیچر بن گئے ۔مختلف سکولوں میں ملازمت کی ۔عمر بھر لوگوں کے بچوں کو پڑھا کر اعلیٰ منازل تک پہنچانے والا یہ خو دار تخلیق کار آج بھی کرایہ مکان میں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ایسا ہی زندگی کے دُکھوں بھر ادرد میر تقی میر کی شاعری میں بجا طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ مفلس کا امان اللہ کاظم بھی اپنے جذبات کا بہر طوریوں اظہار کرتے ہیں ۔ صورت اشک رواں خون جگر کے ساتھ ساتھ حسرتیں پلکوں کے زینوں سے پھیل کے رہ گئیں کیسی ،کیسی ،پیاری ،پیاری ،مسکراتی صورتیں گردش ایام کی چسکی میں پس کر رہ گئیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں یا جن کو استاد ماننا چاہیے ان میں ایک بھی ایسا نہ نکلے گا ۔جس کا تمام کلام اول سے آخر تک حسن و لطافت کے اعلیٰ درجے پر واقع ہوا ہو کیونکہ یہ خاصیت صرف خدا کے کلام میں ہوسکتی ہے ۔شاعر کی معراج کمال یہ ہے کہ اس کا عام کلام ہموار اور اصول کے موافق ہو اور کہیں کہیں اس میں ایسا حیرت انگیز جلوہ نظر آئے جس سے شاعر کا کمال خا ص وعام کے دلوں پر نقش ہوجائے یہ بات اسی شاعر کے کلام میں پائی جاسکتی ہے ۔جس کا کلام سادہ اور نیچرل ہے میر صاحب کے کلام میں ایسے حیرت انگیز جلوے اکثر نظر آتے ہیں ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا ۔۔۔۔۔ یاد اُس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا ۔۔۔۔ اُلٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا اسی طرح اگرچہ امان اللہ کاظم کے اشعار ملائم ،دھیمے،سلیس اور سادہ ہوتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں غضب کا جوش یا درد چھپا ہوتا ہے الفاظ کی سلاست اور ترتیب کی سادگی لوگوں کو اکثر دھوکہ دیتی ہے وہ ان پر سے بے خبر گزر جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ شاعر نے ان سلیس الفاظ اور معمولی ترتیب میں کیا کیا کمال بھر رکھا ہے ۔ میکدے میں شیخ جی آئے نئے بہروپ میں لیکن اپنی حرکتوں سے صاف پہچانے گئے عمر بھر یہ ہاتھ پتھر جس پہ برساتے رہے آج اس کی قبر پر وہ پھول برسانے لگے اخلاص مرا کشتہ تضحیک رہا ہے اور عشق بھی آرزدہ تشکیک رہا ہے ڈستا ہے میرے دل کو وہی بُعد کا اساس ہر چند رگِ جاں سے وہ نزدیک رہا ہے میر صاحب کی رُعابیت بھی کچھ کم پر لطف نہیں اور بعض تو بہت اچھی ہیں ۔ان کے علاوہ متفرق مخمس اور مثنویاں بھی کہی ہیں لیکن میران کا اصل رنگ غزل میں پایا جاتا ہے اور س میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔وہ غزل کے بادشاہ ہیں ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔ جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آوے اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آوے امان اللہ کاظم نے بھی غزل میں بہت سے نئے تجربات کئے ہیں انہوں نے اپنی غزلوں میں جدیدیت کا رنگ شامل کر کے اُن کو ایک نئے رنگ اور آہنگ سے ہمکنار کر دیا ہے۔انہوں نے اپنی غزلوں کے قافیوں اور ردیفوں پر بھی نئے تجربے کئے ہیں ساقی اُٹھالے جام،طبیعت اُداس ہے رہنے تشنہ کام ،طبیعت اُداس ہے ناصح! اِک اور شب مری بے کیف کٹ گئی جا! وقت کے غلام ،طبیعت اُدا س ہے چھلکے چھاگل آنکھ کی ،چھم چھم برسیں بوندیں دُکھڑے جیون پررات میں ،پریم پجاری گوندھیں جوں ہی آنکھیں موندیں ،ساجن پائیں سامنے میرصاحب کے کلام میں اخلاقی اور حکیمانہ اشعار کی کچھ کمی نہیں ،لیکن اخلاق ہو یا حکمت،اندرونی کیفیت ہو یا بیرونی کیفیت ،انداز بیان وہی ہے نہایت معمولی اور سادہ الفاظ میں بڑے بڑے نکات اور بلند مضامین اس بے تکلفی سے بیان کرجاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شادرہو ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو امان اللہ کاظم نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے میں ہونے والے بگاڑ کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے ۔جابرزرداروں اور بے رحم مقتدر لوگوں کو کھری کھری سنائی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام جس طرح ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے ۔وہ اس کی نشان دہی کچھ یوں کرتے ہیں ۔ زردی چوکھٹ تے پئے انسانیں دے جھکدے ہِن ضمیر آدمیت دے اکھیں وچوں وگدن رت دے نیر نانگ تہذیب فرنگ دا ڈنگ کے وہندا وہہ گئے ماندریں کوں مندربھُل گئے ،پئے کٹیندے ہن لکیر امان اللہ کاظم کے متعلق اپنی ایک نظم میں نادر قیصرانی کچھ یوں رقم طراز ہیں ادب دا مسافر امان اللہ کاظم حقیقت دا شاعر امان اللہ کاظم ایندے درتے مضمون ہتھ بدھ کے آندن ہے لوظیں تے جابر امان اللہ کاظم بلا شبہ ’’امان اللہ کاظم‘‘بھی میر تقی میر کی طرح اپنے عہد کابڑانام ہے اور یقیناًآنیوالی نسلیں بھی امان اللہ کاظم کو اپنے دلوں میں یاد رکھیں گی اور کہیں گی کہ کہتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں کوئی ’’کاظم‘‘بھی تھا
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • ہمارے بارے
    • لیہ کی تاریخ
  • خبریں
    • صفحہ اول
    • جنوبی پنجاب
      • لیہ نیوز
      • ڈیرہ غازی خان
      • مظفر گڑھ
      • راجن پور
      • ملتان
      • بہاول پور
      • خانیوال
      • رحیم یار خان
    • قومی/ بین الاقوامی خبریں
  • نیوز بلٹن
  • کالم
    • شب و روز زندگی
  • شاعری
  • وڈیوز

© 2025 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.