میں روز مرہ کی طرح اپنے کورٹ کے کاموں میں مصروف تھا اور میرا موبائل لگا تار ویبریٹ ہورہا تھا میں نے موبائل کی سکرین دیکھی تو انتہائقابل احترام اور پیارے دوست عدیل چنگوانی کے نمبر سے کال آر ہی تھی ۔ میں نے کال اٹھائی تو دوسری طرف سے ایک سسکتی ہوئی آوازمیری سماعتوں سے ٹکرائی ’’طیار بھائی ‘‘پھر یکدم خاموشی چھا گئی آواز میں اتنا درد تھا کہ میرے دل کی دھڑکن دوگنا تیز ہوگئی اور میں نے فوراََ کہا ’’عدیل ‘‘کیا ہوا ۔ دوسری طرف سے رونے کی آواز ابھری جس نے میرے ذہن پہ چوٹ لگائی اور میں نے دوبارہ سوال کیا عدیل کیاہوا آپ کیوں رو رہے ہو ۔ ۔ ۔ آواز میں درد کی شدت تھی اور عدیل بول کے بھی کچھ نہیں بول پا رہاتھا اس نے اپنے جذبات پہ قابو رکھتے ہوئے کہاکہ ’’طیار بھائی ‘‘ میرے ابو فوت ہوگئے ہیں ۔ ۔ اور پھر موبائل پر دونوں طرف سے خاموشی چھا گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ ایک سال پہلے کی بات ہے میں چھوٹے بھائی اقتدار کے ساتھ چوٹی زیرین میں لغاری پیٹرول پمپ سے گاڑی میں پیٹرول ڈلوا رہا تھا کہ چھوٹے بھائی نے پمپ کے ساتھ موجود ہوٹل پہ بیٹھے ایک بندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بھائی یہ آپ کے دوست عدیل چنگوانی کے والد محمد عارف خان چنگوانی ہیں ان کے نام سے تو میں تب سے واقف تھا جب سے ہو ش سنبھالا تھا مگر چہرہ پہلی دفعہ دیکھا میں گاڑی سے اترا اور سیدھا ان کو سلام کرنے کے لیے چلا گیا اس وقت انکے ساتھ سینئر صحافی سراج احمد خان چنگوانی بھی موجود تھے سلام دعا کے بعد میں نے اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے حد سے زیادہ محبت سے نوازا، میں نے انہیں اس چھوٹی سی ملاقات میں حد درجے شفیق،مہربان،خوش اخلاق،نفیس مزاج اور ملنسار پایا سینئر صحافی ہونے کے باوجود ان میں وہ انا پرستی نہیں تھی بلکہ عاجزی ان کے الفاظ اور لہجے سے ٹپک رہی تھی اور ان کی شرافت کی سب سے بڑی دلیل تھی ان سے کچھ دیر ملاقات کے بعد میں وہاں سے روانہ ہو گیا یہ ان سے پہلی اور آخری ملاقات تھی ۔ چوٹی زیرین کے صحافیوں میں ان کا شمار صاف صحافت کرنے والے صحافیوں میں ہوتا تھا کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے کسی کو بلیک میل کیا جھوٹی خبر شاءع کی سچ کہوں تو حق سچ کی صحافت کرنے والے نڈر اور بے باک صحافی تھے ۔
سردار عارف خان چنگوانی نے 28جون 1966کو چوٹی زیرین میں آنکھ کھولی آپ بچپن سے ہی اعلیٰ صفات کے مالک تھے ۔ آپ نے تعلیمی کیرئیر کا آغاز 3 مارچ 1971 کو گورنمنٹ پرائمری سکول چوٹی زیرین سے کیا ۔ 31مارچ 1976کو پرائمری پاس کر کے 17 اپریل1976کو گورنمنٹ ہائی سکول چوٹی زیرین میں داخلہ لے لیا ۔ 5مئی 1981کو میٹرک کا امتحان شاندار نمبروں سے پاس کرنے کے بعد کوٹ چھٹہ سے پی ٹی سی کی اور 1984 کو گورنمنٹ مڈل سکول شاھو بزدار میں ٹیچر تعینات ہو گئے ۔
آپ جون 1989 کو حج کرنے کے لئے جب سعودی عرب گئے تو وہاں پر 28 اگست 1989 کو آپ کی ملاقات میاں شہباز شریف سے ھوئی انہوں نے آپ کو مسلم لیگ ن جوائن کرنے کی دعوت دی اور آپ کو سعودی عرب میں مسلم لیگ ن کا صدر بنا دیا گیا یہ سیاست میں آپ کا پہلا قدم تھا ۔ اس کے بعد آپ مسلسل تیس سال تک مسلم لیگ ن میں رہے آپ مستقل مزاج رکھنے والے انسان تھے ۔ سعودی عرب سے وآپسی پر آپ چوٹی زیرین میں مسلم لیگ ن کی سیاسی سرگرمیوں میں شامل رہے
2001 کو صحافت میں قدم رکھا اور مختلف اداروں کے ساتھ کام کیا ۔ آپ نے جس ادارے میں بھی کام کیا اس کے ساتھ جی جان لگا دی
یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے بڑے میڈیا ہاوسسز آپ کے ممنون رہے آپ 5 دسمبر 2015 کو چوٹی زیرین کی یونین کونسل میں جنرل کونسلر منتخب ھوئے ۔ اور دل کھول کر عوام کی خدمت کی عوامی حلقوں نے ہمیشہ آپ کے کام کو سراہا ۔ آپ نے صحافت اور سیاست کو ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا ۔ اور آخر کار 7مارچ 2019 کو آپ کارڈیالوجی سنٹر ملتان میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
طیار خان ایڈووکیٹ