ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے وقتوں میں کوئی میر بھی تھا
امان اللہ کاظم ’’وہوا‘‘کے مضافاتی گاؤں میں روشن مستقبل کے خوبصورت خواب لئے اسکولوں کی پگڈنڈیوں پر بھاگے دوڑے اُچھل کو د پر زندگی سے لطف اٹھاتے رہے کہ والد محترم کی موت جیسے عظیم حادثہ نے اس معصوم کے ہونٹوں سے حقیقی مسکراہٹیں چھیں لیں ۔اس صدمہ ء جانکاہ کے باوجود پرائمری سے میٹرک تک ہمیشہ انہوں نے اعلیٰ نمبروں میں کامیابی حاصل کی ۔آپ زندگی کی پتنگ کو اونچی اُڑان دینا چاہتے تھے مگر معاش کی دوڑ کی چرخی خالی تھی ۔لہذا خواہشات کی پتنگ نہ اُڑ سکی ۔بڑے بھائی رحمت اللہ خان نے اپنی قلیل تنخواہ کا آدھا حصہ بھی بھیجا مگر وہ دو ماہ بعد ہی زرعی یونیورسٹی لائل پور ( آج کے فیصل آباد)یونیورسٹی کی زندگی کو خیر باد کہنا پڑا اور پھر بہاول پور میں ٹیچرز ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے وہ سند حاصل کی جس کے بعد روزگار کا دروازہ تو کھل جاتا ہے مگر اس دروازے سے محض اس قدر آکسیجن ملتی ہے کہ زندگی اور سانس کا سلسلہ برقرار رہتا ہے ۔ایجوکیشن کی سند لینے کے بعد امان اللہ کاظم سکول ٹیچر بن گئے ۔مختلف سکولوں میں ملازمت کی ۔عمر بھر لوگوں کے بچوں کو پڑھا کر اعلیٰ منازل تک پہنچانے والا یہ خو دار تخلیق کار آج بھی کرایہ مکان میں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ایسا ہی زندگی کے دُکھوں بھر ادرد میر تقی میر کی شاعری میں بجا طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
امان اللہ کاظم بھی اپنے جذبات کا بہر طوریوں اظہار کرتے ہیں ۔
صورت اشک رواں خون جگر کے ساتھ ساتھ
حسرتیں پلکوں کے زینوں سے پھیل کے رہ گئیں
کیسی ،کیسی ،پیاری ،پیاری ،مسکراتی صورتیں
گردش ایام کی چسکی میں پس کر رہ گئیں
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں یا جن کو استاد ماننا چاہیے ان میں ایک بھی ایسا نہ نکلے گا ۔جس کا تمام کلام اول سے آخر تک حسن و لطافت کے اعلیٰ درجے پر واقع ہوا ہو کیونکہ یہ خاصیت صرف خدا کے کلام میں ہوسکتی ہے ۔شاعر کی معراج کمال یہ ہے کہ اس کا عام کلام ہموار اور اصول کے موافق ہو اور کہیں کہیں اس میں ایسا حیرت انگیز جلوہ نظر آئے جس سے شاعر کا کمال خا ص وعام کے دلوں پر نقش ہوجائے یہ بات اسی شاعر کے کلام میں پائی جاسکتی ہے ۔جس کا کلام سادہ اور نیچرل ہے میر صاحب کے کلام میں ایسے حیرت انگیز جلوے اکثر نظر آتے ہیں
ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
۔۔۔۔۔
یاد اُس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
۔۔۔۔
اُلٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
اسی طرح اگرچہ امان اللہ کاظم کے اشعار ملائم ،دھیمے،سلیس اور سادہ ہوتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں غضب کا جوش یا درد چھپا ہوتا ہے الفاظ کی سلاست اور ترتیب کی سادگی لوگوں کو اکثر دھوکہ دیتی ہے وہ ان پر سے بے خبر گزر جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ شاعر نے ان سلیس الفاظ اور معمولی ترتیب میں کیا کیا کمال بھر رکھا ہے ۔
میکدے میں شیخ جی آئے نئے بہروپ میں
لیکن اپنی حرکتوں سے صاف پہچانے گئے
عمر بھر یہ ہاتھ پتھر جس پہ برساتے رہے
آج اس کی قبر پر وہ پھول برسانے لگے
اخلاص مرا کشتہ تضحیک رہا ہے
اور عشق بھی آرزدہ تشکیک رہا ہے
ڈستا ہے میرے دل کو وہی بُعد کا اساس
ہر چند رگِ جاں سے وہ نزدیک رہا ہے
میر صاحب کی رُعابیت بھی کچھ کم پر لطف نہیں اور بعض تو بہت اچھی ہیں ۔ان کے علاوہ متفرق مخمس اور مثنویاں بھی کہی ہیں لیکن میران کا اصل رنگ غزل میں پایا جاتا ہے اور س میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔وہ غزل کے بادشاہ ہیں ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔
جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آوے
اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آوے
امان اللہ کاظم نے بھی غزل میں بہت سے نئے تجربات کئے ہیں انہوں نے اپنی غزلوں میں جدیدیت کا رنگ شامل کر کے اُن کو ایک نئے رنگ اور آہنگ سے ہمکنار کر دیا ہے۔انہوں نے اپنی غزلوں کے قافیوں اور ردیفوں پر بھی نئے تجربے کئے ہیں
ساقی اُٹھالے جام،طبیعت اُداس ہے
رہنے تشنہ کام ،طبیعت اُداس ہے
ناصح! اِک اور شب مری بے کیف کٹ گئی
جا! وقت کے غلام ،طبیعت اُدا س ہے
چھلکے چھاگل آنکھ کی ،چھم چھم برسیں بوندیں
دُکھڑے جیون پررات میں ،پریم پجاری گوندھیں
جوں ہی آنکھیں موندیں ،ساجن پائیں سامنے
میرصاحب کے کلام میں اخلاقی اور حکیمانہ اشعار کی کچھ کمی نہیں ،لیکن اخلاق ہو یا حکمت،اندرونی کیفیت ہو یا بیرونی کیفیت ،انداز بیان وہی ہے نہایت معمولی اور سادہ الفاظ میں بڑے بڑے نکات اور بلند مضامین اس بے تکلفی سے بیان کرجاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شادرہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
امان اللہ کاظم نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے میں ہونے والے بگاڑ کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ہے ۔جابرزرداروں اور بے رحم مقتدر لوگوں کو کھری کھری سنائی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام جس طرح ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے ۔وہ اس کی نشان دہی کچھ یوں کرتے ہیں ۔
زردی چوکھٹ تے پئے انسانیں دے جھکدے ہِن ضمیر
آدمیت دے اکھیں وچوں وگدن رت دے نیر
نانگ تہذیب فرنگ دا ڈنگ کے وہندا وہہ گئے
ماندریں کوں مندربھُل گئے ،پئے کٹیندے ہن لکیر
امان اللہ کاظم کے متعلق اپنی ایک نظم میں نادر قیصرانی کچھ یوں رقم طراز ہیں
ادب دا مسافر امان اللہ کاظم
حقیقت دا شاعر امان اللہ کاظم
ایندے درتے مضمون ہتھ بدھ کے آندن
ہے لوظیں تے جابر امان اللہ کاظم
بلا شبہ ’’امان اللہ کاظم‘‘بھی میر تقی میر کی طرح اپنے عہد کابڑانام ہے اور یقیناًآنیوالی نسلیں بھی امان اللہ کاظم کو اپنے دلوں میں یاد رکھیں گی اور کہیں گی کہ
کہتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں کوئی ’’کاظم‘‘بھی تھا